عثمان بزدار، علی امین گنڈا پور اور اب سہیل آفریدی
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عثمان بزدار، علی امین گنڈا پور اور اب سہیل آفریدی، داد دینی چاہیے عمران خان کے حسن انتخاب کو۔ ایک سے بڑھ کر ایک لیکن عمران خان کو ’’نا‘‘ کہنے کی ہمت! کسی میں نہیں۔ تاہم سہیل آفریدی المعروف ’’میں عشق عمران میں مارا جائوں گا‘‘ سابقین سے بڑھ کر ہیں۔ جنہوں نے عشق کو بھی گلے ملنے کا نہیں، گلے پڑنے اور مرنے مارنے کا موقع بنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ کسی زمانے میں متحدہ قومی مومنٹ کے لوگ الطاف بھائی کی محبت میں ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کے بغیر بات آغاز نہیں کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ تحریک انصاف کے لوگوں نے لے لی۔ کیسا ہی موقع ہو عمران خان سے اور عمران خان کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا ازبس ضروری ہوتا ہے۔ لگتا ہے عمران خان سے پیار نہیں پی آر کا تقاضا نبھا رہے ہیں۔ اس کا اعتراف کررہے ہیں کہ:
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں
ایک چینی شاعر رات کو کشتی میں سوار جھیل کی سیر کررہا تھا۔ چاند کا عکس جھیل میں نظر آیا تو چاندنی سے وصال کی آرزو میں جھیل میں چھلانگ لگادی اور اس کا وصال ہوگیا۔ ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ اور ’’عشق عمران میں مارا جائوں گا‘‘ جیسے نعرے وصال کی ایسی ہی خواہش ہیں جن میں اوّل اوّل کارکنان وصال پاتے ہیں لیکن پھر معاملہ رہنمائوں کے وصال پر آکر ہی تھمتا ہے۔ بوقت وصال جب لیڈر مڑ کر دیکھتا ہے تو بجز تنہائی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ الطاف حسین مثال ہیں۔
میں مارا جائوں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جائوں گا
عمران خان ورزش اتنے انہماک سے کرتے ہیں کہ سب کچھ بھول جاتے ہیں سوائے اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کے۔ سیاست میں آکر وہ سیاست دان بننے کے بجائے ایک وارئیر بن گئے ہیں اور اب وارئیر ہی ان کے ساتھی اور دم قدم ہیں۔ تحریک لبیک نے اسرائیل اور حماس کی جنگ بندی کے جواب میںلاہور کی ناکہ بندی کی تو یہ تحریک انصاف تھی جو تحریک لبیک کے لیے میڈیا پر جنگ لڑ رہی تھی۔ افغانستان میں پاکستان پر حملہ کرنے والی ٹی ٹی پی کی تربیت گاہوں اور پناہ گاہوں کے خلاف ایک ناگزیر آپریشن اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے آغاز کیا تو تحریک انصاف کی تمام ہمدردیاں عوام اور مسلح افواج پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے علی امین گنڈا پور کو پختون خوا کی وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنادیا جن کا سارا زور بیان پاکستان میں دہشت گردوں کی حمایت کے لیے وقف ہے جو دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی آپریشن کے حق میں نہیں ہیں اور ممکن ہے دوران آپریشن صوبے کی پولیس کی آپریشن میں معاونت کے لیے فراہمی سے انکار کردیں۔
کسی زمانے میں ٹین ایجرز کا احمد فراز کی شاعری سے بچنا نا ممکن خیال کیا جاتا تھا۔ ایسے اشعار سن کر بھی جوانی رسی نہ تڑائے! کیسے ممکن ہے؟
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کسی زمانے میں الطاف حسین کی سیاست سے بچنانا ممکن! شہری سندھ میں مہاجروں کا حال تھا۔ مہاجر جوان سورج کی چکا چوند سے نہیں جاگتے تھے لیکن الطاف حسین کی آواز سے اُٹھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس میں قصور مہاجر جوانوں کا نہیں تھا ان کے کمروں کی کھڑکیاں ہی مغرب کی سمت کھلتی تھیں۔ اس زمانے میں گورنر سندھ عشرت العباد ہوں یا مئیر کراچی مصطفی کمال یا فاروق ستار یا کوئی اور ان کے سیاسی اور انتظامی فیصلوں کا اوّل وآخر حوالہ ان کی ذات نہیں الطاف حسین کی رضا ہوتی تھی۔ سہیل آفریدی بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھائے انہیں ایک ہفتہ ہونے کو آرہا ہے کوئی بڑا اعلان، نہ بڑا فیصلہ، سب کچھ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد۔ حالانکہ عمران خان خود کہتے تھے کہ ان کی وزارت عظمیٰ میں سب بڑے فیصلے جنرل باجوہ کرتے تھے۔ سہیل آفریدی کی ابھی تک دو ہی خوبیاں سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عمران خان کا انتخاب ہیں اور دوسرے یہ کہ عمران خان ان کے لیڈر ہیں۔
عمران خان کی سیاست مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے بے قرار رہنے کی سیاست ہے۔ یقین نہ آئے تو خیبر پختون خوا کی حالت دیکھ لیجیے۔ جہاں تعمیر وترقی کا داخلہ ممنوع ہے۔ تعمیراتی کام اسٹل فوٹو گرافی کی طرح ہلنے کا نام نہیں لیتے۔ صوبے کے سابق وزیراعلیٰ گنڈاپور ہوں یا اب سہیل آفریدی ان کا سب سے بڑا تعمیراتی کام جیل میں عمران خان سے ملنے کی تگ ودو کرنا ہے۔ سہیل آفریدی نے اس میں وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے تعاون نہ کرنا اور میل ملاقات نہ کرنا بھی شامل کردیا ہے۔ دو تین دن پہلے شہباز شریف کی صدارت میں وفاقی اور صوبائی وزراء اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی اور مغربی سرحدی صورتحال پر غور ہوا جس میں سہیل آفریدی نے خود شرکت نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے معاون خصوصی مزمل اسلم کو نمائندگی کے لیے بھیج دیا۔ سرارنسٹ پین نے کہا تھا مسائل کو ڈھوندنے، انہیں ہر جگہ پالینے ان کو غلط سمجھنے اور ان کا غلط حل تلاش کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے پیروکار غلط یا صحیح کے چکر میں نہیں پڑتے وہ مسائل کا حل تلاش نہ کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں۔
نقاد اس کو کہتے ہیں جسے ناپسند کرنا پسند ہو۔ سہیل آفریدی کو پختون خوا کے وزیراعلیٰ کے طور پر عمران خان کی طرف سے یہی نوکری کرنی ہے۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں کو ناپسند ہی نہیں کرنا بلکہ ان میں رکاوٹ بھی ڈالنا۔ اپنی اس ذمے داری کی ادائیگی کا آغاز انہوں نے اس طرح سے کیا ہے کہ ’’وفاقی اور صوبائی وزراء اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کے اجلاس کے مقابلے میں بروز ہفتہ 25 اکتوبر کو ضلع خیبر تحصیل باڑہ میں قبائلی عمائدین، مشیران اور نوجوانوں کا بڑا امن جرگہ منعقد کیا جائے گا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت عمران خان کے نظریہ اور صوبے کے عوام کے مفاد کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ خیبر پختون خوا کے عوام کی زندگی اور ان کے مستقبل کا فیصلہ صوبے کے لوگ خود کریں گے اور کسی کو بھی بند کمروں کے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ سہیل آفریدی کے اس بیان میں کولیسٹرول لیول جس طرح مینٹل لیول سے بڑھا ہوا نظر آرہا ہے اسے دیکھ کر بتایا جاسکتا ہے کہ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کب تک انہیں افورڈ کرسکے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں مارا جائوں گا اور اسٹیبلشمنٹ سہیل ا فریدی الطاف حسین پختون خوا کے بغیر اور اس اور ان کے لیے
پڑھیں:
علی امین گنڈا پور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری، گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد کی عدالت نے خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف جاری مقدمے میں ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب وہ متعدد بار عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسن نے علی امین گنڈاپور کے خلاف شراب اور اسلحہ برآمدگی کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے ان کی مسلسل غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کو طلب کیے جانے کے باوجود وہ پیش کیوں نہیں ہوئے؟ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ بعض ذاتی مصروفیات کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوسکے، تاہم عدالت نے یہ مؤقف مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملزم کی بار بار غیرحاضری عدالتی عمل میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔ اس پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی کہ علی امین گنڈاپور کو گرفتار کر کے آئندہ سماعت پر عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔
عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس سے رپورٹ طلب کرلی۔ یاد رہے کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف یہ مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ بارہ کہو میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر شراب اور اسلحہ کی برآمدگی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مقدمے کے اندراج کے بعد سے اب تک وہ متعدد بار طلب کیے جا چکے ہیں، تاہم عدالت میں حاضر نہ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی مزید سخت کر دی گئی ہے۔