WE News:
2025-12-04@17:41:33 GMT

کیا ہم ’یونیورس 25‘ میں رہ رہے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

دنیا آج جتنی روشن ہے، شاید کبھی نہ تھی۔
شہروں میں روشنی کا شور ہے، مگر دلوں میں اندھیرا پھیل رہا ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نئی تہذیب جنم لے رہی ہے، جس میں سب کچھ ہے، مگر سکون نہیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ذہن ایک پرانے سائنسی تجربے کی طرف بھٹک جاتا ہے، جسے دنیا ’یونیورس 25‘ کے نام سے جانتی ہے۔

انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکی ماہرِ حیوانیات جان بی کیلہون (John B.

Calhoun) نے ایک تجربہ کیا۔
اس نے ایک ایسی دنیا بنائی جہاں چوہوں کو تمام تر سہولیات سے آراستہ ماحول دیا گیا۔ کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں تھی، خطرہ کوئی نہیں، اور رہائش کی سہولت بہترین۔
ابتدا میں آبادی بڑھی، سماجی ڈھانچہ قائم ہوا، بچے پیدا ہوئے، نظام چلنے لگا۔
مگر جیسے جیسے تعداد بڑھی، سماجی رویے بدلنے لگے۔
چوہوں نے ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کیا۔
کچھ گروہ طاقت کے نشے میں آ گئے، کچھ بے مقصد لڑائیاں کرنے لگے، اور کچھ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
ایک وقت آیا کہ چوہے اپنی جنت میں ہی نفسیاتی موت مر گئے۔
کھانا موجود تھا، مگر کسی کو بھوک نہ تھی؛
ساتھی موجود تھے، مگر کسی کو تعلق کی خواہش نہ رہی۔

یہ تھی ’یونیورس 25‘ کی کہانی جس میں جنت خود جہنم بن گئی۔

اب ذرا اپنی زمین پر نظر ڈالیں۔
ہم نے ہر چیز دریافت کر لی ہے، زمین کے نیچے سے معدنیات نکال لائے، فضا کو مسخر کرلیا، خلا میں بستیاں بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
لیکن انسان کے اندر جو خلا ہے، وہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمارا دور، بظاہر ترقی یافتہ، دراصل وجودی تنہائی کا دور ہے۔
ہمارے پاس لاکھوں دوست ہیں مگر ایک بھی نہیں جس سے دل کی بات کی جا سکے۔
ہم گفتگو کرتے ہیں، مگر ایک دوسرے کو سنتے نہیں۔
ہم ہنستے ہیں، مگر کسی کے دکھ میں شریک نہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی دنیا اور یونیورس 25 کا تجربہ ایک دوسرے سے ملنے لگتے ہیں۔

دنیا کی آبادی اب 8 ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔
یہ کثرت ایک کامیابی لگتی ہے، مگر اس کے ساتھ ایک خطرہ چھپا ہے۔
بڑھتی تعداد کے ساتھ ذہنی فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
جہاں انسان ایک دوسرے کے قریب ہونے چاہیے تھے، وہاں شہروں کی بھیڑ میں تنہائی بڑھ رہی ہے۔
جیسے یونیورس 25 میں چوہے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے بھی الگ ہو گئے تھے،
ہم بھی ایک دوسرے کے جسموں کے پاس ہیں مگر روحوں سے دور۔
گھر چھوٹے ہو گئے ہیں، عمارتیں اونچی ہو گئیں،
دل تنگ ہو گئے ہیں، مگر خواہشیں پھیلتی جا رہی ہیں۔

ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں مشینیں جذبات سمجھنے لگی ہیں، مگر انسان جذبات کھونے لگے ہیں۔
مصنوعی ذہانت نے زندگی کو آسان بنایا، مگر رشتوں کو مصنوعی کر دیا۔
الفاظ اب الگورتھم سے پیدا ہوتے ہیں، جذبات فلٹر سے گزر کر آتے ہیں۔
مسکراہٹیں ایموجی بن چکی ہیں،
محبت ڈیجیٹل نوٹیفکیشن میں بدل گئی ہے۔
ہم اب ’محسوس‘ نہیں کرتے، صرف ’ری ایکٹ‘ کرتے ہیں۔

یونیورس 25 میں جب چوہے ضرورتوں سے آزاد ہو گئے، تو اُن کے رویے بگڑنے لگے۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔
جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے، تو مقصد بھی دھندلا جاتا ہے۔
اور جب مقصد گم ہو جائے، تو تہذیب اپنے بوجھ سے خود ہی ٹوٹنے لگتی ہے۔

ہم نے کامیابی کو سہولت کے پیمانے پر پرکھنا شروع کر دیا ہے۔
اب خوشی کا مطلب ہے: رفتار، دولت، شہرت۔
لیکن انسان کی اصل ضرورت ہے معنی، وہ سوال جس کا جواب ہم نے بھلا دیا ہے۔
ہم نے آگے بڑھنے کی جلدی میں یہ بھول گئے کہ کہاں جانا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کو علم دیا، مگر شعور نہیں؛
ٹیکنالوجی دی، مگر مقصد نہیں؛
آرام دیا، مگر احساس چھین لیا۔
اور یہی تو ’یونیورس 25‘ کا المیہ تھا۔
جب مقصد مر جائے، تو زندگی خود سزا بن جاتی ہے۔

بڑھتی آبادی کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ زمین چھوٹی پڑ جائے گی،
بلکہ یہ ہے کہ رشتے چھوٹے پڑ جائیں گے۔
جہاں ہزاروں انسان ساتھ ہوں، وہاں بھی تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
ہجوم اب تحفظ نہیں دیتا، بلکہ خوف پیدا کرتا ہے۔
ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، مگر پہچانتے نہیں۔
ہم ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، مگر سمجھتے نہیں۔
اور جب معاشرہ اس سطح تک پہنچ جائے تو وہ زندہ تو رہتا ہے،
مگر زندگی اُس میں مر چکی ہوتی ہے۔

جان کیلہون کے مطابق، چوہوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی تعلقات کا خاتمہ تھی۔
جب ہر فرد نے اپنی چھوٹی سی دنیا بنالی، تو بڑی دنیا بکھر گئی۔
آج ہم بھی اپنی چھوٹی ’ڈیجیٹل دنیا‘ میں قید ہیں۔
ہر شخص ایک الگ اسکرین کے پیچھے بیٹھا ہے۔
جہاں وہ خود کو سب سے زیادہ منسلک سمجھتا ہے،
لیکن درحقیقت سب سے زیادہ تنہا ہے۔

ہم نے ’رابطے‘ بڑھا دیے ہیں، مگر ’رشتے‘ کم کر دیے ہیں۔
ہم ’کنیکٹڈ‘ ہیں مگر ’کمیونٹی‘ نہیں۔
ہم ایک ایسی دنیا کے باسی ہیں جہاں خبریں لمحوں میں پھیلتی ہیں،
مگر درد برسوں میں کوئی نہیں سُنتا۔

’یونیورس 25‘ کا انجام خاموش تھا۔ کوئی شور نہیں، کوئی جنگ نہیں، صرف خاموشی۔
اور یہی خاموشی آج ہماری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔
ہم شور میں رہ کر بھی خاموش ہو چکے ہیں۔
ہماری گفتگوؤں میں معنی نہیں، ہماری آوازوں میں روح نہیں۔
ہمارے خواب مصنوعی ہیں، ہماری مسکراہٹیں پروگرامڈ۔
ہم جیتے ہیں، مگر جیسے کسی اور کے لکھے ہوئے منظرنامے میں۔

لیکن ہر زوال کے بعد ایک سوال بچ جاتا ہے۔
کیا سب ختم ہو چکا ہے؟
نہیں۔
انسان کی فطرت میں ایک ضد ہے، دوبارہ جنم لینے کی ضد۔
ہم نے ہر دور میں خود کو ازسرِنو دریافت کیا ہے۔
’یونیورس 25‘ کا انجام ہمیں ڈراتا ضرور ہے، مگر خبردار بھی کرتا ہے۔
یہ بتاتا ہے کہ اگر ہم نے تعلقات، احساس، اور مقصد کو زندہ رکھا تو
ہم اس تجربے کا نتیجہ نہیں، اس کا استثنا بن سکتے ہیں۔

شاید ہمیں واپس لوٹنا ہوگا۔
اپنے اندر کے شور کو سننے کے لیے،
اپنے ہاتھوں سے مٹی کو چھونے کے لیے،
کسی اجنبی کو مسکراہٹ دینے کے لیے۔
کیونکہ زندگی وہ نہیں جو ہمیں دی گئی،
بلکہ وہ ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔

’یونیورس 25‘ کا تجربہ ختم ہو گیا، مگر اس کی گونج اب بھی باقی ہے۔
شاید ہماری زمین بھی ایک عظیم تجربہ گاہ ہے۔
جہاں کائنات دیکھ رہی ہے کہ
کیا انسان اپنی آسائشوں کے بوجھ تلے دب جائے گا؟
یا اپنی روح کی روشنی سے اس اندھیرے کو چیر دے گا۔

فیصلہ اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
یا تو ہم ’یونیورس 25‘ کی طرح آسائش میں مر جائیں۔
یا ’انسان‘ بن کر زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

’یونیورس 25‘ John Calhoun Universe 25 مشکورعلی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: یونیورس 25 مشکورعلی ایک دوسرے یونیورس 25 کے ساتھ رہی ہے ہو گئے ہم ایک رہا ہے کے لیے نے ایک

پڑھیں:

دنیا جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں جمہوریت کا خاتمہ کیو ں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام کو اس نظام نے کچھ دینے کے بجائے جمہوری حکومتوں نے عوام سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ دوسری جانب اس نظام کو اس اصل روح کے مطابق چلایا نہیں جارہا ہے-
جنوبی ایشیا میں دنیا کی 8 ارب آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور ایشیا کی تقریباً نصف آبادی رہتی ہے، جس سے خطے کو ڈیموگرافک، سیاسی اور معاشی طور پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
سوائے افغانستان کے، اس خطے میں دیگر 7 ممالک میں جمہوریتیں ہیں۔ ان میں رجسٹرڈ ووٹروں کے لحاظ سے دنیا کی 10 بڑی جمہوریتوں میں سے 3 ملک یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
ایک محدود سروے کے مطابق جن ممال میں جمہوریت چلائی جا رہی ہے وہاں بھی اس میں آمریت کی ملاوٹ کی جارہیہے۔انڈیا اور پاکستان میں جمہوریت اور اس کے معیار کا نیا درج حرارت حال ہی میں چیک کیا گیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش چند ہفتے میں انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک نئے آئینی طریقہ کار کا اعلان کر رہا ہے۔ ایک ایسے خطے کے لیے جو اپنی منتخب جمہوری اقدار پر فخر کرتا ہے، تشخیص اچھی نہیں لگ رہی۔

جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثریت کے ووٹوں کو پوری دنیا اور جنوبی ایشیا اور پاکستان میں عزت دینے کے بجائے روندا جاتا ہے ۔انڈیا نے ابھی بہار میں ریاستی انتخابات منعقد کیے ہیں، جو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی مقبولیت اور مذہبی رنگت والے قوم پرست سیاسی ایجنڈے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ پاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی حمایت کے اسی طرح کے ٹیسٹ کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔
دونوں ممالک میں مودی کی بی جے پی اور شریف کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحادوں نے قومی اور علاقائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کو بہتر بنایا۔ دونوں پارٹیوں نے رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے برخلاف اپنے اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دی۔
تکنیکی طور پر ان نتائج میں قانونی لحاظ سے کچھ بھی غلط نہیں ہے، اپوزیشن عام طور پر نتائج کو قبول کرتی ہے اور فاتحین اپنے غلبے کا جشن منا رہے ہیں۔
لیکن دونوں ممالک میں آئینی جمہوری فریم ورک کے اندر منعقد ہونے والی اس انتخابی مشق کی سیاست کے بارے میں کچھ پریشان کن ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں ناقابل یقین حد تک تکثیری اور متنوع ہیں، ان کے سیاسی منظرنامے اور سماجی و اقتصادی ڈیموگرافکس اور انتخابی مشق کا پورا پس منظر نہ صرف معمول کی موقع پرستی بلکہ جارحانہ اور اشتعال انگیز سیاسی داداگیری کی بھی بُو دے رہا تھا۔

جب گزشتہ سال عام انتخابات میں ان کی پارٹیاں انڈیا اور پاکستان میں اقتدار میں آئیں تو یہ عمل ہیرا پھیری پر مبنی سیاسی بیانیے کے پس منظر میں دیکھا گیا۔ انڈیا کے معاملے میں انسانی حقوق کے ایجنڈوں کے بجائے ہندوتوا کے غلبے کی ایک استثنائی مہم کے گرد اقلیت مخالف نعرے پہلے سے طے شدہ انتخابی زبان تھی۔
پاکستان کے معاملے میں انتخابی نظام نے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا، نیز ووٹوں کی گنتی اور دستاویزات کے نظام میں مشکوک ہیرا پھیری ہوئی۔
پاک افغان مذاکرات پر انس حقانی کی غزل: انتباہ یا پیغام؟
اس مہینے کی بڑے پیمانے پر انتخابی مشقوں نے صرف اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے جس میں دونوں ممالک میں اپوزیشن کو انتخابی، پارلیمانی اور حکمرانی کی جگہوں سے سختی سے محدود کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکمران جماعتیں اپنی قانونی لیکن متنازع اکثریت سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
خطے میں جمہوریت کے معیار کو ٹریک کرنے والوں کے لیے جنوبی ایشیا کی 2 بڑی جمہوریتیں اپنی جائز اپوزیشن کے لیے جگہ مزید سکڑ رہی ہیں۔
یہ رجحان سیاسی تکثیریت اور شراکتی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ اکثریت پسندی طاقت کو مزید کم ہاتھوں میں مرکوز کرتی ہے، عوامی مفاد میں بامعنی اختلاف رائے اور جمہوریت کی دائمی اپیل کو کمزور کرتی ہے۔

اکثریت پسندی کا دوسرا رخ آمریت اور تنزلی کا شکار احتساب ہے۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ واحد پارٹی کی اکثریت پسندی کی طرف واپسی، ایک اہم اتحادی کو ناراض کرنے اور مرکزی اپوزیشن پارٹی کو مزید سائیڈ لائن کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔
بنگلہ دیش فروری 2026 میں ہونے والے آئندہ قومی انتخابات سے معزول اور جلاوطن سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی سابقہ حکمران جماعت اور موجودہ مشکلات میں گھری اپوزیشن پارٹی پر پابندی لگا کر خود کو انڈیا اور پاکستان کے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے۔
یہ ستم ظریفی سے خالی نہیں کہ جنوبی ایشیا کی 3 سب سے بڑی جمہوریتوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات خراب ہیں جو اکثر جنگ میں تبدیل ہونے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کچھ ماہ قبل ہی جنگ کی طرف گئے تھے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ تکثیری جمہوریتیں تنازعات کے حل کے لیے ایک بہتر اور سستا آپشن ہیں۔

انڈین اور پاکستانی سیاست، نیز بنگلہ دیش میں عبوری نظام کو جمہوریت کو بامعنی اور شراکتی رکھنے کے لیے سیاسی تکثیریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، کمزور کرنے کی نہیں۔ انہیں انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کرنا چاہیے اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ریاستی فنڈنگ یا میڈیا تک مساوی رسائی فراہم کرنی چاہیے۔
انہیں آزاد انتخابی اداروں کی ضمانت دینے اور متنوع آوازوں کے لیے قابل نفاذ تحفظات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات بھی کرنی چاہئیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اپوزیشن کو ساختی طور پر پسماندہ نہ کیا جائے۔

اس سے جمہوریت کے بنیادی منافع کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی: اقتصادی توسیع کی بہت بڑی صلاحیت۔ جنوبی ایشیا عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والے خطوں میں شامل ہے، جس کی پیش گوئی اکثر 6 فیصد سالانہ سے زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ تب ہی برقرار رہ سکتی ہے جب سیاسی طاقت سیاسی استحکام کا کام کرے۔ اس کے لیے خطے کو جمہوریت کے نام پر اکثریت پسندی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چھوڑنی چاہیے۔
اس حقیت سے انکار نہیں ہے جمہورت بھی ایک اچھا نظام حکومت بن سکتا ہے اور اس کو کامیابی چلا کر عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے لیکن اس پر چند خاندان اور گروپ قابض ہو کر اس کو تباہ کر رہے ۔اب تو جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے-

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • امریکا: پالتو کتے نے دنیا کی سب سے لمبی زبان کا ریکارڈ بنا دیا
  • انسانی علم متروک ہونے والا ہے، حیران کن پیشگوئی
  • بیلرینا سے ارب پتی تک، دنیا کی کم عمر ترین ارب پتی کون ہیں؟
  • خیالات کو قید نہیں کیا جا سکتا
  • دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست جاری؛ پاکستان کا نمبر کون سا ہے؟
  • دنیا کے 10 محفوظ ترین ممالک کی فہرست، آئس لینڈ سرفہرست
  • دنیا کے 10 محفوظ ترین ممالک کون سے ہیں؟
  • آبادی میں اضافے کے مسئلے سے نمٹنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے: مولانا عبدالخبیر آزاد
  • دنیا نے معرکہ حق سے قبل فضائی طاقت کا اتنا جرات مندانہ استعمال کبھی نہیں دیکھا: ائیر چیف مارشل
  • دنیا جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ؟