بھارت میں دیوالی پر سرحد پار آلودگی: لاہور اور قصور کی فضا خطرناک حد تک متاثر
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
لاہور: بھارت میں دیوالی کے موقع پر آتش بازی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کے نتیجے میں خطے کی فضا شدید آلودہ ہو گئی ہے، جس کے اثرات تیزی سے سرحد پار پاکستان کے مشرقی علاقوں تک پہنچ رہے ہیں۔
پنجاب کے مختلف شہروں میں ہوا کا معیار خطرناک حد تک گر چکا ہے اور فضا میں آلودہ ذرات کی مقدار عالمی اداروں کے مقررہ پیمانے سے کہیں زیادہ ریکارڈ کی جا رہی ہے۔
ائیرکوالٹی مانیٹرنگ نیٹ ورک کے تازہ اعدادشمار کے مطابق لاہور میں فضائی معیار (AQI) 287، قصور میں 331، شیخوپورہ میں 311، فیصل آباد میں 277، گجرانوالہ میں 178 اور ملتان میں 204 ریکارڈ کیا گیا۔
اعداد شمار کے مطابق فضائی آلودگی میں قصور سب سے آگے ہے، شیخوپورہ دوسرے اور لاہور تیسرے نمبر پر ہے۔
عالمی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ایئر نے لاہور کو اس وقت دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس 298 تک پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح بھارتی دارالحکومت دہلی 283 کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے دونوں جانب فضا زہریلے ذرات سے بھری ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت نے دیوالی کے بعد آلودگی میں اضافے کے خطرے کے پیشِ نظر ہنگامی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ سرحد پار بھارت کے شہروں امرتسر، لدھیانہ اور ہریانہ سے آنے والی ہواؤں نے لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، بہاولپور، رحیم یار خان اور ملتان کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
محکمہ ماحولیات کے مطابق رات اور صبح کے اوقات میں آلودگی کی شدت زیادہ جب کہ دوپہر کے وقت معمولی بہتری متوقع ہے۔
اسموگ پر قابو پانے کے لیے اینٹی سموگ گنز کو فعال کر دیا گیا ہے، ٹھوکر نیاز بیگ سمیت کئی مقامات پر پانی کا چھڑکاؤ جاری ہے۔ شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ماسک کا استعمال لازمی کریں، خاص طور پر بچے، بزرگ اور سانس کے مریض غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ اسموگ پر قابو پانے میں حکومت کے ساتھ عوامی تعاون نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ ماحولیاتی ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں تاکہ پنجاب کی فضا دوبارہ صاف بنائی جا سکے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
کویت سے بھارت جانے والی پرواز کو بم سے اڑانے کی دھمکی پر ہنگامی لینڈنگ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کویت سے حیدر آباد (بھارت) روانہ ہونے والی ایک پرواز میں اس وقت شدید افراتفری پھیل گئی جب دورانِ پرواز بم کی موجودگی کی اطلاع موصول ہوئی۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق انڈیگو کی پرواز نے معمول کے مطابق اُڑان بھری، تاہم جیسے ہی ایئرلائن کے حکام کو ای میل کے ذریعے یہ خبر ملی کہ جہاز میں دھماکا خیز مواد موجود ہے اور اسے اُڑا دینے کی دھمکی دی گئی ہے، فوراً ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
طیارے کے اندر مسافروں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور کیپٹن نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے جہاز کو حیدر آباد کے بجائے قریبی ممبئی ایئرپورٹ کی جانب موڑ دیا جہاں پہلے ہی ریڈ الرٹ نافذ کر دیا گیا تھا۔
ممبئی ایئرپورٹ حکام نے طیارے کے لینڈنگ سے قبل ہی حفاظتی اقدامات سخت کرتے ہوئے رن وے کو خالی کرا لیا اور سیکورٹی ٹیموں کو الرٹ کردیا۔ طیارہ جیسے ہی زمین پر اترا، اسے ہوائی اڈے کے ایک دور دراز حصے میں منتقل کیا گیا تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جا سکے۔
مسافروں کو طیارے سے اتار کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جب کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ اور سیکورٹی اداروں نے جہاز کی مکمل چیکنگ شروع کردی۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی تلاشی میں نہ تو جہاز سے کوئی مشتبہ شے برآمد ہوئی اور نہ ہی کسی مسافر کے سامان سے بارودی مواد ملا، جس کے بعد 3 گھنٹے کی تاخیر سے پرواز کو دوبارہ روانگی کی اجازت دے دی گئی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اس واقعے کے بعد ایک بار پھر یہ مسئلہ سامنے آیا ہے کہ بھارت میں حالیہ مہینوں کے دوران مختلف ایئرپورٹس اور ایئرلائنز کو بڑی تعداد میں بم دھماکوں کی جعلی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
بھارتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ گیارہ ماہ میں مجموعی طور پر 999 جعلی بم کالز مختلف ہوائی کمپنیوں اور ایئرپورٹس کو موصول ہو چکی ہیں، جن میں سے اکثر نے ایوی ایشن نظام کو شدید متاثر کیا اور ایمرجنسی اقدامات پر مجبور کیا۔
گزشتہ سال بھارت کی سول ایوی ایشن سیکورٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ ایسے جھوٹے دھمکی آمیز پیغامات دینے والے افراد پر 5 سالہ فضائی پابندی عائد کی جائے تاکہ ان واقعات میں کمی لائی جا سکے، تاہم اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی سخت تجاویز کے باوجود دھمکیوں کا سلسلہ پوری طرح ختم نہیں ہوا اور صرف چند لمحوں کی بے بنیاد ای میل یا کال پورے ہوائی سفر کو مفلوج کر دینے کا سبب بن رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کی دھمکیاں نہ صرف فلائٹ آپریشنز میں خلل ڈالتی ہیں بلکہ مسافروں کے اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں، جس سے ایوی ایشن سیکٹر پر پہلے سے موجود دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔