بلوچستان: ایڈز کے مریضوں کی تعداد 3,303 تک جا پہنچی، وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
بلوچستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران تشویشناک اضافہ سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر میں ایچ آئی وی تیزی سے پھیلنے لگا، ماہرین صحت نے خطرے کی گھنٹی بجادی
سنہ 2024 میں مریضوں کی تعداد 2,851 تھی جو 2025 کے اختتام تک بڑھ کر 3,303 تک پہنچ گئی۔ یعنی صرف 12 ماہ کے دوران 452 نئے مریض رجسٹر ہوئے اور اسی عرصے میں 452 اموات بھی رپورٹ ہوئیں۔
سید کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق مرد مریضوں کی تعداد 2,075 سے بڑھ کر 2,362 ہوگئی جبکہ خواتین کی تعداد 600 سے بڑھ کر 707 تک پہنچ گئی۔
صوبے میں خواجہ سرا کمیونٹی کے 90 افراد بھی رجسٹرڈ مریضوں میں شامل ہیں۔ بلوچستان میں ایڈز کے سب سے زیادہ کیسز کوئٹہ میں ریکارڈ ہوئے جہاں مریضوں کی تعداد 2,164 تک جا پہنچی۔
مزید پڑھیے: ایڈز سے پاک پاکستان کے لیے متحد ہونا ہوگا، ایڈز کے عالمی دن پر وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام
تربت میں 368، حب میں 158، نصیرآباد میں 66 اور لورالائی میں 96 کیسز رپورٹ ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بیماری صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اضلاع میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سرنج کا دوبارہ استعمال ایڈز کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہے، ڈاکٹر ہاشم مینگلڈائریکٹر ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر ہاشم مینگل کا کہنا ہے کہ ایڈز کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ منشیات کا انجیکشن کے ذریعے استعمال ہے کیونکہ لوگ اکثر آلودہ سرنجیں شیئر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ہاشم مینگل نے کہا کہ انجیکشن استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کی شرح سب سے زیادہ پائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ غیر محفوظ جنسی تعلقات، ماں سے بچے کو وائرس کی منتقلی اور آلودہ آلات کا استعمال بھی بیماری کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک بڑا حصہ اب بھی اس بات سے ناواقف ہے کہ بیماری کیسے منتقل ہوتی ہے، کس طرح اس سے بچا جا سکتا ہے اور کن علامات کے ظاہر ہونے پر فوری ٹیسٹ ضروری ہے۔
ڈاکٹر ہاشم مینگل کے مطابق اگرچہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ باعثِ تشویش ہے لیکن یہ اضافہ محض بیماری کے پھیلاؤ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ صوبے میں نگرانی بہتر ہوئی ہے اور زیادہ لوگ ٹیسٹنگ اور رجسٹریشن کے لیے سامنے آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب کی جیلوں میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ کیوں؟ محکمہ داخلہ نے بتادیا
ان کے مطابق بلوچستان میں لوگوں کا ایڈز ٹیسٹ کروانے کے لیے رضامندی ظاہر کرنا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے، کیونکہ ماضی میں لوگ سماجی دباؤ کے باعث تشخیص سے گریز کرتے تھے۔
باقاعدگی سے ادویات لیتے رہنے سے صحت مند زندگی گزاری جاسکتی ہے، ڈاکٹر سحرین نوشیروانی
ایڈز کنٹرول پروگرام بلوچستان کی صوبائی کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر سحرین نوشیروانی کے مطابق ایڈز ایک قابل کنٹرول مرض ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں اس کے بارے میں لوگوں میں شدید غلط فہمیاں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بیماری کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ سماجی بدنامی کا خوف ہے جو لوگوں کو ٹیسٹ کروانے، علاج کروانے یا دوسروں کو اپنی صورتحال بتانے سے روکتا ہے۔
ڈاکٹر نوشیروانی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر معاشرہ ایڈز کے مریضوں کو قبول کرے اور انہیں ہمدردی اور تعاون فراہم کرے تو نہ صرف مریضوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ بیماری کے پھیلاؤ میں بھی کمی آسکتی ہے۔
ڈاکٹر سحرین نوشیروانی نے بتایا کہ ایڈز کی تشخیص کے بعد اگر مریض باقاعدگی سے ادویات لیتے رہیں تو وہ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بھی انتہائی کم ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: نشتر اسپتال ایڈز کیس، ایم ایس سمیت ذمہ دار عملہ معطل، ڈاکٹرز متاثرہ مریضوں کو جیب سے ہرجانہ ادا کرینگے
ان کے مطابق بلوچستان میں ایچ آئی وی تھراپی مراکز کوئٹہ، تربت اور دیگر 4 اضلاع میں فعال ہیں جہاں مریضوں کو مفت ادویات، ٹیسٹنگ، مشاورت اور آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
ایسی بیماری سے نپٹنے کے لیے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگاماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صوبے میں ایڈز پر قابو پانا ہے تو آگاہی مہم کو زیادہ منظم اور زمینی سطح پر مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گاؤں، دیہات اور کمیونٹی سطح پر ایسی سرگرمیاں ضروری ہیں جو لوگوں کو محفوظ رویوں، تشخیص کی اہمیت اور علاج کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کریں۔
مزید پڑھیے: کیا پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ہے؟
ماہرین نے مزید کہا کہ بلوچستان جیسے معاشرے میں جہاں تعلیم اور شعور کی کمی پہلے ہی ایک چیلنج ہے وہیں ایڈز جیسی بیماری سے نمٹنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور مقامی برادریوں کو مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان میں ایچ آئی وی کیسز بلوچستان میں ایڈز کیسز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان ڈاکٹر ہاشم مینگل مریضوں کی تعداد بلوچستان میں کے پھیلاؤ کی بیماری کے کے مطابق میں ایڈز ایڈز کے میں ایچ کہا کہ اس بات کے لیے
پڑھیں:
انڈونیشیا؛ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ میں جاں بحق افراد کی تعداد 600 ہوگئی
انڈونیشیا کے جزیرہ سماترا میں شدید بارشوں، تباہ کن سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 600 ہوگئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تاحال 174 افراد لاپتا ہیں جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
درجنوں دیہات لینڈ سائیڈنگ کی زد میں آکر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں جب کہ ملبے تلے دبی لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
آج بھی امدادی کاموں کے دوران ملبے تلے دبی درجن سے زائد لاشیں ملی ہیں جس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 600 تک جاپہنچیں۔
امدادی کاموں میں ریسکیو ادارے اور فائر بریگیڈ کے عملے کے علاوہ 3 ہزار 500 زائد پولیس اہلکار بھی مصروف ہیں۔
شدید تباہی کے باعث شمالی سماترا کے کئی علاقے زمینی راستوں سے کٹ چکے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہے۔
امدادی سامان کی ترسیل کے لیے فضائی مدد لی جا رہی ہے جبکہ بھاری مشینری کی کمی سے ریسکیو کام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
موسلادھار بارشوں کے باعث دریا ابل پڑے اور سیلاب کناروں کوے توڑتا ہوا بھاری ملبے کے ساتھ رہائشی علاقوں میں داخل ہوا جس نے کئی پہاڑی دیہات کو لپیٹ میں لے لیا۔
سماترا کے اگام ضلع میں تین دیہاتوں میں تقریباً 80 لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور بھاری مشینری نہ ہونے کے سبب زندہ بچ جانے والوں تک رسائی انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔
سب سے زیادہ متاثر آچے کا علاقہ ہوا ہے جہاں صورتحال انتہائی سنگین ہے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کے باعث پولیس، فوج اور مقامی لوگ ہاتھوں، بیلچوں اور اوزاروں سے ملبہ ہٹا رہے ہیں۔
گورنر موزاکر مناف نے 11 دسمبر تک ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
خیال رہے کہ انڈونیشیا، سری لنکا اور ملائیشیا میں تباہی پھیلانے والا طوفان اب تھم چکا ہے اور شدید بارشوں کے بعد لینڈ سلائیڈنگ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
جس میں سب سے زیادہ تباہی اندونیشیا میں ہوئی ہے اس کے علاوہ سری لنکا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر ان ممالک میں ہزار سے زائد اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔