Jasarat News:
2025-10-19@02:33:53 GMT

مولانا فضل الرحمن کی ’’سخت‘‘ باتیں

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملک اس وقت ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہا ہے جہاں حکمرانوں کے بیانات اور حقیقت کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکمراں ہر روز معیشت کی بحالی، استحکام اور ترقی کے دعوے کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس گیا ہے۔ مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے، تنخواہیں کم اور اخراجات بے قابو ہیں۔ عوام کے چہروں پر مایوسی، گھروں میں بے بسی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ’’ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے‘‘ دراصل ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو عوام ہر روز برداشت کر رہے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں ایک بار پھر ملک میں احتجاج اور مزاحمت کی بات ہو رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقدہ مفتی محمود کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ کو ’’بے معنی‘‘ اور ’’لونڈی‘‘ قرار دیتے ہوئے کارکنان کو اسلام آباد مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے اب ایوانوں میں نہیں بلکہ عوامی میدانوں میں ہوں گے۔ یہ ایک سخت پیغام ہے جو بظاہر نظام کے خلاف مزاحمت کا عندیہ دیتا ہے، لیکن اس کے پیچھے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ تحریک ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے یا یہ محض وقتی دباؤ کی سیاست ہے، جیسا کہ ماضی میں کئی بار دیکھنے میں آ چکا ہے؟ مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے ایک پرانے اور زیرک کھلاڑی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اقتدار کے کھیل کے سب سے تجربہ کار کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ کبھی وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے قائد بن کر سامنے آتے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن جاتے ہیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ 2018 کے بعد جب انہوں نے پی ڈی ایم کی قیادت سنبھالی تو ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ اختیار کیا، لیکن جلد ہی سیاسی فضا بدلنے پر ان کے لہجے کی شدت بھی کم ہو گئی۔ یہی وہ طرزِ سیاست ہے جس نے ان کے ناقدین کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ مولانا کی مزاحمت وقتی ہوتی ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہو جاتے ہیں، تو ساری گھن گرج دب جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بڑی عوامی تحریک حقیقی تبدیلی نہیں لا سکی۔ ہر بار عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، جلسے جلوس ہوتے ہیں، لیکن انجام وہی رہتا ہے، نظام اپنی جگہ برقرار اور عوام اپنی حالت پر بدستور بے بس و مجبور ہی رہتے ہیں۔ مولانا کے والد، مفتی محمود، پاکستانی سیاست کے اْن رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے نسبتاً اصولوں کی سیاست کی۔ 1977 کے انتخابات میں جب دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اقتدار سے زیادہ اہم دیانت اور شفافیت ہے۔ مگر افسوس کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں وہ اخلاقی ٹھیرائو باقی نہیں رہا۔ ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) برصغیر کی قدیم دینی و سیاسی جماعت ہے، مگر اس کی سیاست میں وہ اصولی جرأت اب کمزور پڑ چکی ہے جو کبھی مفتی محمود کی شناخت تھی۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت ملک میں ایک ’’ہائیبرڈ نظام‘‘ رائج ہے، بظاہر جمہوریت ہے مگر فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے انگلی رکھی ہے۔ پارلیمنٹ بے وقعت ہو چکی ہے، منتخب نمائندے محض تماشائی بن گئے ہیں اور عوامی رائے کو طاقت کے غیر مرئی مراکز میں دبایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر آئینی ادارے کمزور ہو گئے ہیں تو ان کو مضبوط کرنے کا راستہ کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اصولی مزاحمت کی جائے اور لوگوں کے غصے اور رد عمل کو غلط موڑ نہ دیا جائے۔ حقیقی مزاحمت کا مطلب صرف وقتی احتجاج نہیں ہوتا؛ یہ ایک منظم، اصولی اور عوامی شعور پر مبنی تحریک ہوتی ہے۔ اس کے لیے اخلاقی جرأت، شفاف قیادت اور واضح اہداف کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قیادت خود تضادات کا شکار ہو، تو مزاحمت کا خواب بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوام بجلی کے بلوں، مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ایسے میں اگر حقیقی تبدیلی لانی ہے تو یہ ہائبرڈ احتجاج اور نعروں سے نہیں، بلکہ حقیقی مزاحمت سے ممکن ہے۔ ہائیبرڈ نظام اب مزید نہیں چل سکتا یہ ایک حقیقت ہے اور جس طرح کر پرتشدد فضا قائم کی جارہی اور اچانک پورے ملک میں افراتفریح پیدا ہوگئی یا کردی گئی ہے ایسے میں لگتا تو یہی کہ پھر کچھ بدلنے والا ہے لیکن یہ تبدیلی کتنی حقیقی ہوگی یہ ہم سب جانتے ہیں اس وقت پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام سے جڑی ہو، جس کے ہاتھ میں اصول ہوں، مفادات نہیں ہوں۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ وقتی سیاسی سودے بازی سے نکل کر ایک ایسی تحریک کھڑی کی جائے جو وقتی اقتدار کے لیے نہیں، اصولوں کے لیے ہو۔ ایسی تحریک جو عام آدمی کے مفاد، انصاف، شفافیت اور خودمختار پارلیمنٹ کے قیام کے لیے ہو۔ قوم کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے، وہ جو کسی طاقت کے اشاروں پر نہ چلیں بلکہ عوام کے دکھوں کو سمجھیں۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے صرف نعروں کی نہیں، دیانت دار پالیسیوں اور جرأت مند فیصلوں کی ضرورت ہے۔ حقیقی تبدیلی وہی ہے جو عوام کے ہاتھوں، شفاف انتخابات کے ذریعے، اصولی قیادت کے تحت آئے، ورنہ سب کچھ پہلے جیسا رہے گا، اور حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔

اداریہ سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن حقیقی تبدیلی کی سیاست ملک میں کے لیے

پڑھیں:

چہرے اور پارٹیاں نہیں، فرسودہ نظام بدلنے سے ملک آگے بڑھے گا، حافظ نعیم الرحمن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مردان:۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ چہرے اور پارٹیاں نہیں، نظام بدلنے سے ملک کے مسائل حل ہوں گے، دو فیصد سے کم اشرافیہ نے 98 فیصد عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے، معیشت، زراعت، صنعت کے شعیوں میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے،عدالتوں اور پولیس کے نظام میں اصلاحات لانی ہوں گی۔

جامعہ مفتاح العلوم شیرگڑھ مردان میں فضلاءکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے تحریک اسلامی سے وابستہ علماءپر زور دیا کہ وہ تمام مسالک کے احترام کو یقینی بناتے ہوئے فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر اقامت دین کی جدوجہد کو تیز کریں۔

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر عطا الرحمن، امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا وسطی مولانا مفتی عبدالواسع، صدر مرکزی ختم نبوت مولانا مفتی امتیاز مروت، امیر ضلع مردان غلام رسول،مدیر جامعہ مفتاح العلوم مولانا صفی اللہ نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔

حافظ نعیم الرحمن نے شرکاءکو نومبر میں مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والے تین روزہ اجتماع عام میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ علماءاپنے خطبات اور دروس میں اجتماع کی دعوت کو عام کریں، انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اجتماع عام ملک میں تبدیلی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوگا اور ملک میں موجود سیاسی خلا کو پُر کرنے اور تقسیم کو ختم کرنے کی نوید بنے گا۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم سب کو دینی علوم کے ساتھ جدیدیت کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، سیکولرازم، لبرل ازم، سرمایہ دارانہ نظام، مغربی نظریات کو سمجھے اور جانے بغیر اقامت دین کے پیغام کو عام نہیں کیا جاسکتا۔ علما خصوصی طور مغرب اور جدید نسل (Generation Z) کے رویوں کو سمجھیں، ہمیں اس اہم پہلو کو مدِ نظر رکھنا ہوگا کہ مغرب میں فلسطین کے حق میں آواز بہت توانا اور مضبوط ہوئی ہے، بلاشبہ یہ حماس اور اہل غزہ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اسلام کے آفاقی نظام کو پھیلایا جائے۔ امیر جماعت اسلامی نے بنگلادیش جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبا کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار قربانیاں اور جدوجہد رنگ لائی اور اللہ تعالیٰ نے تحریک اسلامی کے لیے راستے کھول دئیے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اسلامی دنیا کے حکمران استعمار کے آلہ کار ہیں، استعمار سے نجات کے لیئے امت کو اجتماعیت کے اصول پر اکٹھا کرنا ہوگا اور اس ضمن میں سب سے بڑی ذمہ داری علما پر ہے، لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کی رہنمائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر مسلط حکمران ناکام ہوگئے ہیں، عوام ان سے چھٹکارا چاہتے ہیں، انہیں رہنمائی اور قیادت درکار ہے اور موجودہ حالات میں صرف جماعت اسلامی ہی یہ فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔ علما اپنے علم اور کردار سے عوام کے دل و دماغ کو تسخیر کریں۔

ویب ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • چہرے اور پارٹیاں نہیں، فرسودہ نظام بدلنے سے ملک آگے بڑھے گا، حافظ نعیم الرحمن
  • افغانستان کی دوغلی سیاست
  • مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں کو اسلام آباد جانےکی تیاری کی ہدایت کردی
  • پارلیمنٹ کی اہمیت ختم،کارکنان اسلام آباد جانے کی تیاری کریں: مولانا فضل الرحمان
  • چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں۔۔۔ !
  • گوادر کا بیٹا
  • پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ،کارکنان اسلام آباد جانے کی تیاری کریں: مولانا فضل الرحمان
  • اسلام آباد جانےکی تیاری کریں: مولانا فضل الرحمٰن
  • اسلام آباد جانے کی تیاری کریں، مولانا فضل الرحمان کا کارکنوں سے خطاب