نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
پاکستان کی سیاست ، جمہوریت، آئین و قانون کی حکمرانی کی مضبوطی سمیت نظام کی تبدیلی میں نوجوان طبقہ ایک بنیادی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔کوئی بھی ریاست یا سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی اس قوت کو نظرانداز کرکے نظام کو نہیں چلاسکیں گی۔یہ نوجوان طبقہ نہ صرف سیاسی شعور رکھتا ہے بلکہ نظام کی تبدیلی کی خواہش بھی ان میں بالادست نظر آتی ہے۔ وہ موجودہ حکمرانی کے نظام سے بھی نالاں ہے۔
نوجوانوں کے سماجی اور معاشی مسائل اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ان کا اصل چیلنج شفاف انداز میں اپنے لیے مواقع پیدا کرنا ہے۔ان کے بقول موجودہ فرسودہ ، روائتی اور خاندانی طرز پر مبنی حکمرانی کا یہ نظام عدم شفافیت رکھتا ہے اور اس نظام میں نئی نسل کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ایک طرف معاشی بدحالی یا معیشت سے جڑے عدم مواقع ہیں تو دوسری طرف اس نظام میں انصاف کی عدم فراہمی جیسے امور نے ان کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔
اس وقت ہمیں معاشرے میں نوجوانوں کی سطح پر ایک سیاسی تقسیم نظر آتی ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے حکمرانی کے نظام نے بھی نئی نسل کے لیے نہ تو حالات کو سازگار بنایا اور نہ ان کو سیاسی اور معاشی طور پر آگے بڑھنے کے وہ مواقع دیے جو ان کا بنیادی حق تھا۔
حکومت کی پالیسیوں میں نوجوان طبقہ کے لیے سیاسی نعرے تو بہت ہیں لیکن عملی طور پر ایسے اقدامات نظر نہیں آتے جو ان کی معاشی حیثیت کو بہتر طور پر تبدیل کرسکیں۔آج بھی حکومت کے بیشتر پروگرامز خیراتی منصوبوں تک ہی محدود ہیں یا نئے روزگار پیدا کرنے کے بجائے ان کو مفت میں اشیا بانٹ کر سمجھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو ہم مضبوط بنا رہے ہیں۔حکومتی وسائل یا بجٹ کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں نوجوان طبقہ کا بجٹ میں حصہ سب سے کم ہے اور اگر بجٹ رکھا بھی جاتا ہے تو نظریہ ضرورت کے تحت اسے کسی اور مد میں استعمال کیا جاتا ہے یا نوجوانوں کے بجٹ میں کٹوتی کی جاتی ہے۔
اس لیے جب ہمیں نئی نسل میں بے چینی ،غیر یقینی صورتحال اور عدم برداشت کے رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں تو سیاسی سطح پر موجود اشرافیہ کا موقف ہوتا ہے کہ نئی نسل منفی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر نئی نسل کی طرف سے حکومتی نظام کے خلاف اظہار کو ڈیجیٹل دہشت گردی سے جوڑ کر اپنا غصہ نکالا جاتا ہے ۔لیکن حکومت نئی نسل کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔اصل میں آج جو کچھ ہم نئی نسل میں دیکھ رہے ہیں وہ اس حکومت کے نظام کی ناکامی ہے اور جب ملک کی گورننس اور وسائل کی تقسیم کا نظام نئی پڑھی لکھی نسل کو کچھ نہیں دے گا تو پھر اس نظام کو نئی نسل کیونکر قبول کرے گی۔یہ جو حکومت کا نظام خود کو عام شہریوں کے تناظر میں بنیادی حقوق سے دست بردار ہورہا ہے اور تمام شعبہ جات کو نجی شعبوں میں کمزور ریگولیٹ نظام کی بنیاد پر دیا جارہا ہے اس کا براہ راست منفی اثر نئی نسل پر پڑ رہا ہے ۔
جب اس ملک میں 18برس کی عمر میں نوجوانوں کو ووٹ کا حق ملا تو ایک عمومی خیال تھا کہ ہماری سیاسی اشرافیہ،سیاسی جماعتیں اور اقتدار کی جماعتیں نئی نسل اور ان کے مسائل کے تناظر میں اپنے روائتی نقطہ نظر کو تبدیل کریں گی۔
حکمران طبقہ نوجوان نسل کے مسائل کو کم کرکے نئے مواقع پیدا کرے گا بلکہ جدید تقاضوں کو ممکن بنا کر نوجوان نسل اور حکمرانی کے نظام کے اندر باہمی تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے گا۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج روائتی سیاست اور سیاست دانوں کی اہمیت ختم ہورہی ہے اور نئی نسل کا موجودہ نام نہاد جمہوری نظام سے بھی اعتماد اٹھ رہا ہے۔نئی نسل کو محسوس ہوتا ہے کہ اس روائتی نظام میں ان کی کوئی جگہ نہیں اور ان کو حکومت اور سیاسی نظام نے اپنے اپنے مفادات کے لیے بطور ہتھیار ہی استعمال کرنا ہے۔
ریاست ،حکومت اور سیاسی اشرافیہ سمیت جو لوگ بھی اس ملک کی پالیسی سازی کا حصہ ہیں ان کا بڑا چیلنج ہی نئی نسل کو مطمئن کرنا ہے اور یہ اطمینان اسی صورت میں پیدا ہوگا جب ان کو بہتر زندگی گزارنے کے لیے مواقع ملیں گے۔ اقتصادی سروے پاکستان 2024-25کے اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ پڑھے لکھے نوجوان روزگار کی تلاش میں پاکستان چھوڑ گئے ہیں ۔
یہ تعداد صرف سرکاری رجسٹرڈ چینل کی مدد سے حاصل کی گئی ہے جب کہ غیر سرکاری ،نجی ٹریول ایجنسیوں اور غیر رجسٹرڈ ذرایع کی تعداد اس تعداد سے الگ ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ نئی نسل میں ملک چھوڑنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔اس کی وجوہات میں معاشی غیر یقینی صورتحال،نئے روزگار کے مواقعوں کا پیدا نہ ہونا ،نئی چھوٹی اور بڑی صنعتوں کی بندش یا نئی صنعتوں کا نہ پیدا ہونا ،کمزور حکومتی معاشی پالیسیاں ،معاشی عدم تحفظ ،کم اجرت،محدود سطح پر آمدنی پیدا کرنے کے ذرایع سمیت عدم سیاسی استحکام اور برا گورننس کا نظام ہے ۔
کامن ویلتھ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2024کے انتخابات میں نوجوان ووٹر فیصلہ کن قوت تھے۔45فیصد رجسٹرڈ ووٹرز جن کی عمریں 18-35 برس کی تھیں یعنی تقریباً پانچ کروڑ 68لاکھ ووٹرزاور ان میں سے دو کروڑ 22لاکھ نوجوان ووٹرز پہلی بار بطور ووٹر رجسٹرڈ ہوئے تھے جو انتخابی نتائج پر براہ راست اثر ڈالنے والی سب سے بڑی طاقت تھی ۔الیکشن کمیشن کے نئے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں کل ووٹرز کی تعداد 13کروڑ 49 لاکھ 49 ہزار 984 ہے۔ان میں مرد ووٹرز کی تعداد7کروڑ 23 لاکھ 54ہزار 182ہے۔جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 6کروڑ 25لاکھ 95ہزار 802 ہے۔ اسلام آباد میں ووٹرزکی تعداد12لاکھ 11ہزار 879ہے۔
بلوچستان میں 56لاکھ 38 ہزار 84، کے پی کے میں 2کروڑ 30ہزار 231،پنجاب میں 7کروڑ68لاکھ 12ہزار 589سندھ میں 2 کروڑ 82لاکھ 87ہزار 201ہے۔جب کہ ملک میں مرد ووٹرز کی شرح 53.
حیرت اس بات پر ہے کہ اس ملک کی ریاست اور حکومت کانظام نئی نسل کو نظرانداز کرکے نظام کو چلانے کی کوشش کررہا ہے اور اس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں یا ریاست کا نظام نئی نسل کو اپنی طاقت بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے نئی نسل کی سیاسی طاقت اور اس کے ووٹ میں بڑھتے ہوئے حصہ کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔نوجوانوں کے مسائل کو حقیقی طور پر سمجھنااور اس کو بنیاد بنا کر قانون سازی ،پالیسیاں اور مواقعوں کو پیدا کرنا ہی ان کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔سیاسی جماعتیں جس برے طور پر نئی نسل کو نظر انداز کررہی ہیں یا ان کا سیاسی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے اس سے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی اہمیت بھی کم ہورہی ہے ۔سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی ٹھوس حقیقی منصوبہ بندی نئی نسل کے مسائل کی بنیاد پر دیکھنے کو نہیں ملتی اور سیاسی جماعتوں کے منشور اور نئی نسل کے مسائل میں ایک بڑے ٹکراؤ کا منظر نامہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ جو نئی نسل میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے وہ بھی قومی سطح پر بڑھتی ہوئی محرومی کی سیاست اور معیشت سے جڑے سوالات ہیں جس کا جواب اس ریاستی و حکومتی نظام کے پاس نہیں ہے ۔ٹھوس منصوبہ بندی کے بجائے ریاست اور حکومت کا مجموعی نظام جذباتیت اور جذباتی نعروں کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ہمیں نوجوان نسل کا ہاتھ پکڑنا ہے اور ان پر محض الزامات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی پالیسی ریاست کے مفاد میں نہیں ،جب تک نئی نسل کو ریاست اور حکمرانی کے نظام سے جوڑ کر فیصلہ سازی نہیں ہوگی نئی نسل کو مستحکم نہیں بنایا جاسکے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام ووٹرز کی تعداد سیاسی جماعتیں نسل کے مسائل نوجوان طبقہ کی بنیاد پر میں نوجوان نئی نسل کے نئی نسل کو کی سیاست جاتا ہے آگے بڑھ کا نظام نظام کی ہے اور اور ان اور اس کے لیے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی جمہوریت کے تسلسل کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے، ناصر حسین شاہ
وزیر بلدیات سندھ نے کہا کہ 18 اکتوبر کے شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ پیغام دیا کہ جمہوریت کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اس المناک واقعے کے اگلے ہی روز شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے لیے خود گئیں اور ان کا غم بانٹا، جو ان کی عوام دوستی کی روشن مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے سانحۂ کارساز کی اٹھارویں برسی کے موقع پر شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 18 اکتوبر 2007ء کا دن پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین مگر تاریخی باب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس روز شہید محترمہ بینظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں تو لاکھوں جیالے ان کے استقبال کے لیے کراچی میں جمع تھے، ریلی پر دہشت گرد حملے میں سینکڑوں کارکن شہید ہوئے، لیکن شہید بی بی نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ 18 اکتوبر کے شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ پیغام دیا کہ جمہوریت کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اس المناک واقعے کے اگلے ہی روز شہداء کے اہلخانہ سے ملاقات کے لیے خود گئیں اور ان کا غم بانٹا، جو ان کی عوام دوستی کی روشن مثال ہے۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی آج بھی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں عوامی طاقت پر یقین رکھتی ہے اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔