چولستان:
دھرمیندر کمار بالاچ، چولستان
([email protected])
مصور کی پہچان اس کے رنگوں سے ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ان کے ساتھ کھیلتا ہے۔
یہ وہ خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں جو ہر کسی کی حصے میں نہیں آتیں ایک مصور اپنی لگن اور سوچ سے بکھرے رنگوں کو کینوس پر اس طرح سجاتا ہے کہ تصویر ہر اس شخص سے ہم کلام ہوتی جو صاحبِ قدردان ہو۔
رحیم یار خان محلہ کانجواں کا یہ نوجوان بچپن سے کاغذ پر پینسل کے ذریعے اپنی غیرمعمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام میں عدم مساوات، غربت، ثقافت اور دیہی زندگی کی ایسی عکاسی کرتا ہیں اور دیکھنے والا کوئی بھی شخص دنگ رہ جاتا ہے۔ ابتدا میں اپنے فیملی ممبرز، قومی شخصیات اور کرنسی کی تصویریں بنانا شروع کیں۔
ہنرمند نوجوان کی حوصلہ افزائی
ہمارے لیے المیہ یہ کہ یہاں بچوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو پسند نہیں کیا جاتا اس کو فن نہیں فارغ سمجھا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اس وقت اس ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس ہنر کی قدر کرے اس کی راہ نمائی کرے۔ جب میں نے بطور پیشہ مصوری کا آغاز کیا سب سے پہلے مجھے والدین کو راضی کرنا بہت مشکل تھا کیوںکہ فن مصوری ان کے لیے نیا پیشہ تھا یا میری لیے محنت آمیز تھا بالآخر ان کی طرف سے مجھے ہری جھنڈی مل گئی۔ شروع میں مجھے کچھ آڈر ملتے تھے لیکن کام مکمل ہونے کے بعد لوگ میرا فون نہیں اٹھاتے اور نہ معاوضہ دیتے ہیں۔
ویویک کمار نے کہا کہ آرٹسٹ کا تعلق اگر متوسط گھرانے سے ہو اس کو دگنی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف تو رنگ بہت مہنگے ہیں دوسرا اس کے قدردان بہت کم ہیں۔ اب میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی تخیل کردہ پینٹنگ کی مارکیٹنگ کرتا ہوں جس سے کچھ حد تک میرے حالات بہتر ہوئے ہیں۔
ویویک کمار نے بتایا کہ انسان کی سوچ ہر گھڑی نیا روپ لیتی ہے۔ شاعر اس کو شاعری میں پروتا اور موسیقار اس کو دھن میں لیکن مصور اس سوچ کو حقیقت کا رنگ دینے میں کئی دن اور ہفتے مگن رہتا ہے تب جاکر وہ ایک فن پارے کا روپ لیتی ہے۔
نوجوان مصور ویویک کمار نے آٹھویں جماعت سے اس کی ابتدا کی بعد انہوں نے شیف کا کام شروع کیا لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا قسمت ویویک کو واپس پینٹنگ کی طرف لے آئی۔
آرٹسٹ کی کام یابی کا راز
اگر میں بُرا آرٹ نہیں کرتا تو میں کبھی ایک اچھا آرٹسٹ بھی نہیں بن سکتا میری نظر میں آرٹ ایک سنجیدہ چیز ہے اور آرٹسٹ ایک غیرسنجیدہ چیز ہے کسی بھی انسان کا کام ہی اس کی پہچان ہے مصور اور موجد ہمیشہ گزر جانے کے بعد اپنے تخلیق کردہ نسخوں کی وجہ سے زندہ رہتا ہے۔ آرٹسٹ کا ہتھیار اس کا قلم اور کینوس جنگ کا میدان ہے جہاں پر وہ معاشرے میں ہونے والی مثبت اور منفی پہلوؤں کو باریک بینی سے پرکھتا ہے اور اپنی فکر سے اس کو بھر کردنیاکے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ایک صاحب علم اس کی خوبیاں اور خامیاں دیکھ کراپنی رائے قائم کرے کہ ایک مصور نے کس حد تک انصاف کیا ہے۔
پسندیدہ آرٹسٹ: میں نے کلر پینسل،آئل پینٹنگ، اسکیچ، ڈرائینگ اور اسٹنگ جیسے آرٹ ورک کاکام کیا ہے اس کی وجہ میرے پسندیدہ آرٹسٹ ہیں صحفہ اول میں صادقین اس کے بعد وین گو، سالواٹور دالی، بابلو پکاسو، جنوڈاری اور رونالڈو ڈی وینسی شامل ہیں۔ ہر آرٹسٹ ایک خاص دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہر فن کار کو وقت کے ساتھ خود کو بدلنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا کے دور میں خود کو اس قابل بنائے کہ کسی کا محتاج نہ ہو۔
آرٹسٹ کی مشکلات: یہاں پر کیلی گرافی، آئل پینٹنگ اور پینسل اسکیچ کا سامان لاہور یا کراچی سے منگوانا پڑتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں آرٹسٹ کا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا ہے۔ نہ ہی ایسا کام کرنے والے ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی اپنے فن میں استاد بن جائے تو وہ شہروں کا رخ کرلیتے ہیں۔ یہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں آرٹ کا کوئی شعبہ نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ضلعی سطح پر کوئی آرٹ اسٹوڈیو یا آرٹ گیلری کا اہتمام کرے تاکہ نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کیا جائے اور ان کے لیے خصوصی اسکالرشپ اور انٹرپنورشپ کا انتظام کیا جائے تاکہ اس صدیوں پرانے معدوم ہوتے اس ہنر میں ایک نئی روح پھونکے اور اس کو آسمان کی بلندی تک پہنچایا جائے۔
آرٹسٹ کی خاصیت
آرٹسٹ کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے جہاں وہ آزاد تخیل سے فن پارے کی نقوش کو کینوس پر بکھیرتا ہے۔ دنیا میں زندگی کا سبق، اتار چڑھاؤ، آوارہ گردی اور کتابیں کے اوراق پڑھنے سے ملتا ہے۔ اسی طرح ہر آرٹسٹ کے اپنے پیرامیٹر ہوتے ہیں جہاں وہ سمندر کو کوزے میں اور صحرا کو ریت کے ذرے میں بند کردیتا ہے۔
ویویک چوہان نے مزید بتایا کہ جب مجھے پنسل پکڑنا نہیں آتا تھا تب ایک الگ دنیا تھی۔ بچپن میں مجھے چیزوں کی نقل کرنا اچھا لگتا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک آرٹسٹ نقل کرنے کا محتاج نہیں لیکن کاپی کرنے سے سے ہی آپ کے فن میں نکھار آتا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی وقت نقل کرتا ہے۔ یہ مقولہ مشہور ہے کہ ایک چور اچھا آرٹسٹ نہیں ہوتا لیکن ایک آرٹسٹ اچھا چور ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح جب میری کاغذ، قلم اور رنگوں سے دوستی ہوئی تو تخلیقیِ کائنات کے عجیب خیال دل کو سکوں دینے لگے۔ اب مجھے کسی بھنور میں کھو جانے سے ڈر نہیں لگتا، کیوںکہ ڈر انسان کو محدود کردیتا ہے۔ آرٹسٹ کی زندگی میں کبھی بھی ٹھہراؤ نہیں ہونا چاہیے، کیوںکہ ٹھہراؤ انسان کو نامکمل اور ناامید کرنا شروع کردیتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وزیر دفاع خواجہ آصف کی عمران خان پر سخت تنقید، پاکستان دشمن رویہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان بھارت سے جنگ کے دوران بھی غیر ذمہ دارانہ اور غلط زبان استعمال کرتے رہے، ان کی شناخت پاکستان دشمن کی ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بیانات اور رویے کسی پاکستانی کے نہیں ہو سکتے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے انتہائی محتاط انداز میں بات کی، لیکن مجھے آزادی ہے کہ میں ان کی اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتا ہوں۔ اگر وہ اس قسم کی زبان استعمال کریں گے تو جواب بھی اسی لہجے میں دیا جائے گا۔
انہوں نے عمران خان کی بہن کے بھارتی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ وہ غیر سیاسی ہیں، مگر پھر بھی ایسے الفاظ بولے جو کوئی ذمے دار پاکستانی نہیں کہہ سکتا، کیا اس مٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں؟
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف جنگ کے دنوں میں پوری قوم متحد کھڑی تھی، ہمارے دوست اور بھائی ہمارے ساتھ تھے، لیکن ایک سیاسی جماعت نے اس وقت بھی وہ کردار ادا نہ کیا جو ایک پاکستانی کا ہونا چاہیے تھا۔ بانی پی ٹی آئی اس وقت بھی ہر معاملے میں غلط زبان استعمال کرتے رہے اور فوجی قیادت کو نشانہ بناتے رہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جن کی زبان سے شہید بھی محفوظ نہ ہوں، وہ کس بنیاد پر خود کو پاکستانی کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ لوگ جن کا کردار ایسا ہو، وہ ملک کے لیے نیک نیتی کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست ضرور کریں، احتجاج بھی کریں، لیکن پاکستان کی سرزمین، غیرت اور اہمیت کو نہ للکاریں۔ اختلاف کا حق سب کو ہے مگر دہشتگردوں کی حمایت اور ان کے بیانیے کی تکرار قوم کو کسی صورت قبول نہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے بھی ماضی میں فوج پر تنقید کی، لیکن اپنے شہیدوں کے حق میں کھڑے رہے۔ طالبان اور دہشتگردوں کی حمایت نہیں کی، نہ بھتہ دیا، نہ ان کے لیے نرم گوشہ رکھا۔