کمپلیکس عرف بھول بھلیاں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
کچھ دنوں سے ہم محسوس کررہے تھے کہ ہمارے کانوں کی ’’ان کمنگ‘‘ کچھ کم ہورہی ہے ویسے تو یہ کوئی تشویش کی نہیں بلکہ خوشی کی بات تھی کیونکہ اس وقت ملک میں ’’شورپولیشن‘‘ چل رہا ہے یعنی’’صدائی آلودگی‘‘ مسلط ہے۔
اس میں صرف ’’بہرے‘‘ کی عافیت ہے لیکن یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ پھر لوگ خاص طور پر اپنے گھر والے اور شاعر وادیب ہمارے سامنے ہماری غیبت کریں گے اور ہم مسکرا مسکرا کر ہنسیں گے بلکہ نہیں ہنسیں گے۔چنانچہ اسپتال جانے کی ٹھانی، اسپتال جانے کا ایک محرک ہمارے مشاعرے برپا کرنے والے،تقریبات منعقد کرنے والے ہر وقت اپنا تازہ کلام سنانے والے بھی تھے۔معلوم ہوا کہ اس وقت’’کمپلیکس‘‘ میں علاج معالجے کی سہولتیں زیادہ ہیں۔
میڈیکل کمپلیکس کا یہ نام بالکل ہی حسب حال ہے کیونکہ ہم نے اس اسپتال کو ہر لحاظ سے ایک ’’کمپلیکس‘‘ ہی پایا جس کاآسان اردو میں ترجمہ ’’بھول بھلیاں‘‘کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ گاڑی کو کمپلیکس یعنی ’’بھول بھلیاں‘‘ سے آدھے کلومیٹر دور کھڑی کرکے جب ہانپتے کانپتے پھولی سانس کے ساتھ دروازے پر پہنچے تو بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دروازے سے اصل بھول بھلیاں شروع ہوئیں ہم ای این ٹی کا پتہ پوچھتے ہوئے چلے تو چلتے رہے ادھر ادھر مڑتے ہوئے۔کئی مقامات پر غلط کاریڈور میں بھی مڑجاتے اور کافی چلنے کے بعد واپس ہوتے رہے، پہلے ٹانگوں نے جواب دیا پھر سانس نے اور آخرمیں حوصلے نے۔تو ایک جگہ بیٹھ جاتے سانس بحال ہوجاتی تو پھر چل پڑتے تین چار مقامات پر سانس بحال کرتے، پھولی ہوئی سانس اور گھسیٹتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ ناک کان اور گلے کی انتظارگاہ پہنچے،تو ایک کرسی میں بیٹھنے سے پہلے گر پڑے۔آگے کیا ہوا وہ بتانے کے لائق نہیں اس لیے چھوڑ دیتے ہیں اور بھول بھلیوں کا پیچھا کرتے ہیں، اس وقت عوام و خواص میںدو مشہور بھول بھلیوں کا ذکر آتا ہے۔
ایک یونانی اساطیر میں’’مینو ثور‘‘ کی بھول بھلیاں اور دوسری پشاور میں مشہور’’محبوبہ جلات‘‘ کی بھول بھلیاں اور تیسری یقیناٰ اس کمپلیکس کے انجینئروں کی بنائی ہوئی یہ نئی بھول بھلیاں۔لفظ’’مینو ثور‘‘ کے معنی ہیں ’’آدمی بیل‘‘ یا بیل آدمی۔کہانی کے مطابق کریٹ کے بادشاہ منہاس کی بیوی پر دیوتا ’’زیوس‘‘ عاشق ہوگیا اور اس نے ایک ’’بیل‘‘ کی شکل میں اس سے ملاقات کی تو نتیجہ مینوثور کی شکل میں نکلا جس کا دھڑ بیل کا اور سر انسان کا تھا۔منہاس نہایت پیچیدہ بھول بھلیوں میں سیگزرا، وہ آدم خور بھی تھا۔اور ان دنوں یونان بھی اس کا باج گزار تھا اس لیے یونان سے بھی خراج میں انسان وصول کیے جاتے تھے جو مینوثور کی خوراک بنتے تھے۔
آخر یونان کے ایک شہزادے’’تھی سی ایس‘‘ نے خود کو ان آدمیوں میں شامل کروایا کریٹ پہنچ کر اس نے بادشاہ کی بیٹی ’’اہرادنے‘‘ کو پرم کے جال میں پھنسایا اہرادنے بھول بھلیاں میں ایک دھاگا پھیلایا جو مینوثور تک پہنچتا تھا، شہزادے نے اس دھاگے کی مدد سے جاکر مینوثور کو مارڈالا۔ہوبہو یہی کہانی یہاں پشاور کے بارے میں بھی مشہور ہے۔لیکن اس میں مینوثور کے بجائے بادشاہ کی بیٹی ’’محبوبا‘‘ کو بھول بھلیوں کے اندر رکھا گیا۔اس بادشاہ نامسلم کی بیٹی پیدا ہوئی۔
اولاد ہونے کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتا تھا اور بیٹی کا باپ کہلانا بھی اسے پسند نہیں تھا چنانچہ اس نے پیچیدہ بھول بھلیاں زیرزمین بنوا کر شہزادی کو وہاں رکھا۔لیکن لاکھ چھپانے پر بھی یہ راز پھیل گیا۔اور پڑوسی بادشاہ کے بیٹوں تک پہنچا تو وہ یکے بعد دیگرے جان سے ہاتھ دھوتے گئے کیونکہ بادشاہ نے شرط رکھی تھی کہ اگر کسی نے شہزادی کو ڈھونڈا تو وہ اس سے بیاہی جائے گی اور نہ ڈھونڈا تو اس کا سرقلم کردیا جائے گا، اس طرح چھ شہزادے ناکام ہوکر مارے گئے لیکن ان کا چھوٹا بھائی ’’جلات‘‘ جب اس مہم پر نکلا تو کامیاب ہوگیا کیونکہ اس نے براہ راست نقارہ بجانے کے بجائے پہلے معلومات حاصل کرنا شروع کردی۔
آخر اسے ’’ممندے‘‘نام کے ایک سنار کا پتہ چلا جو محبوبا کے لیے زیور بناتا تھا اور اس کی ماں کا بھول بھلیوں میں آنا جانا تھا۔وہ ممندی زرگر کا شاگرد بن گیا اور اپنی تابعداری وفاداری اور خدمت سے ممندے اور اس کی ماں کا دل جیت لیا۔اور پھر جب اچھی طرح ان کا اعتماد حاصل کیا تو اپنا راز بتایا۔ یوں وہ محبوبا تک پہنچا یہاں بھی دھاگا کام آیا۔یہ کہانی شعرا نے منظوم کتابوں میں لکھی ہے اور لوگوں کا اس پر اتنا یقین ہے کہ اکثر لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ محبوبا کا وہ تہہ خانہ اب بھی پشاور کے آس پاس زیرزمین موجود ہے۔
میڈیکل کمپلیکس کی عمارت بنانے والے انجینئروںنے شاید یہ کہانی سنی تھی، محبوبا کا اصل قلعہ تو معلوم نہیں ہے اس لیے انھوں سوچا کہ محبوبا کا وہ زیرزمین قلعہ برسرزمین کیوں نہ لایا جائے، اس لیے کمپلیکس عرف بھول بھلیاں تعمیر کیا۔جس میں ہم ہر قدم ہر موڑ پر بھٹکتے ہوئے پہنچ تو گئے لیکن محبوبا کا پتہ نہیں چلا کیونکہ اس کے اندر سفید لباس میں ملبوس محبوبائیں اتنی زیادہ تھیں کہ انتخاب بھی بھول بھلیاں ہوگیا تھا۔
بعد میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ممندے زرگر اور اس کی ماں بھی یہاں موجود ہیں۔وہیل چیئر اور ان کے چلانے والے۔لیکن یہ بات صرف وہ لوگ جانتے تھے جو آخری شہزادے کی طرح ذہین ہوں اور کرسی چلانے والے ممندیوں اور ان کی ماں وہیل چیئر کا دل جیت سکتے ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محبوبا کا اور اس کی ماں اس لیے
پڑھیں:
ویویک چوہان
چولستان:
دھرمیندر کمار بالاچ، چولستان
([email protected])
مصور کی پہچان اس کے رنگوں سے ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ان کے ساتھ کھیلتا ہے۔
یہ وہ خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں جو ہر کسی کی حصے میں نہیں آتیں ایک مصور اپنی لگن اور سوچ سے بکھرے رنگوں کو کینوس پر اس طرح سجاتا ہے کہ تصویر ہر اس شخص سے ہم کلام ہوتی جو صاحبِ قدردان ہو۔
رحیم یار خان محلہ کانجواں کا یہ نوجوان بچپن سے کاغذ پر پینسل کے ذریعے اپنی غیرمعمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام میں عدم مساوات، غربت، ثقافت اور دیہی زندگی کی ایسی عکاسی کرتا ہیں اور دیکھنے والا کوئی بھی شخص دنگ رہ جاتا ہے۔ ابتدا میں اپنے فیملی ممبرز، قومی شخصیات اور کرنسی کی تصویریں بنانا شروع کیں۔
ہنرمند نوجوان کی حوصلہ افزائی
ہمارے لیے المیہ یہ کہ یہاں بچوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو پسند نہیں کیا جاتا اس کو فن نہیں فارغ سمجھا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس وقت اس ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس ہنر کی قدر کرے اس کی راہ نمائی کرے۔ جب میں نے بطور پیشہ مصوری کا آغاز کیا سب سے پہلے مجھے والدین کو راضی کرنا بہت مشکل تھا کیوںکہ فن مصوری ان کے لیے نیا پیشہ تھا یا میری لیے محنت آمیز تھا بالآخر ان کی طرف سے مجھے ہری جھنڈی مل گئی۔ شروع میں مجھے کچھ آڈر ملتے تھے لیکن کام مکمل ہونے کے بعد لوگ میرا فون نہیں اٹھاتے اور نہ معاوضہ دیتے ہیں۔
ویویک کمار نے کہا کہ آرٹسٹ کا تعلق اگر متوسط گھرانے سے ہو اس کو دگنی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو رنگ بہت مہنگے ہیں دوسرا اس کے قدردان بہت کم ہیں۔ اب میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی تخیل کردہ پینٹنگ کی مارکیٹنگ کرتا ہوں جس سے کچھ حد تک میرے حالات بہتر ہوئے ہیں۔
ویویک کمار نے بتایا کہ انسان کی سوچ ہر گھڑی نیا روپ لیتی ہے۔ شاعر اس کو شاعری میں پروتا اور موسیقار اس کو دھن میں لیکن مصور اس سوچ کو حقیقت کا رنگ دینے میں کئی دن اور ہفتے مگن رہتا ہے تب جاکر وہ ایک فن پارے کا روپ لیتی ہے۔
نوجوان مصور ویویک کمار نے آٹھویں جماعت سے اس کی ابتدا کی بعد انہوں نے شیف کا کام شروع کیا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا قسمت ویویک کو واپس پینٹنگ کی طرف لے آئی۔
آرٹسٹ کی کام یابی کا راز
اگر میں بُرا آرٹ نہیں کرتا تو میں کبھی ایک اچھا آرٹسٹ بھی نہیں بن سکتا میری نظر میں آرٹ ایک سنجیدہ چیز ہے اور آرٹسٹ ایک غیرسنجیدہ چیز ہے کسی بھی انسان کا کام ہی اس کی پہچان ہے مصور اور موجد ہمیشہ گزر جانے کے بعد اپنے تخلیق کردہ نسخوں کی وجہ سے زندہ رہتا ہے۔ آرٹسٹ کا ہتھیار اس کا قلم اور کینوس جنگ کا میدان ہے جہاں پر وہ معاشرے میں ہونے والی مثبت اور منفی پہلوؤں کو باریک بینی سے پرکھتا ہے اور اپنی فکر سے اس کو بھر کردنیاکے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ایک صاحب علم اس کی خوبیاں اور خامیاں دیکھ کراپنی رائے قائم کرے کہ ایک مصور نے کس حد تک انصاف کیا ہے۔
پسندیدہ آرٹسٹ: میں نے کلر پینسل،آئل پینٹنگ، اسکیچ، ڈرائینگ اور اسٹنگ جیسے آرٹ ورک کاکام کیا ہے اس کی وجہ میرے پسندیدہ آرٹسٹ ہیں صحفہ اول میں صادقین اس کے بعد وین گو، سالواٹور دالی، بابلو پکاسو، جنوڈاری اور رونالڈو ڈی وینسی شامل ہیں۔ ہر آرٹسٹ ایک خاص دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہر فن کار کو وقت کے ساتھ خود کو بدلنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا کے دور میں خود کو اس قابل بنائے کہ کسی کا محتاج نہ ہو۔
آرٹسٹ کی مشکلات: یہاں پر کیلی گرافی، آئل پینٹنگ اور پینسل اسکیچ کا سامان لاہور یا کراچی سے منگوانا پڑتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں آرٹسٹ کا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا ہے۔ نہ ہی ایسا کام کرنے والے ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی اپنے فن میں استاد بن جائے تو وہ شہروں کا رخ کرلیتے ہیں۔ یہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں آرٹ کا کوئی شعبہ نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ضلعی سطح پر کوئی آرٹ اسٹوڈیو یا آرٹ گیلری کا اہتمام کرے تاکہ نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کیا جائے اور ان کے لیے خصوصی اسکالرشپ اور انٹرپنورشپ کا انتظام کیا جائے تاکہ اس صدیوں پرانے معدوم ہوتے اس ہنر میں ایک نئی روح پھونکے اور اس کو آسمان کی بلندی تک پہنچایا جائے۔
آرٹسٹ کی خاصیت
آرٹسٹ کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے جہاں وہ آزاد تخیل سے فن پارے کی نقوش کو کینوس پر بکھیرتا ہے۔ دنیا میں زندگی کا سبق، اتار چڑھاؤ، آوارہ گردی اور کتابیں کے اوراق پڑھنے سے ملتا ہے۔ اسی طرح ہر آرٹسٹ کے اپنے پیرامیٹر ہوتے ہیں جہاں وہ سمندر کو کوزے میں اور صحرا کو ریت کے ذرے میں بند کردیتا ہے۔
ویویک چوہان نے مزید بتایا کہ جب مجھے پنسل پکڑنا نہیں آتا تھا تب ایک الگ دنیا تھی۔ بچپن میں مجھے چیزوں کی نقل کرنا اچھا لگتا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک آرٹسٹ نقل کرنے کا محتاج نہیں لیکن کاپی کرنے سے سے ہی آپ کے فن میں نکھار آتا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی وقت نقل کرتا ہے۔ یہ مقولہ مشہور ہے کہ ایک چور اچھا آرٹسٹ نہیں ہوتا لیکن ایک آرٹسٹ اچھا چور ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح جب میری کاغذ، قلم اور رنگوں سے دوستی ہوئی تو تخلیقیِ کائنات کے عجیب خیال دل کو سکوں دینے لگے۔ اب مجھے کسی بھنور میں کھو جانے سے ڈر نہیں لگتا، کیوںکہ ڈر انسان کو محدود کردیتا ہے۔ آرٹسٹ کی زندگی میں کبھی بھی ٹھہراؤ نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ ٹھہراؤ انسان کو نامکمل اور ناامید کرنا شروع کردیتا ہے۔