Express News:
2025-12-06@21:10:10 GMT

امید کی پٹڑی پرچلتا سفر

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

پاکستان ریلوے ایک قومی ادارہ ہے جو روزانہ لاکھوں مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مال برداری کے ذریعے صنعت و تجارت کو سہارا دیتا ہے۔ پچھلے آٹھ ماہ میں ریلوے میں کئی اصلاحات کی گئیں جن کا مقصد ادارے کو جدید خطوط پر استوارکرنا، عوام کو جدید بہترین سہولیات فراہم کرنا اور محکمہ میں مالی نقصان میں کمی لانا ہے۔

ریلوے وہ ادارہ جو کبھی پاکستان کی معاشی شہ رگ سمجھا جاتا تھا، برسوں سے زوال اور بے توجہی کا شکار رہا، مگر گزشتہ چند ماہ میں اس نظام کے وہ مناظر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جنھیں دیکھ کر امید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے دو مختلف مقامات لاہور اور کراچی پر کیے گئے خطابات اسی بدلتی سوچ اور نئے سفر کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔

جولائی میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر پاک بزنس ایکسپریس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم نے جس اعتماد سے کہا کہ’’ پاکستان ریلوے میں مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے‘‘ وہ محض رسمی جملہ نہیں تھا۔

اس ٹرین میں پہلی مرتبہ یورپی طرز کی سہولیات پاکستان کے عام مسافروں کے لیے متعارف کرائی گئی ہیں، جو اس تاثرکی نفی کرتا ہے کہ معیاری سہولیات صرف اشرافیہ کا حق ہیں۔

یہ قدم اس سمت میں پیش رفت ہے جہاں ریلوے دوبارہ عوام کا قابلِ اعتماد اور باوقار سفر بن سکے۔ اسی طرح نومبر میں کراچی کینٹ اسٹیشن کی اپ گریڈیشن اور شالیمار ایکسپریس کے نئے رخ سے آغاز کے موقع پر وزیراعظم نے ملک کے ریلوے نظام کو ڈیجیٹائزیشن، جدید سہولیات اور جدت سے ہم آہنگ کرنے کو ملکی معیشت کے استحکام سے جوڑا۔

ان کا یہ کہنا کہ پاکستان چند سال میں خطے کا ایک بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم ہوگا، ایک بڑے ویژن کا عکاس ہے۔ صوبوں کے ساتھ اشتراک اور شراکت داری بڑھانے کی بات بھی اسی ویژن کا حصہ ہے تاکہ قومی ترقی میں علاقائی ہم آہنگی مضبوط ہو۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی تقریر نے بھی یہی تاثر دیا کہ وفاق خصوصاً ریلوے کراچی کی ترقی کے لیے سنجیدہ ہے۔ کے سی آر جیسے اہم منصوبے کے لیے وفاقی تعاون کی درخواست یہ بتاتی ہے کہ صوبائی حکومتیں اس نئے سفر میں اپنے آپ کو شریک دیکھ رہی ہیں۔

وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے اپنی گفتگو میں ادارے کے اندر ہونے والی تبدیلیاں گنوائیں۔ آٹھ ماہ میں ریکارڈ ترقی، ADB کے تعاون سے کراچی تا روہڑی سیکشن کی بہتری کا آغاز، قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے رابطوں کی ابتدائی پیش رفت، تھرکول کی ریل کنیکٹیویٹی اور اسلام آباد، تہران استنبول ٹرین کا دوبارہ آغاز۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے مسافر اور فریٹ ٹرینوں کی آؤٹ سورسنگ، ریلوے کے اسپتالوں اور اسکولوں کی بہتری اور بریک ویگنوں و کنکریٹ سلیپر فیکٹریز کا جدید ماڈل میں تبدیل ہونا، یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ریلوے صرف ٹریکس اور انجنوں کا نام نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی اصلاح کا عمل ہے۔

البتہ یہ بھی اطمینان بخش ہے کہ اس تمام جدت کے باوجود ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔یہ تمام اقدامات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ریلوے اب محض ایک بوسیدہ محکمے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک ایسے نظام کی شکل اختیار کر رہا ہے جو پاکستان کے مستقبل کے معاشی ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ یہ کام ممکن ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس رفتار کو برقرار رکھا جائے، منصوبوں کو سیاسی تغیرات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے اور ریلوے کو واقعی وہ مقام دلوایا جائے جو ایک جدید ریاست میں اس کا حق ہے۔

ڈیجیٹائزیشن کے ضمن میں کیے گئے اقدامات جن میں آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کی ری اسٹرکچرنگ، ای آفس، آن لائن بکنگ، 56 پسنجر ٹرینیں رابطہ پر منتقل، ڈیجیٹل فریٹ آن لائن سسٹم، اے آئی پر مبنی سیکیورٹی مانیٹرنگ سسٹم اور شکایات کے نظام کی اپ گریڈیشن، راولپنڈی میں پاکستان کا پہلا سیف اینڈ اسمارٹ ریلوے اسٹیشن قائم جس میں 148 جدید سرویلنس کیمروں کی تنصیب ہو چکی ہے، لاہور،کراچی، راولپنڈی اور فیصل آباد اسٹیشنوں پر مفت وائی فائی کی سہولت مہیا کی گئی، مزید 48 ریلوے اسٹیشنز پر مفت وائی فائی کی بھی جلد فراہمی۔

155 اسٹیشنز کی سولرائزیشن مکمل۔ اس کے علاوہ اوپن آکشن سسٹم کے نفاذ سے محکمے کی سروسز میں بہتری اور آمدن میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ریفربشڈ اور نئی کوچز کی فراہمی کا عمل ٹرینوں میں جاری ہے۔ اب تک پاک بزنس ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس لاہور تا راولپنڈی چلنے والی 4 ریل کاروں سمیت لاہور۔ سیالکوٹ کے درمیان چلنے والی لاثانی ایکسپریس کے ریکس تبدیل کر دیے گئے ہیں، تاکہ عوام کا سفر مزید آرام دہ اور خوشگوار بنایا جا سکے۔

مال برداری کے شعبے کو فعال بنانے کے لیے نئے معاہدے اور نجی شعبے کے اشتراک سے ریلوے کی مال برداری سروسز کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جارہے ہیں۔

مال برداری کے نظام کو دوبارہ فعال کرنا صرف ریلوے کے لیے نہیں بلکہ ملک کی معیشت کے لیے بھی نئی زندگی ہے۔ جب ٹرینوں کے ذریعے صنعتوں کا سامان بروقت پہنچے گا تو ملک کی ترقی کا سفر بھی تیز ہو گا اور روڈ سے رش بھی کم ہو سکے گا۔

بدعنوانی کے خاتمے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے احتسابی نظام کو مضبوط بنایا گیا اور ویجیلنس ڈائریکٹوریٹ کو مکمل طور پر فعال کیا گیا ہے۔ تمام بڑے اسٹیشنز پر جدید سہولیات جیسے مفت وائی فائی، اسٹیشنوں کی صفائی، روشنیاں، بیٹھنے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ ویٹنگ ہال، سی آئی پی لاؤنچ، ایگزیکٹو واش روم، ایسکیلیٹر،ٹی وی ایم اور اے ٹی ایم مشینیں نصب کی گئی ہیں اور سیکیورٹی کے معاملات میں بھی نمایاں بہتری نظر آرہی ہے۔

ریلوے پولیس کے شعبہ میں بھی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ ریلویز پولیس ٹریننگ اسکول والٹن میں 468 اہلکاروں اور افسران بشمول 97 خواتین کی پاسنگ آؤٹ پریڈ تقریب میں وزیر ریلویز نے پاس آؤٹ ہونے والوں کو مبارکباد دی اور ہدایت کی کہ آپ اپنی ڈیوٹی پوری تندہی اور لگن سے سر انجام دیں، مصیبت زدہ مسافروں کے لیے مددگار بنیں اور حاصل کردہ تربیت کو عملی جامہ پہنا کر نا صرف محکمہ ریلوے بلکہ ملک کا نام روشن کریں۔

انھوں نے آئی جی ریلویز پولیس کی ریلوے پولیس میں نمایاں بہتری لانے پر ستائش کی۔ریلوے میں ہونے والی اصلاحات پر نظر ڈالی جائے تو یقیناً ریلوے میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ریلوے کے وہ مسافر جو گھنٹوں اسٹیشنوں یا ریزرویشنز آفسز پر لائنوں میں لگے رہتے تھے، ان کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے آن لائن بکنگ اور موبائل ایپلیکیشن میں مزید آسانیاں پیدا کیں تاکہ عوام کو لمبی قطاروں سے نجات ملے اور گھر بیٹھے اپنا سفر پلان کر کے ٹکٹس بک کر سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مال برداری ریلوے میں کے لیے

پڑھیں:

ٹریک کی خستہ حالی، ٹرین مسافروں کا 12 گھنٹے انتظار میں گزر جاتے ہیں

پاکستان ریلوے سے سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں کے 3 سے 12 گھنٹے اسیٹنشن پر اپنی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔

ایکسپریس نیوز کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ریلویز کی ریل گاڑی ہو یا آؤٹ سورس ہونے والی ٹرین، اس کے مسافروں کی تعداد میں ائے روز اضافہ تو ہو رہا ہے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سفری سہولیات پہنچانے کے لیے ریلوے انتظامیہ ریلوے اسٹیشن اور گاڑیوں کی اپ گریڈیشن  پر تو زور دے رہی ہے۔

ان ٹرینوں کے شیڈول میں تاخیر اور بروقت روانگی کیلیے انتظامیہ نے اقدامات کیے تاہم سب رائیگاں گئے ہیں، ان کے تمام تر اقدامات کے باوجود تاخیر در تاخیر ہو رہی ہے۔

ریلوے ٹریک کی خستہ حالی کے باعث ٹرینوں کے تمام ڈرائیورز کو  روانگی سے قبل ریلوے انجینیئرز کی طرف سے اسپیڈ کم سے  کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں اور ٹرینیں اپنی اصل رفتار 100 سے 110  کے بجائے 50 سے 55 اور کہیں 60 سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان سفر کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسافروں کے ریلوے اسٹیشن بروقت پہنچنے کے باوجود ریلوے اسٹیشن پر گاڑیوں کے  انتظار میں  کئی کئی گھنٹے بلا وجہ بیٹھنا پڑتا ہے۔

پاکستان ریلوے کے پاس کراچی سے پشاور تک 1872 کلومیٹر سے زائد کا ریلوے ٹریک ہے، جس میں سے  ساڑھے 800 سے زائد ریلوے ٹریک  صرف کراچی، سکھر اور حیدرآباد ڈویژن میں ہے، ٹریک کی خستہ حالی کی وجہ سے یہاں پر گاڑیوں کی اوسط رفتار بھی 55 سے 60 کے درمیان رہتی ہے۔

مجموعی طور پر کراچی سکھر حیدراباد یعنی کہ سندھ میں سفر کرنے والے مسافروں کو 10  گھنٹے سے لے کر 12 اور بعض اوقات 13 سے 14 گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ لاہور، ملتان، پشاور اور راولپنڈی کے مسافروں کو تین سے پانچ گھنٹے اور بعض اوقات پانچ سے چھ گھنٹے بھی انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔

انجینئر کی طرف سے عائد حد رفتار کی پابندی کی  وجہ سے  ڈرائیور مقررہ اسپیڈ سے زیادہ  تیز  گاڑی نہیں چلا سکتے، یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کی آمد و رفت میں تاخیر  ہوتی ہے۔

مسافر ٹرینوں کی تاخیر کے باعث مال بردار ٹرینوں کو بھی سامان لے جانے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ مال بردار ریل گاڑیاں  بھی کئی کئی گھنٹوں کی تاخیر سے منزل مقصود پر پہنچ رہی ہیں۔

عامر طفیل، رضا گیلانی، شہباز پراچہ اور آفاق احمد مسافر ہیں جنہوں نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیملیز کے ہمراہ سفر کرنا ہوتا ہے اور ٹرین سے بہتر سفر کسی اور ٹرانسپورٹ میں ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کاہ کہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ مہنگا ہے ٹرین کا سفر سستے کے ساتھ آرام دہ بھی ہے مگر جو ریلوے اسٹیشن آکر گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا ہے وہ کسی اذیت سے کم نہیں۔

مسافروں نے کہا کہ ریلوے انتظامیہ نے ویٹنگ ایریا اچھے بنا دیے، ٹرینیں بھی اچھی اور سہولیات بہتر ہوگئی ہیں مگر کچھ رقم ٹریک پر بھی لگا دیں تو بروقت پہنچنے میں آسانی ہوگی کیونکہ سفر کی سب سے بڑی اذیت تاخیر ہے۔

ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سسٹم کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ٹرینوں کی آمد و رفت کو بروقت بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں، مقامی اور  عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے کراچی ڈویژن میں جلد سے جلد ٹریک کی بحالی کا کام شروع ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹریک کی خستہ حالی، ٹرین مسافروں کا 12 گھنٹے انتظار میں گزر جاتے ہیں
  • فرانسیسی بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے ایپسوس کا پاکستانی معیشت پر سروے
  • ریلوے کو بچانے کے لیے…
  • ایران اور پاکستان کے درمیان اسلام آباد، تہران، استنبول ٹرین سروس دوبارہ شروع کرنے  پر اتفاق
  • پبی: اکرام آباد کے قریب ٹرین کی ٹکر سے نوجوان جاں بحق
  • پاکستان اور ایران کے درمیان مال بردار آئی ٹی آئی ٹرین بحال کرنے پر اتفاق
  • پاکستان اور ایران کا ریلوے و تجارتی روابط مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • کراچی ایکسپو سینٹر میں 23ویں فارما ایشیا نمائش 2025 کی کامیاب تکمیل 
  • ہمارے پیسوں سے عیاشیاں ہو رہی ہیں، حافظ نعیم