ملکی معاشی نمو محدود، افراط زر 6 فیصد، بیروزگاری میں کمی کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ رپورٹ ’’ورلڈ اکنامک آؤٹ لک‘‘ میں پاکستان کی معاشی شرحِ نمو 3.6 فیصد ظاہر کی ہے، تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تخمینہ ابتدائی نوعیت کا ہے اور حالیہ سیلاب کے اثرات کو ابھی اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کو آئندہ مہینوں میں معاشی چیلنجز کا سامنا رہے گا، بالخصوص زرعی پیداوار میں کمی، سیلابی نقصانات اور مالیاتی دباؤ کی وجہ سے یہ شرح مزید کم ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق، افراطِ زر کی شرح موجودہ تخمینے میں 6 فیصد بتائی گئی ہے، مگر مہنگائی کا دباؤ برقرار رہے گا کیونکہ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ممکن ہے۔ ادارے نے اشارہ دیا ہے کہ اگر سیلاب کے مالی اثرات کا درست اندازہ سامنے آیا تو افراطِ زر کی شرح میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت کے دوران کئی امور پر اختلافات برقرار رہے، جن میں گورننس اور کرپشن رپورٹ کی اشاعت، بنیادی بجٹ کے سرپلس ہدف، سیلابی نقصانات کے تخمینے اور بیرونی کھاتوں کے خسارے سے متعلق حسابات شامل ہیں۔
فریقین میں بات چیت کے اختتام پر آئی ایم ایف کا وفد معاہدے کے بغیر واپس چلا گیاتھا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ میں تاخیر متوقع ہے، اب یہ طے ہو چکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ عالمی رپورٹ میں 3.
حکومتِ پاکستان پہلے ہی اپنے ہدف کو 4.2 فیصد سے کم کر کے 3.5 فیصد کر چکی ہے جب کہ عالمی بینک نے اس سے بھی کم یعنی 2.6 فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔
آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ درمیانی مدت میں پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ 4.5 فیصد کی شرح نمو تبھی ممکن ہوگی جب ملک اپنی برآمدات میں نمایاں اضافہ کرے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی شعبہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جس کے اثرات مجموعی معیشت پر نمایاں ہوں گے۔
دریں اثنا وزارتِ خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے سرکاری افسران کے اثاثوں کے افشا کے موجودہ نظام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فنڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ایک جامع، مربوط نظام قائم کیا جائے جو نہ صرف بینک اکاؤنٹس بلکہ منقولہ و غیرمنقولہ تمام اثاثوں کو بھی ظاہر کرے۔
عالمی ادارے نے حکومت کی وہ تجویز مسترد کر دی جس میں صرف بینک اکاؤنٹس کی معلومات شیئر کرنے کی بات کی گئی تھی۔
عالمی سطح پر آئی ایم ایف نے 2025 کے لیے مجموعی شرح نمو کے تخمینے کو 2.8 سے بڑھا کر 3.2 فیصد کر دیا ہے، جو امریکی تجارتی محصولات کے کم منفی اثرات کی وجہ سے ممکن ہوا۔ رپورٹ میں امریکا کی شرح نمو 2 فیصد اور چین کی 4.8 فیصد ظاہر کی گئی ہے، جو عالمی معیشت کے توازن کی سمت میں معمولی بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔
پاکستانی معیشت کے حوالے سے رپورٹ کا مجموعی تاثر محتاط مگر غیر حوصلہ افزا ہے۔ ادارہ اس بات پر متفق ہے کہ اگر حکومتی اصلاحات میں تاخیر برقرار رہی اور قدرتی آفات کے اثرات کو مؤثر انداز میں منظم نہ کیا گیا تو ملک کی مالی بحالی کے امکانات مزید سست ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف رپورٹ میں کی شرح
پڑھیں:
کارپوریٹ ٹیکس اورغیر ملکی سرمایہ کاری میں براہِ راست تعلق
کراچی:پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی اور جمودکی بڑی وجہ ملک میں بلند ترین کارپوریٹ ٹیکس ریٹ ہے، پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 29 فیصد ہے،جس میں 10 فیصد سپر ٹیکس، 2 فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈ، 5 فیصد ورکرز پارٹیسپیشن فنڈ اور منافع پر 15 فیصد ٹیکس بھی شامل ہے،یہ ٹیکس بوجھ نہ صرف کاروبارکیلیے مہنگا ماحول پیداکرتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی متبادل اور سازگار ممالک کی طرف راغب کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں دستخط شدہ کئی مفاہمتی یادداشتیں عملی شکل اختیارکرنے میں ناکام رہیں،کئی بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے کاروبار سمیٹ چکی ہیں،عالمی سطح پر مقابلہ بازی کااصول صرف نجی شعبے تک محدود نہیں بلکہ حکومتوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ہر حکومت کو سرمایہ کاری کیلیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے،جس میں کم ٹیکس اور واضح ضوابط بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔
2000 کے بعد سے تمام OECD ممالک نے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی کی ، OECD ممالک کااوسط کارپوریٹ ٹیکس ریٹ اس وقت 23 فیصد ہے،جہاں ہنگری میں یہ صرف 9 فیصد،جبکہ فرانس میں سب سے زیادہ 34 فیصدہے۔
کارپوریٹ ٹیکس ریٹ نہ صرف سرمایہ کاروں کی ترجیحات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کو رفتار دینے، روزگار بڑھانے اور ٹیکس آمدنی میں اضافے کامؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر اپنے ٹیکس ڈھانچے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، اصلاحات نہ کی گئیں تو نہ صرف سرمایہ کاری میں مزیدکمی واقع ہوگی، بلکہ معیشت مزید دباؤکاشکار ہو سکتی ہے۔
ایسے میں حکومت کافرض بنتا ہے کہ وہ عالمی مقابلے کے اصولوں کوسمجھے اور "ایڈم اسمتھ" کے مشہور تصور "نظر نہ آنیوالا ہاتھ" کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کرے، تاکہ پاکستان بھی عالمی معیشت کا مؤثر حصہ بن سکے۔