بس بہت ہو گیا، پی ٹی آئی والوں کے ساتھ اب ریاست مخالف عناصر جیسا برتاؤ کرنا ہوگا، اختیار ولی
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
وزیر اعظم کے معاون اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ بس بہت ہو گیا اب پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ریاست مخالف عناصر کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم کے کوارڈینیٹر اختیار ولی خان نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور تحریک انصاف کا ایک بڑا نیکسز ہے، ٹی ٹی پی والے پہلے ان سے بھتہ لیتے تھے اور اب بھی بھتہ وصول کررہے ہیں۔
انہوں نے کاہ کہ کے پی کے میں منشیات فروشوں، دہشت گردوں اور سیاسی لوگوں کا نیکسز ہے۔ اختیار ولی خان نے الزام عائد کیا کہ کابینہ میں ایسے لوگ ہیں جن کے بھائیوں کی گاڑیاں منشیات کے مقدمات میں بند ہیں۔ میرے خیال میں اب ان کے ساتھ ریاست مخالف عناصر کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا بس بہت ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں گورننس نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، گزشتہ 13 سالوں سے کے پی کے میں تو وزارتیں بیچی جا رہی ہیں ، کے پی میں تعیناتیوں کے لیے پیسے لیے جاتے ہیں، کے پی میں منشیات کے مختلف کاروبار وں کے الگ الگ ریٹس ہیں۔
سہیل آفریدی پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم کے کوارڈینیٹر اختیار ولی خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بن ہی گئے ہیں تو کیا اس لیے بنے اپنی جماعت کے سارے کیسز ختم کریں، ان کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے قانون کے پیمانے الگ الگ ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں آپریشن بالکل ہونا چاہیے ، کے پی میں آپریشن کے علاوہ دوسرا آپشن کیا ہے ؟۔
کے پی میں گورنر راج سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گورنر راج کے لیے آئینی راستہ موجود ہے لیکن ہم بطور سیاسی ورکر اس کو پسند نہیں کرتے۔
اختیار ولی خان نے کہا کہ یہ گورننس نہیں ہے، ننھے کی دکان ہے ، یہ گزشتہ 13 سالوں سے صوبے کو ایسے ہی چلا رہے ہیں، میں خیبر پختونخوا حکومت کو چیلنج کرتا ہوں، کے پی حکومت بتا دے کہ گزشتہ 13 سالوں میں کوئی ایک نئی یونیورسٹی بنائی ہو، کوئی نیا اسکول ، کالج نیا بنایا ہو، سڑک ، پل بنایا ہو تو وہ ہی بتا دیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جرمنی میں طلبہ کا نئے فوجی قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن: جرمنی کے مختلف شہروں میں ہزاروں طلبہ نے کلاسز چھوڑ کر نئے فوجی خدمت کے قانون کے خلاف احتجاج کیا، اس قانون کے تحت 18 سال کے مردوں کو لازمی میڈیکل چیک اپ اور سوالنامہ مکمل کرنا ہوگا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق احتجاجی مہم School Strike Against Military Service کے تحت ہیمبرگ، بوخم، بیلیفلڈ، مینسٹر، کولون، ڈسلسڈورف اور اسٹٹ گارٹ سمیت 90 سے زیادہ شہروں میں مظاہرے کیے گئے، برلن میں 3,000 سے زائد طلبہ ہالیشیس ٹور میٹرو اسٹیشن کے قریب جمع ہوئے اور اورانیئن پلازہ تک مارچ کیا، مظاہرین نے بینرز اٹھائے جن پر نعرے لکھے تھے، لازمی فوجی خدمت نہیں، طلبہ جنگ اور اسلحے کے خلاف، ہمارا مستقبل ہمارا حق اور ہم خود فیصلہ کرتے ہیں ۔
ایک چھوٹا گروپ پارلیمنٹ کے باہر بھی مظاہرہ کر رہا تھا، جبکہ اندر قانون ساز بل پر بحث کر رہے تھے۔
بلڈسٹاگ نے بل کو 323 کے مقابلے میں 272 ووٹ سے منظور کر لیا اور اب یہ بل بُنڈسراٹ (جرمنی کی اپر ہاؤس) کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا، اگر منظور ہو گیا تو یہ یکم جنوری 2026 سے نافذ ہوگا۔
نئے قانون کا مقصد جرمن فوج بُنڈسویئر میں عملے کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ موجودہ فوج میں تقریباً 1,84,000 فعال فوجی ہیں جبکہ وزارت دفاع چاہتی ہے کہ 2035 تک تعداد 2,70,000 تک بڑھائی جائے، جس کے لیے ہر سال تقریباً 20,000 نئے فوجی شامل کرنا ضروری ہیں۔
نظام کے تحت یکم جنوری 2008 یا اس کے بعد پیدا ہونے والے تمام مردوں کو سوالنامہ مکمل کرنا اور لازمی میڈیکل معائنہ کروانا ہوگا جبکہ خواتین کے لیے حصہ لینا اختیاری ہے۔
فوج میں شامل ہونا ابھی بھی رضاکارانہ ہوگا، لیکن اگر مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوئی تو پارلیمنٹ مستقبل میں لازمی فوجی خدمت یا طلب پر مبنی خدمت نافذ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے، جرمنی نے 2011 میں لازمی فوجی خدمت ختم کر کے مکمل رضاکارانہ فوجی نظام اپنا لیا تھا۔