معروف صحافی ، دانشور ،مصنف،سابق طالب علم راہنما اور انسانی حقوق کے سرگرم راہنما حسین نقی پاکستان کے صحافتی ،سیاسی ،سماجی ،عملی اور فکری حلقوں میں ایک بڑے نیک نام کی شہرت رکھتے ہیں ۔بائیں بازو یا لبرل سیاست کے علمبردار حسین نقی اپنی سوچ اور فکری حلقوں کے باوجود وہ اپنی مخالف سوچ اور فکر کے حلقوں میں بھی مثالی تعلقات رکھتے ہیں ۔کیونکہ وہ بنیادی طور پر مکالمہ کے آدمی ہیں، تنقید یا تضحیک کے درمیان فرق رکھ کر مکالمہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں آزاد یا نظریاتی صحافت،سیاست ، جمہوریت ، آئین و قانون کی حکمرانی ہو یا میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سمیت محروم طبقات او رانسانی حقوق کی پاسداری کا مقدمہ، جب بھی کوئی مورخ لکھے گا تو اس میں سے حسین نقی کے کردار یا جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ بنیادی طور پر تنازعات یا جنگوں کے مخالف اور داخلی ،علاقائی یا عالمی تعلقات میںپاکستان کے بہتر تعلقات دیکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔
وہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے بھی بڑے حامی ہیں اور اس تناظر میں ان کی ’’ پاک انڈیا فورم‘‘ میں کافی سرگرم رہے اور اس نقطہ کو ہمیشہ اجاگر کرتے ہیںکہ دونوں ممالک یا خطہ کے دیگر ممالک کے مسائل کا حل تنازعات یا جنگوں میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ان کا زندگی کی جدوجہد معاشرے میں انتہا پسندی ،پرتشدد رجحانات ، دہشت گردی کے خلاف رہی اور وہ اس تناظر میں ہماری داخلی سیاست سے جڑے بڑے فیصلوں پر ہمیشہ تنقید کرتے رہے ہیں ۔
’’ مجھ سے جو ہوسکا ‘‘ ان کی سوانح عمری ہے۔ یہ کتاب فرخ سہیل گوئندی کے ادارے جمہوری پبلیشرز نے شایع کی ہے ۔کتاب کے ٹائٹل ہی سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ٹائٹل میں ہی حسین نقی کی عاجزی اور انکساری کی جھلک نمایاں ہوتی ہے اور وہ بہت کچھ کرنے کے عملا بڑے دعوے نہیں کرتے بلکہ ان کے بقول ان کی زندگی کی جدوجہد میں معاشرے کی بہتری میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے۔نامہ نگار یا رپورٹر سے صحافت کے سفر کا آغاز کرنے والے حسین نقی صحافتی میدان میں رپورٹر سے ایڈیٹر تک کا سفر کیا ۔
پنجابی کا معروف اخبار ’’سجن ‘‘ بھی ان ہی کی ادارت میں شایع ہوتا رہا ہے ۔اس سوانح عمری کا انتساب بھی انھوں نے ’’ پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں کے نام ‘‘ کیا ہے جو ان کی جمہوریت سے گہری وابستگی کے پہلو کو نمایاں کرتی ہے ۔بقول فرخ سہیل گوئندی فوجی حکمران ہوں یا سیاسی حکمران،ان کے قلم نے کبھی کسی سے مفاہمت نہیں کی ۔پاکستان کی 1947کے بعد کی سیاست اور تاریخ کے ان واقعات کے گواہ ہیں جو کم ہی بیان کیے گئے ہیں ۔
ہمارے ہاں سوانح عمری خود پسندی سے لدی ہوتی ہے ،مگر یہ کتاب بہت مختلف ہے ،ایک شفاف شخص کی داستان حیات ہے اور اپنے زمانے کی سیاسی تاریخ بھی ۔نستعلیق اردو بولنے والے حسین نقی برصغیر کے اہم اور معروف تہذیبی و تمدنی شہر لکھنو میں 23جون1938کو پیدا ہوئے ۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں بڑے بڑے نام اپنی سوانح عمری لکھے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔حسین نقی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے ’’مجھ سے جو ہوسکا ‘‘ لکھ ڈالی۔حسین نقی کے بقول فرخ سہیل گوئندی اور عامر ریاض کا اہم کردار تھا، ان کی مدد کے بغیر یہ سب کچھ لکھنا ممکن نہیں تھا۔
حسین نقی نے اپنا سفر طلبہ سیاست سے کراچی میں کیا اور وہ نہ صرف نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن یعنی این ایس ایف کے اہم راہنما تھے اور اسی کی بنیاد پر وہ جامعہ کراچی کے صدر بھی منتخب ہوئے ۔یہ وہ دہائی تھی جب اس ملک میں دائیں اور بائیں باوزکی سیاست اور نظریاتی کشمکش کا دور تھا ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں طلبہ سیاست کے پہلووں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ،اگرچہ اس میں آگے جاکر کچھ خرابیاں بھی پیدا ہوئیں اور بالخصوص جنرل ضیا کے مارشل لا اور طلبہ سیاست پر پابندی کے نتائج بھی منفی تھے مگر پھر بھی یہ طلبہ اور مزدور سیاست ہی تھی جس نے نہ صرف فوجی آمروں کا مقابلہ کیا بلکہ جمہوری جدوجہد میں مزاحمتی راستہ بھی اختیار کیا اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط بھی کیا۔ اس سوانح عمری میں ہمیں بائیں اور دائیں بازو کی طلبہ سیاست اور جدوجہد کی کراچی سے جڑی کہانی بھی پڑھنے کوملتی ہے اور حسین نقی نے ترقی پسند طلبہ تحریک کا زبردست تجزیہ بھی پیش کرتے ہوئے 1954-58کے دور کا احاطہ کیا ہے ۔
اسی طرح ان کی سوانح عمری میں ہمیںایوبی آمریت،ایوب مخالف لہرمیں ترقی پسند طلبہ کا کردار،رپورٹنگ اور صحافت کا طلسم،لاہور ایوبی زوال ،منتخب بنگالی قیادت کو اقتدار دینے سے انکار ،ذزوالفقار علی بھٹو کا عہد،جنرل ضیا یا ضیائی مارشل لا،صحافت سے جڑے یادگار لحمات یعنی کچھ عشق کیا ،کچھ کام کیا ،ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کا تفصیلی ذکر شامل کیا ہے ۔حسین نقی صحافت کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے صحافتی تنظیموں کی پلیٹ فارم سے صحافیوں کے بنیادی حقوق،فوجی مداخلتوں ،جمہوریت کی مضبوطی ،آئین اور قانون کی حکمرانی ،شہری آزادیوں ، محروم طبقات کی آواز،آزادی اظہار رائے کی جدوجہدمیںحصہ لیا اور ان کی یہ جدوجہد آج بھی ان کی طرف سے جاری ہے اور وہ ان معاملات میں کسی سمجھوتے یا دباو کا شکار نہیں ہوئے۔
پاکستان کے کمزور طبقات کا مقدمہ خوب لڑا اور اس میں ا ن کی اس جدوجہد میں ہم آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔حسین نقی کی اس سوانح عمری میں اہم باب ان کا خاندانی پس منظر،وسیب،لکھنو اور وطنی اور مذہبی بنیاد پر شناختیں ہیں جو بہت معلوماتی اور دلچسپ واقعات کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
اس پوری سوانح عمری میں حسین نقی پاکستان کی سیاست ،صحافت سمیت سماجیات ،انتہا پسندی اور ریاست یا حکمرانوں کے مجموعی کردار کے تناظر میں بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہیں اور قاری کو متوجہ کرتے ہیں کہ وہ خود سے بھی ان سوالوں کے جوابات تلاش کریں کہ ہم کیسے ایک فلاحی اور جمہوری معاشرہ بن سکتے ہیں اور اس میں ہمارے اقدامات کیا ہونے چاہیے۔حسین نقی نے 1947میں اخبارات اور اس کی رپورٹنگ کا تجزیہ بھی پیش کیا ۔حسین نقی کے بقول اگر کانگریس اور مسلم لیگ نے 1930اور 1940کی دہائیوں میں پاکستان اور انڈیا بننے کے بعد بھی اپنے اپنے فوری مفادات کے لیے ارادتاً بعض بڑی غلطیاں نہ کی ہوتی تو آزادی کے بعد دونوں ملکوں کو سیاسی ،معاشی اور معاشرتی اعتبار سے ایک نمایاں اور قابل احترام حیثیت میں تسلیم کیا جاتا۔آج جب میں طالبان اور مودی کا دور دیکھتا ہوں تومجھے اس میں مذہب کارڈ کھیلنے کے مہلک نتائج کا ادراک ہوتا ہے۔
ان کی سوانح عمری میں کامریڈ شرف علی،حسن ناصر،سیف خالد،کامریڈ عزیز سلام بخاری ، سجاد ظہیر،مہناج برنا،طفیل عباس،طاہر مرزا،رضا کاظم،نوازبٹ،مظہرعلی خان،شفقت تنویر مرزا ،عاصمہ جہانگیر،عزیز صدیقی کابھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح ہم کو اس سوانح عمری میں بھٹو اور جنرل ضیا کے مارشل لا دور اور ایم کیو ایم کا تفصیلی زکر ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔اسی طرح پنجابی سجن کے اخبار کی کہانی بھی دلچسپ اور معلوماتی ہے۔
حسین نقی کی اس سوانح عمری میں ہمیں ایچ آر سی پی کی کہانی اور ان کی چھبیس برس کی رفاقت سے جڑی داستان اور اس کی ادارہ جاتی کوششوں کا ذکر ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایچ ار سی پی نے پاکستان میں انسانی حقوق اور محروم طبقات کا مقدمہ خوب لڑا اور اس میں یقینی طور پر عاصمہ جہانگیر،حنا جیلانی،آئی اے رحمان،عزیز صدیقی ، ڈاکٹر مہدی حسن ، حسین نقی ،افراسیاب خٹک جیسے لوگوں کا اہم کردار ہے ۔محروم طبقات کو ایچ آر سی پی نے زبان دی اور ان مسائل کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنایا۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ جو خواب حسین نقی نے پاکستان کی صورت میں دیکھا تھا کہ اسے کیسے جمہوری،منصفانہ ،برابری ،امن ،رواداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کے طورپر بنانا ہے ۔لیکن آج پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، اس کو کیسے ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے اور آج سیاسی جماعتیں جو خود جمہوری سیاست کو کمزور کررہی ہیں ،ان کا احتساب کیسے ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس سوانح عمری میں محروم طبقات پاکستان میں پاکستان کی طلبہ سیاست کی جدوجہد کرتے ہیں اور ان اور وہ اور اس بھی ان کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
فیملی اور وکلا سے ملاقات عمران خان کا حق، سیاست کی اجازت نہیں دے سکتے، رانا ثنااللہ
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کا حق ہے کہ وہ فیملی اور وکلا سے ملاقات کریں، لیکن سیاست کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ علی امین گنڈاپور نے کچھ چیزیں کرنے سے انکار کیا جس پر ان کو ہٹا کر سہیل آفریدی کو لایا گیا۔
رانا ثنااللہ نے کہاکہ جیل رولز 265 میں درج ہے کہ ملاقاتوں میں سیاست زیر بحث نہیں آ سکتی، آج عمران خان کی بہن سے ایک گھنٹے تک ملاقات ہوئی۔
انہوں نے مزید کہاکہ عمران خان کی صحت بالکل ٹھیک ہے، بہن سے ملاقات سے قبل ان کی اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج ملاقات کے لیے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے شرط رکھی تھی کہ عظمیٰ خان عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر آکر پریس کانفرنس نہیں کریں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اڈیالہ جیل بانی پی ٹی آئی عظمیٰ خان عمران خان ملاقات وی نیوز