غزہ معاہدے میں حماس کو غیر مسلح کرنا اولین ترجیح نہیں، انقرہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
صہیونی حکومت، جو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے، اب حماس کو مورد الزام ٹھہرا کر اسے غیر مسلح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی حکومت، جو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے، اب حماس کو مورد الزام ٹھہرا کر اسے غیر مسلح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے تاکید کی کہ غزہ میں ایک معتبر فلسطینی سول انتظامیہ اور ایک تربیت یافتہ پولیس فورس قائم کی جانی چاہیے۔ فیدان نے آج ہفتے کے روز دوحہ میں ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ اور ناقابل عمل ہے۔
اس وقت یہ مسئلہ ترجیح نہیں رکھتا۔ غزہ کا معاہدہ تقریباً دو ماہ قبل قطر، مصر، ترکیہ اور امریکہ کی ثالثی سے طے پایا تھا، لیکن اس کے بعد سے صہیونی حکام نے غزہ کی سرحدی گزرگاہیں کھولنے اور بغیر کسی شرط کے انسانی امداد کے داخلے سے انکار کر رکھا ہے۔ ان غیر انسانی اقدامات کے ساتھ ساتھ، قابض فوج اپنی زیرِ کنٹرول علاقوں میں غزہ کے شہریوں کے گھروں کو مسلسل تباہ کر رہی ہے۔ ترکی نے کئی بار غزہ میں بین الاقوامی فورس میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، لیکن اسرائیل، حماس سے ترکی کی قربت کے باعث، انقرہ کی کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے امریکہ اور عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھانے میں ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی عمل میں حماس کو غیر مسلح کرنا کسی صورت ترجیح نہیں۔ آخر میں فیدان نے کہا کہ ترکی غزہ میں امن منصوبے کے جلد از جلد نفاذ اور وہاں جاری انسانی المیے کے خاتمے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے کے حماس کو رہی ہے
پڑھیں:
رفح میں نام نہاد کمانڈر یاسر ابو شباب نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں قتل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
رفح: غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح میں القوات الشعبیہ کے کمانڈر یاسر ابو شباب کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
تفصیلات کے مطبق کمانڈریاسر ابو شباب اوراس کے نائب غسان الداہنی پرنامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دونوں شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر اسپتال سورومنتقل کیا گیا جہاں پر ابو شباب زخموں کی تاب نہ لاتےہوئے دم توڑگیا۔
القوات الشعبیة کو غزہ میں حماس مخالف ایک مسلح گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یاسر ابو شباب کو اسرائیلی فوج کی جانب سے اسلحہ اور تحفظ فراہم کیا جا رہا تھا اور وہ صیہونی فوج کے ساتھ رابطے میں تھا۔
ابوشباب اسرائیل کے لئے کھلے عام کام کرنے اور اسرائیلی افواج کے زیر قبضہ علاقوں میںفلسطینیوں کی امداد کی چوری، بھتہ خوری، دھمکیاں دینے اورفلسطینی شہریوں کے قتل میں مرکزی کردار ادا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ 32 سالہ ابو شباب کو اصل میں حماس نے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں حراست میں لیا تھا اور وہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد جیل سے فرار ہو گیا تھا۔ 2024 کے اوائل تک، اس نے خود کو اسرائیلی قابض افواج کے ساتھ جوڑ لیا تھا اور مشرقی رفح میں ایک مسلح گروپ کی کمان سنبھال لی تھی، جسے بعد میں “مقبول افواج” کہا جاتا تھا۔
ابو شباب کا قتل غزہ میں اسرائیل کی قلیل مدتی پالیسی کی ناکامی، اور “حماس کا متبادل” منصوبے کے خاتمے کی عکاسی کرتا ہے۔
اسرائیل ہیوم اخبار نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ قابض وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے “غزہ کے اندر اسرائیلی فوجیوں کی حفاظت کے لیےالقوات الشعبیة گروپ کو ہتھیاروں سے مدد فراہم کرنے کا اعتراف کیا ہے ۔”
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل یاسر ابو شباب نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے غزہ کے لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ایک آزاد عوامی فورس تشکیل دی ہے۔ جب کہ اس گروپ کے اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی تعلقات، اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کے ٹھکانے کا پتہ لگانے اور غزہ میں مزاحمتی سرنگوں کی نشاندہی کرنے میں ان کی جاری مدد نے غزہ کے لوگوں کے سامنے اس گروپ کی اصل نوعیت کو توقع سے بہت پہلے ہی بے نقاب کر دیا تھا۔