Express News:
2025-12-05@22:28:12 GMT

ریلوے کو بچانے کے لیے…

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک کارنامہ محکمہ ریلوے کا قیام تھا۔ ریل نے ہندوستان کے شہریوں کو سفرکا محفوظ اور سستا ذریعہ دیا تھا۔ انگریز حکومت نے ایک طرف چمن اور اس کے ساتھ دوسری طرف پشاور سے لے کر کلکتہ تک ریل چلا دی تھی۔ ریلوے میں ہزاروں افسران اور لاکھوں مزدور کام کرتے تھے۔

انگریز حکومت کے دور میں ریلوے مزدوروں کے حالات کار انتہائی خراب تھے۔ جب ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے ہندوستان کے مزدوروں کو ٹریڈ یونین میں منظم کرنا شروع کیا تو ریلوے میں بھی مزدور یونین قائم کی گئی۔ وی وی گری ریلوے یونین کے پہلے صدر اور مرزا ابراہیم پہلے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے فعال کارکن تھے اور وہ 70ء کی دہائی میں بھارت کے صدر رہے۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مرزا ابراہیم نے ریلوے یونین کی قیادت سنبھالی۔ مرزا ابراہیم کی زندگی کا بیشتر حصہ مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزرا۔ منظور احمد رضی بنیادی طور پر مزدور تحریک کے فعال کارکن ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بابائے ریلوے مرزا ابراہیم کے سچے پیروکار رہے ہیں۔ منظور رضی کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ منظورکے دادا مشرقی پنجاب، ضلع حصارکے ایک قصبہ کامیانہ سے ملازمت کرنے کے لیے کراچی آگئے تھے۔ ان کے دادا بحری جہاز میں ملازم تھے۔

منظور رضی کے والد 1941میں ریلوے میں ملازم ہوئے۔ انھیں کراچی سٹی اسٹیشن کے قریب ریلوے کالونی میں ایک کوارٹر مل گیا۔ منظور رضی 1945 میں ریلوے کالونی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سندھ مدرستہ الاسلام سے میٹرک کیا اور ایم ایس کالج میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیا مگر معاشی مشکلات کی بناء پر تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ ان کے والد نے 1964میں انھیں ریلوے میں ملازمت دلوا دی۔ منظور صاحب ہمیشہ کے انقلابی ہیں، وہ سوشلزم کے نظریے سے متاثر ہوئے۔ انھیں مظلوم طبقات کے حالاتِ زارکی تبدیلی کے لیے مزدور یونین میں منظم ہو کر جدوجہد کا راستہ نظر آیا۔ منظور رضی اپنی ملازمت کے دو سال بعد ہی ویسٹ پاکستان ورکرز یونین میں شامل ہوئے۔

بعد میں اس تنظیم کے آرگنائزنگ سیکریٹری منتخب ہوئے، وہ 1972 میں اس لیبر یونین کے آرگنائزر بنے۔ 1975میں مرزا ابراہیم کی زیرِ قیادت کام کرنے والی ریلوے ورکرز یونین میں فعال ہوئے، وہ 1983 میں ریلوے ورکرز یونین اوپن لائن کے صدر منتخب ہوئے۔ 1990 میں انھیں ریلوے ورکرز یونین کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ منظور رضی اور ان کے ساتھیوں نے 1998 میں انھیں ریلوے ورکرز فیڈریشن کا چیئرمین بنایا۔ منظور رضی پیپلز پارٹی کے منشور سے متاثر ہوئے اور پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایوب خان کی دس سالہ آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوگئی تھی۔ ملک بھر میں مظاہرے اور ہڑتالیں ہو رہی تھیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا بھاشانی کی اپیل پر مزدور بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔

اکتوبر 1967 میں ریلوے میں کل پاکستان بنیادوں پر ہڑتال ہوگئی تھی۔ مزدور منظور رضی نے مزدوروں کے جلسے میں نظم پڑھی۔ اس نظم نے ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ بقول منظور رضی جلسے میں سرکاری سیکیورٹی اہلکار آگئے۔ منظور رضی اور13 کارکن گرفتار ہوئے اور ایک ماہ کی قید ہوگئی۔ منظور رضی اپنی یاد داشتوں پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت کراچی سینٹرل جیل سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جیل نوجوان قیدیوں کی تعلیم گاہ بن گئی۔ منظور رضی جیل سے تو رہا ہوئے لیکن ان کی ملازمت ختم ہوگئی۔ 1972 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو انھیں ریلوے میں مستقل کردیا گیا۔ منظور رضی پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما معراج محمد خان کے گروپ میں شامل ہوگئے۔

بھٹو حکومت نے مزدوروں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ منظور رضی معراج محمد خان کے ساتھ گرفتار ہوئے، انھیں ڈی پی آرکے تحت گرفتارکیا گیا۔ منظور رضی 1973-74 میں مختلف جیلوں میں بند رہے۔ ممتاز بھٹو کو ریلوے کا وزیر بنادیا گیا۔ مزدور رہنماؤں کی جدوجہد اور اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے دباؤ میں حکومت کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ ممتاز بھٹو نے مزدوروں کے وفد سے ملاقات کی، اس وفد میں منظور رضی کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ اس ملاقات کے نتیجے میں منظور رضی کو جیل سے رہا کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں رضی اور مزدور یونین کے دیگر ساتھی مسلسل زیرِ عتاب رہے۔

ضیاء الحق کے دور میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ ریلوے انتظامیہ نے منظور رضی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مسلسل تادیبی کارروائیاں کیں۔ آزادئ صحافت کے لیے معروف رہنما منہاج برنا کی قیادت میں چلنے والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں منظور رضی کو انتظامیہ نے مسلسل انتقام کا نشانہ بنایا۔ ان کا تبادلہ کراچی سے دور کیا گیا اور جبری طور پر ریٹائرکر دیا گیا۔ ایک دن ہیوی ٹرک میں سوار جوان ان کے گھر آئے۔ انھیں اور ان کے گھر والوں کو سرکاری مکان سے بے دخل کردیا گیا۔

وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچانک سڑک پر آگئے۔ رضی نے پہلے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے تحریک چلائی اور اب جب پرویز مشرف کے دور میں ریلوے کی نجکاری کا منصوبہ شروع ہوا تو انھوں نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی۔

ان کا بیانیہ ہے کہ ریلوے میں خسارے کی ذمے داری بدعنوان بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے این ایل سی کی کارگو سروس شروع ہونے سے ریلوے کا خسارہ بڑھتا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کو مزدور یونین کے حوالے کیا جاتا تو یہ سروس آج بھی شہریوں کو محفوظ سفر کی سہولت فراہم کر رہی ہوتی۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی ڈویژن ریلوے انسٹی ٹیوٹ ریلوے افسروں اور مزدوروں کے لیے شادی بیاہ اور تفریح کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں انسٹی ٹیوٹ ایک نجی پارٹی کو دے دیا گیا۔

یہ معاہدہ 2020 میں ختم ہوگیا مگر یہ انسٹی ٹیوٹ جو ایک کلب ہے اب تک ریلوے کے حوالے نہیں کیا گیا۔ یہ ریلوے انسٹی ٹیوٹ ہر صورت ریلوے کے ملازمین کو واپس ملنا چاہیے۔ وہ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کو سندھ حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا اور اس سوسائٹی کا دفتر ریلوے اسٹیشن سے دورکلفٹن میں چلا گیا۔ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی فعال نہیں ہے جب کہ باقی ملک میں ریلوے کی ہاؤسنگ سوسائٹیزکام کر رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہ سوسائٹی ریلوے کے ملازمین کو واپس مل جائے۔

منظور رضی اپنے تجربہ کی بنیاد پرکہتے ہیں کہ مغل پورہ ورکشاپ خطے کی بہترین ورکشاپ تھی۔ اس ورکشاپ کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا۔ ورکشاپ کو جدید مشینری کے ساتھ دوبارہ فعال کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پرائیوٹ سیکٹرکو ریل گاڑیوں کا ٹھیکہ دینے سے بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے۔ اس میں پیسہ بھی ضایع ہوتا ہے اور افرادی قوت سے کام بھی نہیں ہوتا اور پھر تجربے سے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ زیادہ تر ٹھیکے دار عرصہ دراز تک یہ گاڑیاں نہیں چلاسکے اور ان پر کروڑوں روپے کا قرضہ ہوا جن میں سے بہت سے ٹھیکہ داروں نے اس قرض کی ادائیگی نہیں کی۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کی مرمت ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسری ریلوے لائن بھی فوری طور پر تعمیر ہونی چاہیے۔ نئے انجن خریدنے چاہئیں اور ریلوے کے افسروں اور نوجوانوں کو نئی ٹیکنالوجی کی باقاعدہ تربیت ملنی چاہیے، اگر ریاست ریلوے کی بحالی کو اپنے اولین ایجنڈے میں شامل کرے اور ایماندار افسران جن کا تعلق ریلوے سے ہو اور کارکنوں کے نمایندوں کو ریلوے کا نظام چلانے کا موقع دیا جائے تو ریلوے پھر بحال ہوسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مرزا ابراہیم ریلوے ورکرز انھیں ریلوے ورکرز یونین مزدور یونین کہتے ہیں کہ مزدوروں کے انسٹی ٹیوٹ کے دور میں یونین میں ریلوے میں میں ریلوے وہ یہ بھی یونین کے ریلوے کے ریلوے کا کے ساتھ دیا گیا رضی اور کیا گیا کے لیے اور ان

پڑھیں:

پبی: اکرام آباد کے قریب ٹرین کی ٹکر سے نوجوان جاں بحق

پبی:

نوشہری کی تحصیل پبی میں اکرام آباد کے قریب ٹرین کی ٹکر سے نوجوان موقع پر جاں بحق ہو گیا۔

حادثہ اوپن ریلوے ٹریک پر پیش آیا، ریسکیو ٹیموں نے لاش کو اسپتال منتقل کر دیا۔ متاثرہ نوجوان حمزہ نوشہرہ کے اولس کیفے میں بطور ویٹر کام کرتا تھا۔

حادثے کے بعد علاقے کے مکینوں نے ریلوے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ حفاظتی اقدامات بہتر بنائے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پبی: اکرام آباد کے قریب ٹرین کی ٹکر سے نوجوان جاں بحق
  • اسرائیل کو یورو ویژن 2026 ء میں شرکت کی اجازت مل گئی
  • سکھر،پریم یونین کے مرکزی صدر شیخ محمد انور مزدور کنونشن سے خطاب کر رہے ہیں
  • امریکی فضائیہ کا ایف16 تباہ‘ پائلٹ جان بچانے میں کامیاب
  • سکھرپریم یونین کی ریلی
  • یورپی یونین میٹا کے خلاف انکوائری کی تیاری کیوں کررہی ہے؟
  • یورپی یونین کے منصوبے پر بیلجیم کے سخت تحفظات
  • عروہ حنین آکسفورڈ یونین کی پہلی فلسطینی صدر منتخب
  • فراڈ تحقیقات ،یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سابق سربراہ زیر حراست