مغربی لٹریچر اور ہمارے نوجوان علما
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
ہمارے مسجد محلے کی سطح پر موجود عالم دین کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ مغرب کے بارے میں حقیقی معنی میں جانتا کچھ نہیں۔ لیکن اس پررائے نہیں بلکہ حرف آخر کہنے کو بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ غضب یہ کہ اس کے لیے قرآنی آیات سے غلط استدلال بھی کر ڈالتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہود و نصاریٰ کی دوستی سے ممانعت کے لیے یہ آیت پیش کردی جاتی ہے۔
’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا وہ ان ہی میں سے ہو جائے گا۔ یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘ (مائدہ آیت 51)
حالانکہ مفسرین لکھ چکے کہ یہ آیت عمومی نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کے اس خاص سیاسی ماحول میں نازل ہوئی تھی جب غزوہ احد کے دہچکے کے بعد بعض مسلمان یہ تجویز دے رہے تھے کہ مدینہ کے یہودی قبائل و نصرانیوں کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا جائے تاکہ ہماری سیاسی و عسکری قوت میں اضافہ ہو۔ چنانچہ درج بالا آیت نازل ہوئی اور اس سیاسی قدم سے روک دیا گیا، اور وجہ بھی بتا دی گئی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، اور ان کی ترجیح وہی رہے گی۔
سطحی علم والے یہ جونیئر علما بلکہ بعض درمیانے درجے والے سینیئر بھی یہ بات نظر انداز کر بیٹھتے ہیں کہ اگر یہ ممانعت عام ہوتی تو پھر قرآن مجید اہل کتاب کی خواتین سے شادی کی اجازت کیوں دیتا؟ مگر حد تو یہ ہے کہ یہاں بھی بعض لوگ یہ لکھ چکے ہیں کہ ان سے شادی تو جائز ہے مگر ایسی زوجہ سے قلبی محبت نہیں رکھی جائے گی۔ گویا شوہر عبداللہ جب گھر میں داخل ہوگا تو منہ پر پونے 12 بجا کر رکھے گا، اور زوجہ کیتھرین کو کس نہیں کرے گا۔ کیونکہ کسنگ تو قلبی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ کیتھرین کو اس سے چپکنے اور جانو جانو کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کیتھرین کے ازدواجی حقوق ادا کرتے وقت عبداللہ اپنے منہ پر ٹیپ چپکا کر رکھے گا، تاکہ ہیجانی کیفیت میں کہیں اس سے کسنگ کا گناہ سرزد نہ ہوجائے۔ بات یہیں ختم نہ ہوگی، بلکہ جب کیتھرین اور عبداللہ کی اولاد پیدا ہوگی تو پھر شاید عبدللہ کو اپنے بچوں سے بھی کہنا پڑے گا۔
’دیکھو بیٹا تمہاری ماما اہل کتاب ہیں لہٰذا خبردار ان سے پیار مت کرنا، اس سے یوں پیش آنا جیسے وہ اس گھر کی کام والی ماسی ہوں۔‘
ذرا سورہ روم کی یہ آیت دیکھیے
’اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘ (سورہ روم آیت 21)
میاں بیوی کی باہمی محبت و رحمت کا حوالہ دیتی یہ آیت عمومی ہے، یہ مسلم اور اہل کتاب زوجہ کی کوئی تفریق نہیں کرتی۔
اس ذہنی حالت کا نتیجہ یہ ہے کہ ان حضرات کو ہر گورا دشمن، کذاب، بد دیانت اور پتہ نہیں کیا کیا نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ مغرب میں ہمارے لیے دشمنی والے جذبات نہیں، یا ہمارے معاملے میں وہ جھوٹ اور بددیانتی سے کام نہیں لیتے، یہ سب ہے اور بہت شدت کے ساتھ ہے، مگر اس طرح نہیں جس طرح ہم نے سمجھ رکھا ہے۔
حقیقت کے ادراک کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ تقسیم قائم کرنی ہوگی کہ ایک ہے پولیٹکل مغرب اور ایک ہے عام مغربی معاشرہ، یعنی عام شہری۔ پولیٹکل مغرب میں سیاستدان، بیوروکریٹس، ملٹری، انٹیلی جنس ایجنسیز، صحافی، سرکاری دانشور اور مستشرقین وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا عروج ہمارے زوال کے ملبے پر قائم ہوا ہے۔ سو یہ تاریخی اصول کی بنیاد پر اس بات کا فطری خوف رکھتے ہیں کہ ہم دوبارہ اٹھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ چنانچہ جوں ہی انہیں نظر آتا ہے کہ کوئی مسلم ملک عسکری قوت بننے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے کچلنے اور پھر سے ملبے کا ڈھیر بنانے کے لیے وہ کسی سکیم کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں، اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں صدام حسین اور قذافی جیسے جذباتی احمقوں کی کمی کبھی نہیں رہی، جو ان کا کام آسان کردیتے ہیں۔ اور ان سے بھی پرلے درجے کے احمق وہ جذباتی مسلمان جو گلے پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہیں ’ہمارے حکمرانوں کی غیرت کہاں مرگئی؟‘ یعنی وہ اپنا ملک برباد کروانے میں غفلت کیوں برت رہے ہیں؟
پولیٹکل مغرب مسلم دنیا پر صرف جنگیں ہی مسلط نہیں کرتا بلکہ نفسیاتی نوعیت کے فکری حملے بھی کرتا ہے، مثلاً وار آن ٹیرر کے دوران پاکستانی مین اسٹریم ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی یہ پیڈ مہم چلتی رہی کہ مسلمانوں کو ان کی تاریخ سے بدظن نہیں تو اس سے متعلق مشکوک ضرور کردیا جائے۔ چنانچہ نام لے لے کر ماضی کے بعض مسلم سلاطین کو ’ڈاکو، لٹیرا‘ تک کہلوایا گیا۔ وہ اسی پر نہیں رکے بلکہ مسلم تاریخ کے دو بڑے مفکرین امام غزالی اور علامہ اقبال کو بھی بار بار ٹارگٹ کروایا، اور ہماری وہ ریاست چپ چاپ یہ پیڈ تماشا اس کے باوجود دیکھتی رہی کہ اقبال کو تو ہم آفیشلی بھی پاکستان کا فکری خالق مانتے ہیں، اس طرح کے تمام ’ٹارگٹ کلر‘ مغربی ممالک کو ہمارے دیسی لبرلز سے میسر آئے۔
اب ذرا اس کا نتیجہ دیکھیے، مسلم تاریخ اور حقائق کو مسخ کرنے کی یہ مہم نوجوان علما بھی تو دیکھ رہے تھے جو خود مغرب کو بالکل نہیں جانتے، کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ انگریزی زبان سیکھنا حرام ہے۔ چنانچہ نہ تو یہ مغربی لٹریچر پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ہی گورے کی گفتگو سن کر اسے سمجھ سکتے تھے، سو ان نوجوان علما نے بس یہ نتیجہ اخذا کیا کہ اگر مغرب کے مقامی چمچے اس قدر زہریلے اور بددیانت ہیں تو خود مغرب کتنا زہریلا اور بددیانت ہوگا؟ صغریٰ کبریٰ کے اس گمراہ کن ملاپ نے ان کا یہ تصور مزید پختہ کردیا کہ ہر مغربی شخص دشمن، جھوٹا اور بد دیانت ہے۔
اگر ہمارے نوجوان عالم کے پاس جدید علوم نہ بھی ہوتے، صرف انگریزی زبان سمجھنے کی قدرت ہی اسے میسر ہوتی تو یہ جان جاتا کہ دیسی لبرل درحقیقت پولیٹکل مغرب کے آلہ کار ہیں، غزالی کے بارے میں ان کی بکواس خود مغرب کی اعلیٰ ترین درسگاہوں میں بھی نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ غزالی کو اپنے اس محسن کے طور پر یاد رکھتے ہیں جس کے فلسفیانہ کام نے مغرب کو وہ علمی بنیاد فراہم کی جس پر آگے چل کر اس کی نشاۃ الثانیہ کی اٹھان ہوئی۔ اس لمحہ موجود میں بھی مغرب کی کئی درسگاہوں میں غزالی پر پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا رہے ہوں گے۔ ہمیں تفصیل یاد نہیں مگر ابھی پچیس تیس سال قبل ہی ایک خاتون مغربی اسکالر نے غزالی کے کام سے کوئی نیا تصور دریافت کرکے شائع کیا تھا جس پر وہاں کے اکیڈمک حلقوں کی جانب سے بڑی تحسین ہوئی تھی۔
صرف غزالی کیا ہمارے تو وہ امام بھی مغرب کے قانونی حلقوں میں بے پناہ مقبول ہیں جو امام الفقہ ہیں۔ یعنی امام محمد ابن الحسن الشیبانی، مغرب انہیں ماڈرن انٹرنیشنل لا کا بانی مانتا ہے اور انٹرنیشنل لا کا ان کا نصاب شیبانی کے بغیر نامکمل تصور ہوتا ہے۔ 70 کی دہائی کے آغاز میں پیرس یونیورسٹی میں الشیبانی چیئر بھی قائم ہوئی۔ اور غالباً امام شیبانی ویک بھی منایا گیا۔ اسی طرح حضرت خالد ابن ولید اور صلاح الدین ایوبی کا معاملہ بھی ہے۔ حضرت خالد ابن ولید کی ’وار ڈاکٹرائین‘ کو ماڈرن حربی زبان میں مغرب کے عسکری تھیورسٹ و سٹریٹیجسٹس نے ترتیب دیا ہے، اور وہ انہیں تاریخ انسانی کے پان عظیم ترین کمانڈروں میں شمار کرتے ہیں۔
اور صلاح الدین ایوبی تو گویا مغرب میں ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں، برطانیہ نے عین کلونیل دور میں پہلی جنگ عظیم کے آس پاس ایک بڑا نیول وار شپ صلاح الدین ایوبی سے منسوب کرکے سمندر میں اتارا جو دوسری جنگ عظیم تک خدمات انجام دیتا رہا۔ اس کی تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، حالانکہ یہ وہی ایوبی ہیں جنہوں نے ان سے بیت المقدس واپس حاصل کیا تھا، اور ان کے خلاف صلیبی جنگیں لڑی تھیں۔
اس ضمن میں ایک نہایت اہم ڈاکومنٹری کی جانب متوجہ کرنا بھی بہت مفید رہے گا جو پندرہ بیس سال قبل نیشنل جیوگرافک پر آن ایئر ہوئی تھی۔ یہ ڈاکومنٹری ہے “When the Moors Ruled in Europe” قریباً 2 گھنٹے کی یہ ڈاکومنٹری آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیز کی سابق استاد، مؤرخہ اور کئی کتابوں کی مصنفہ Bettany Hughes کی اعلی درجے کی پیش کش ہے۔ اس میں انہوں نے مسلم سپین کی علمی خدمات کو پوری گہرائی میں جاکر بیان کیا ہے، اور دستاویزی ثبوتوں کی مدد سے یہ بھی واضح کیا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی مسلم اندلس کی مغربی ایکسٹینشن ہے۔ ابتدائی مراحل میں سب کچھ وہاں سے ماخوذ تھا۔ پوری ڈاکومنٹری کے دوران Bettany Hughes کی اکسائٹمنٹ اور آنکھوں کی چمک سنبھلتے نہیں سنبھلتی۔ یہ وہ کام تھا جو ہمارے کرنے کا تھا۔ مگر کیا کس نے؟ برطانوی خاتون نے، اور یہ ڈاکومنٹری عین ان سالوں کے دوران جاری ہوئی جب پاکستان میں ڈاکٹر پرویز ہود بائی اور حسن نثار ہمیں اپنی تاریخ پر شرمندہ کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
یہاں دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں ورنہ مغربی لٹریچر سے استفادے کے لیے اندھا دھند دوڑ پڑنے والے نوجوان علما ٹھوکر بھی کھاسکتے ہیں۔ پہلی چیز یہ کہ آپ کو مستشرقین سے محتاظ رہنا ہوگا۔ جو پولیٹکل مغرب کے بڑے وارداتیے تھے، دوسری چیز یہ کہ دیانتدار مغربی مصنفین بھی زیادہ انحصار اپنے مؤرخین پر کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض مرتبہ ان کا مقصد کوئی بددیانتی نہیں ہوتا مگر اپنے مؤرخ پر انحصار کے سبب ان کا مؤقف ہمارے تاریخی حقائق سے مختلف ہوجاتا ہے۔ مثلاً یرموک کی جنگ کو بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ عین جنگ سے قبل حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خالد ابن ولید کو کمان سے ہٹا کر حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح کو کمانڈر مقرر کردیا۔ مگر ابوعبیدہ نے خالد سے کہاکہ میں نئے کمانڈر کی حیثیت سے آپ کو حکم دیتا ہوں کہ اس جنگ کی کمان آپ کیجیے۔ یوں یرموک کی کمان حضرت خالد نے ہی کی۔
ہماری طرف کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں پائی جاتی جو اس دعوے کی تصدیق کرتی ہو۔ ہمارے مؤرخ لکھتے ہیں کہ جب کمان کی تبدیلی کا خط حضرت ابوعبیدہ تک پہنچا تو جنگ سر پر کھڑی تھی۔ چنانچہ انہوں نے خط صیغہ راز میں رکھا اور فتح کے بعد حضرت خالد کو دکھایا، یوں کمان تبدیل ہوئی۔ سو یہ کوئی بددیانتی نہیں بلکہ مغربی مصنفین اور پروفیسرز کا اپنی تاریخ پر انحصار ہے۔ ورنہ جب آپ کتاب پڑھتے ہیں یا لیکچر سنتے ہیں تو وہ حضرت خالد کے گویا عشق میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔
اب ملین ڈالرز کا سوال یہ آجاتا ہے کہ مغرب کے حکمران جو جھوٹ اپنے بھاڑے کے ٹٹوؤں کی مدد سے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہی اپنی درسگاہوں میں کیوں نہیں پڑھواتے؟ وجہ بہت ہی سادہ ہے۔ وہ اپنی نسلوں کو دنیا کی حقیقی تاریخ پڑھانے کی اہمیت جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اپنے بچوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھائی تو بڑے ہوکر غلط نتائج اخذ کرکے غلط فیصلے کر بیٹھیں گے۔ لہٰذا انہیں درست طور پر علم ہونا چاہیے کہ انسانی تاریخ کن ادوار سے گزری ہے، اور اس کے کس کس موڑ پر کس کس نے کیا کیا کمالات دکھائے ہیں۔
اس پورے پس منظر میں نوجوان علما سے ہماری یہی درخواست ہے کہ مغرب کے عظیم الشان لٹریچر سے فائدہ اٹھا کر اپنے شعور کو بہتر کرنے کی کوشش کیجیے، گمراہ کن لٹریچر کا خوف دل سے نکال پھینکیے۔ وہ تو ہماری جانب بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے اپنے لٹریچر میں جھوٹی تاریخ اور گمراہ کن عقائد سمیت کونسی چیز ہے جو نہیں ہے؟ جس طرح آپ اپنی طرف کے ایسے لٹریچر سے بچنے کا ہنر جانتے ہیں ویسے ہی مغربی لٹریچر کی وارداتوں سے بھی بچ نکلیں گے، مثبت اور تعمیری سوچ کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تاریخ عالم دین مغربی لٹریچر نوجوان علما وی نیوز مغربی لٹریچر نوجوان علما حضرت خالد کہ مغرب کے ساتھ مغرب کے کی کوشش کرنے کی کے لیے ہیں کہ یہ آیت اور ان
پڑھیں:
ٹویوٹا نے فورچیونر کی تاریخ کی سب سے بڑی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا
پاکستان کی آٹو مارکیٹ میں حیران کن پیش رفت سامنے آئی ہے، ٹویوٹا نے اپنی مشہور ایس یو وی فورچیونر کی قیمتوں میں 25 لاکھ روپے تک کی کمی کا اعلان کردیا۔
کمپنی کی جانب سے متعارف کرائی گئی محدود مدت کی مہم کے تحت فورچیونر کی 2 مقبول ترین ویریئنٹس کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانیوں کے لیے بڑی خوشخبری، ٹویوٹا کرولا کراس کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی
نئی قیمتیں-فورچیونر G
پرانی قیمت: 14,939,000 روپے
نئی قیمت: 12,435,000 روپے
-فورچیونر V
پرانی قیمت: 17,509,000 روپے
نئی قیمت: 14,935,000 روپے
اس بڑے ریٹ کٹ کے بعد فورچیونر کی قیمتیں ایک بار پھر اس حد تک آگئی ہیں جہاں خریداروں کے لیے یہ گاڑی پہلے سے کہیں زیادہ پرکشش ہو گئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے آٹو سیکٹر میں مسلسل مہنگائی کے بعد یہ کمی صارفین کے لیے ایک نایاب ریلیف قرار دی جا رہی ہے۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری اس وقت کم فروخت، مہنگی فنانسنگ، افراطِ زر اور کمزور کرنسی جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں ٹویوٹا کی جانب سے یہ حیران کن فیصلہ مارکیٹ میں نئی جان ڈال سکتا ہے اور ان خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرسکتا ہے جو چھوٹی یا درمیانی ایس یو ویز کی طرف مائل ہو چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا ٹویوٹا ریوو اور فورچونر کی قیمت میں 60 فیصد تک ٹیکس شامل ہے؟
فورچیونر اپنی مضبوطی، آف روڈ کارکردگی اور ری سیل ویلیو کے باعث مارکیٹ میں منفرد مقام رکھتی ہے، اور اب کم قیمتوں کے بعد یہ مزید وسیع صارفین تک رسائی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
ٹویوٹا کے مطابق یہ آفر وقت اور اسٹاک دونوں کے لحاظ سے محدود ہے۔ کمپنی پاکستان میں اپنے 35 سال مکمل ہونے کی خوشی میں اس خصوصی کیمپین کا انعقاد کر رہی ہے، جو نہ صرف سالگرہ کی تقریبات کا حصہ ہے بلکہ مارکیٹ میں برانڈ کی نئی حکمتِ عملی کی بھی عکاس ہے۔
ٹویوٹا کی قیمتوں میں اس کمی سے پریمیئم ایس یو وی کی مارکیٹ میں نمایاں ہلچل متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹویوٹا قیمتیں گاڑی