سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ سپریم کورٹ اور بینچ الگ الگ ہیں، تو قانون میں تو سپریم کورٹ کا اختیار لیا گیا ہے، بینچ کا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو آپ نے اچھی بات کی، بینچ کے اختیارات میں اضافہ کروا دیا۔

درخواست گزار کے وکیل شبر رضوی نے مؤقف اپنایا کہ نئے بینچ کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے اختیارات نہیں چھینے گئے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین میں ترمیم ہوچکی ہے، اس کے مطابق آئینی بینچ بن چکا ہے۔ آپ چاہ رہے ہیں کہ پہلے ہم 26ویں آئینی ترمیم کو معطل کریں؟

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ 191 اے کو کیسے بائی پاس کریں گے؟ وکیل شبر رضا رضوی نے جواب دیا کہ 191 اے کو آئین کی دیگر شقوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا، اسے اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا۔

وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 191 اے کے نفاذ کے باوجود سپریم کورٹ کا 184(3) کا اختیار ختم نہیں ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا، آپ کہہ رہے ہیں کہ 184(3) آرٹیکل 191 اے سے مستثنیٰ ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت 184(3) کا اختیار آئینی بینچ کو منتقل ہوچکا ہے، اور اس بات کا واضح ذکر آئین میں موجود ہے کہ 184(3) کے اختیارات آئینی بینچ کو دیے گئے ہیں۔

وکیل شبر رضا رضوی نے کہا کہ میں نے اپنی استدعا پیش کردی ہے، اب میں دلائل کے اگلے حصے کی طرف بڑھنا چاہوں گا۔

وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 175 اے سب آرٹیکل (3) میں واضح طور پر درج ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دو حالیہ عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو آئین کے تحت صدر کو ایڈوائز کرنے کا اختیار حاصل ہے، جبکہ آرٹیکل 58 کے تحت وزیر اعظم قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری صدر کو بھیج سکتا ہے، اور اگر صدر اس پر دستخط نہ کرے تو آئین کے مطابق اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 176 اور آرٹیکل 191 اے کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ ان کے مطابق جب وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تھی تو اس وقت بھی یہی نوعیت کی بحث ہوئی تھی، تاہم وہ عدالت خصوصی اختیارات رکھنے کے باوجود سپریم کورٹ کا حصہ ہے۔

شبر رضا رضوی نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت بطور سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے اختیارات بھی استعمال کرسکتی ہے، اور یہ شق مکمل انصاف کے حصول کے لیے مددگار ہے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ بھی آرٹیکل 187 کے اختیارات استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے اندر ہی تشکیل دیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہاں بینچ کے اختیارات کا سوال نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ غیر آئینی بینچ کے ججز کو آئینی بینچ کا حصہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ وکیل شبر رضا رضوی نے جواب میں کہا کہ آپ کے پاس دو عہدے ہیں، آپ سپریم کورٹ بھی ہیں اور آئینی بینچ بھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ریگولر بینچ اور آئینی بینچ دونوں ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ آئینی بینچ سپریم کورٹ سے اوپر ہے یا نیچے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مشاہدہ کیا کہ آپ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بینچز کے پاس اختیار نہیں بلکہ فل کورٹ کے پاس ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یعنی بینچز نہیں سن سکتے لیکن فل کورٹ میں تمام ججز بیٹھ کر سن سکتے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آپ نے بھارت کی بات کی، وہاں بھی آئینی بینچ کا کیس ریگولر بینچ میں نہیں جاتا۔ بھارت میں بینچ چیف جسٹس اس لیے بناتے ہیں کہ وہ ماسٹر آف روسٹر ہیں، مگر پاکستان میں اب قانون بن چکا ہے، کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں، اس لیے چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں رہے۔

درخواست گزار کے وکیل شبر رضا رضوی نے کہا کہ اگر آپ ترمیم کو دیکھیں تو آئینی بینچ کو نکال کر آئینی عدالت سمجھ لیں۔ یہ بن تو آئینی عدالت رہی تھی، اب بن گیا آئینی بینچ۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ویسے آپ مشورہ اچھا دے رہے ہیں۔

وکیل شبر رضا رضوی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اصل کنفیوژن یہ ہے کہ عدالت کی جگہ بینچ کا لفظ ڈال دیا گیا ہے۔ وکیل شبر رضا رضوی نے مؤقف اپنایا کہ صدر مملکت ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجتے ہیں، کسی مخصوص بینچ کو نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس ریفرنس کو آئینی بینچ کمیٹی کے پاس بھیجیں گے، جو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بینچ تشکیل دے گی۔ دورانِ سماعت 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ کے اختیار پر بھی بحث ہوئی، جب کہ جسٹس امین الدین نے پوچھا کہ کیا ایسے ججز کو اختیار دیا جا سکتا ہے جنہیں قانون اجازت نہیں دیتا؟

شبر رضا نے کہا کہ اگر صدر مملکت معاملہ چیف جسٹس کو ریفر کرسکتا ہے تو یہ بینچ بھی کرسکتا ہے، آئین میں جب ترامیم ہو جاتی ہے تو بے شک آئین کا حصہ بن جاتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے وہ اچھے ہوسکتے ہیں لیکن آپ یہ مرکزی کیس میں دیجیے گا، اس پر شبر رضا کے دلائل مکمل ہوگئے۔

اس کے بعد بیرسٹر عدنان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بینچ پر اعتراضات ججز کی ذات پر نہیں ہیں بلکہ فل کورٹ ان کی استدعا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟ جس پر بیرسٹر عدنان نے کہا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

ججز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کیس کو چیف جسٹس کو ریفر کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بنا سکتے تھے؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر تھے اور ماضی میں فل کورٹ کی مثالیں موجود ہیں، آپ کے مؤقف سے تو چیف جسٹس کے اختیارات ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

وکیل عدنان خان نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ بینچز سے الگ ایک مستقل باڈی ہے اور اس کا مطلب تمام ججز پر مشتمل عدالت ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فل کورٹ کا وجود مستقل ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی، فل کورٹ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا عدالت فل کورٹ کا حکم دے یا معاملہ ریفر کرے؟ جبکہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ چیف جسٹس سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے رجوع کیوں نہیں کرتے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر بینچ میں کسی اور جج کو شامل کیا جائے تو کیا آپ اعتراض نہیں کریں گے، اور ہم آرٹیکل 191 اے کو بائی پاس کرتے ہوئے سب ججز کو کیسے بٹھا سکتے ہیں؟

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل شبر رضا رضوی نے نے ریمارکس دیے کہ جسٹس امین الدین مؤقف اپنایا کہ رضوی نے مؤقف کے اختیارات آرٹیکل 191 اے استفسار کیا سپریم کورٹ کہ فل کورٹ کہ آرٹیکل کے اختیار کا اختیار نے کہا کہ کہا کہ آپ انہوں نے چیف جسٹس بینچ کو کورٹ کا کو آئین رہے ہیں کورٹ کے بینچ کا کے تحت کیا کہ ہیں کہ کے پاس کہ اگر کہ کیا

پڑھیں:

سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت: ٹیکس پیئرز کے وکیل کے دلائل مکمل

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، ٹیکس پیئرز کے وکیل عدنان حیدر نے دلائل مکمل کے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 31 دسمبر 2021 کے اختتامی سال پر 2022 ٹیکس کا قانون لاگو ہوگا، آپ کا منافع فنانشل اسٹیٹمنٹ سے نکالا جائے گا۔

عدالت نے ایف بی آر حکام کو روسٹرم پر بلا لیا، عدالت نے ایف بی آر حکام سے استفسار
کیا کہ ٹیکس 18 ماہ کی اسٹیٹمنٹ پر لگے گا یا 12 ماہ پر؟ ایف بی آر حکام نے جواب دیا کہ اسپیشل ہو یا ریگولر ٹیکس 12 ماہ پر ہی لگتا ہے۔

وکیل عدنان حیدر نے مؤقف اپنایا کہ مجھ پر دسمبر 2021 کی اختتامی اسٹیٹمنٹ پر 2022 کا قانون لاگو ہوگا، ایف بی آر مجھ سے 2023 کے قانون کے مطابق ٹیکس لے رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ خود اپنے موقف کو تبدیل کر رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ واضح نہیں کر پا رہے کہ کیسے ٹیکس لگ رہا ہے، وکیل عدنان حیدر نے استدلال کیا کہ ایف بی آر استثنیٰ کی بات آئے تو نہیں دیتا، ٹیکس لینے کی بات آئے تو فوراً لے لیتا ہے، ہمارا موقف ہے کہ اگر چارج لگانا ہو تو اسی سال کا لگایا جائے اور استثنیٰ بھی دیا جائے، سب کیسز کا فیصلہ اس بینچ نے ہی کرنا ہے تو ٹربیونل کے کیسز بھی یہ سن لے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ نے ٹیکس سے متعلق تشریح کے کیسز سننے ہیں، یہ بینچ 191 اے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیے 
  • سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت: ٹیکس پیئرز کے وکیل کے دلائل مکمل
  • 26ویں ترمیم کیس : ہم حلف کے پابند‘ قوم کو جوابدہ ‘ ثابت کریں آئینی بنچ مقدمہ سننت کا اہل نہیں : جسٹس امین الدین 
  • اب تک ایک بھی وکیل نے آئین کے مطابق دلائل نہیں دیے، جسٹس امین الدین خان
  • ایک صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا کہ 26ویں ترمیم کو بھول جائیں: جسٹس امین الدین خان
  • 26 ویں آئینی ترمیم؛ چیف جسٹس حکم دینگے تو ہم یہ ٹوپی اتار کر دوسری پہن لیں گے، جسٹس جمال کے ریمارکس
  • الیکشن کی جانچ کو روکنے کیلئے ہی 26ویں ترمیم لائی گئی، اکرم شیخ
  • یہ بتا دیں فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، فل کورٹ کون بنائے گا؟جسٹس جمال مندوخیل کا وکیل اکرم شیخ سے استفسار
  • سپریم کورٹ: ‘ابھی تک آئین کے مطابق کسی وکیل نے دلائل نہیں دیے،’ 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت