Jasarat News:
2025-12-05@23:30:22 GMT

معصوم بچے ابراہیم کی المناک موت

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251206-03-4
شہر کراچی کے باسی اتنے مجبور بے بس اور بے کس ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی مظلومیت کا نوحہ بھی کسی کے سامنے بیان نہیں کر سکتے۔ شہر میں بدامنی کا راج ہے۔ اسٹریٹ کرائمز موبائل فون اور قیمتی اشیا کی چھینا جھپٹی کا زور ہے، کراچی شہر ایسا مظلوم شہر ہے جہاں کوئی قانون نہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف نظام چل رہا ہے، کوئی اپنی غلطی اور ذمے داری کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کراچی کے شہری پہلے بنیادی سہولتوں سے محرومی پر نوحہ کناں تھے کہ اب اپنے معصوم بچوں کی اموات پر ماتم کر رہے ہیں۔ پہلے ہی خونیں ٹینکر اور ڈمپرمافیا کراچی کے بچوں کو اپنے ٹائروں تلے کچل کر انہیں موت کی وادی میں دھکیل رہے تھے جس پر پورا شہر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ ایک غم المیہ اور سانحہ نہیں گزرتا کہ دوسرا سانحہ رونما ہوجاتا ہے اور ایسا محسو س ہورہاہے کہ کراچی کا کوئی والی وارث ہی نہیں اور کراچی کے شہریوں کو ظالم حکمرانوں نے موت کے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں گلشن اقبال کے علاقے نیپا چورنگی کے قریب پیش آیا۔ تین سالہ ابراہیم ولد نبیل جو اپنے والدین کے ہمراہ شاپنگ مال میں خریداری کے لیے آیا تھا۔ شاپنگ مال سے باہر نکلتے ہوئے وہ کھلے مین ہول میں گر گیا۔ اتوار کی رات کو گٹر میں گرنے والے معصوم بچے کو پندرہ گھنٹے تک تلاش کیا جاتا رہا۔ اس دوران شہریوں کی جانب سے انتظامیہ کی غفلت اور ریسکیو کے عمل میں تاخیر پر شدیداحتجاج بھی کیا گیا۔ ریسیکو عملے نے بچے کی تلاش میں بہت کوشش کی تاہم مناسب مشینری نہ ہونے کے باعث آپریشن روکنا پڑا۔ ریسیکو حکام کے مطابق ان کے پاس ضروری مشینری دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی جانب سے کوئی معاونت فراہم کی گئی۔ جس پر علاقہ مکینوں نے اپنی مددآپ کے تحت ہیوی مشینری منگوائی اور کھدائی کاکام شروع ہوا۔

سانحہ نیپا نے ایک خاندان کی زندگی اجاڑ دی۔ یہ شہری حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہونے والا سفاکانہ قتل ہے۔ سندھ حکومت جو گزشتہ 18سال سے اس صوبے پر حکمران ہے اور اب تک 30 ہزار ارب روپے کے وسائل اسے فراہم کیے گئے لیکن اتنے وسائل ہونے کے باوجود کراچی کا ایک معصوم بچہ اس بے دردری کے ساتھ موت کے منہ میں چلا گیا ہے۔ بلاشبہ کراچی شہر موت کا کنواں بن چکا ہے، یہاں کے شہری ڈمپر کے نیچے کچلے جاتے ہیں، نالوں اور کھلے مین ہولز میں گر کر مرنا اہل کراچی کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے تو اس واقعہ پر انوکھی منطق اختیار کرتے ہوئے کہا کہ نیپا کے قریب کمسن بچے کے گرنے کا مقام سیوریج لائن نہیں بلکہ برساتی نالہ تھا۔ ہم نے گزشتہ ایک سال میں 88 ہزار مین ہول کور لگائے ہیں۔ اس علاقے کا ٹائون چیئرمین جماعت اسلامی سے تعلق رکھتا ہے اگر وہ ذمے داری اس جماعت پر ڈالیں تو لوگ ناراض ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے سانحہ نیپا چورنگی، معصوم بچے کی المناک موت حکومتی بے حسی، کے ایم سی اور واٹر کارپوریشن کی نااہلی کے خلاف جائے حادثے پر منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونی ورسٹی روڈ کے ایم سی کے ذمے، گٹر کے ڈھکن فراہم کرنا واٹر کارپوریشن کی ذمے داری ہے۔ قابض میئر کراچی کو معمولی سی بھی غیرت اور شرم ہے تو وہ فوری استعفا دیں انہیں سانحہ نیپا کی ذمے داری قبول کرنا چاہیے تھی لیکن انہوں نے فوراً جماعت اسلامی کے ٹائون چیئرمین کو سانحہ کا ذمے دار قرار دے دیا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ اور وزیربلدیات سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ گٹر میں کوئی بچہ گرا تو ایف آئی آر واٹر بورڈ اور ایکسین کے خلاف درج کرائی جائے گی۔

بے شک آج کراچی غم زدہ ہے اور لہولہان ہے۔ معصوم بچے اور شہری حکومتی غفلت اور بے حسی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہر طرف ایک تباہی کا منظر نظر آتا ہے۔ کراچی کو وڈیرہ شاہی جاگیردارانہ ذہنیت کے مطابق چلایا جارہا ہے۔ میئر کراچی نے ایک یوسی کو صرف 25 ڈھکن دیے جبکہ ایک یوسی کو سیکڑوں ڈھکن کی ضرورت ہے۔ سانحہ نیپا حکومتی بے حسی اور کے ایم سی، واٹر کارپوریشن کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ مرتضیٰ وہاب 106 سڑکوں کے میئر ہیں لیکن کراچی یونیورسٹی سڑک پر ہونے والے واقعے کو وہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ انتظامیہ کی غفلت سے ایک ماں کی گود اُجڑ گئی ہے۔ ہنستا کھیلتا گھرانہ ماتم کدہ بن گیا ہے۔ ظالموں نے ایک خاندان کی زندگی اجاڑ دی ہے۔ اس طرح کے حادثات حکمرانوں کی بے حسی کا عملی نمونہ ہیں۔ کراچی شہر میں جگہ جگہ گڑھے ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، مسلسل حادثات ہورہے ہیں لیکن بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ سانحہ شہر میں برسوں سے جاری بدانتظامی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ سندھ حکومت اور میئر؛ کراچی کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ اس طرح کھلے مین ہولز میں معصوم بچوں کی ہلاکتیں کراچی کے معصوم بچوں کے لیے مستقل خطرہ کا باعث بن گئی ہیں اور یہ سانحہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے شہری نظام حکومت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور تباہ حال نظام فوری اصلاحات کا متقاضی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین بھی اپنے بچوں کا خیال رکھیں اور اس طرح کے المناک حادثات سے بچائو کے لیے ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اختیا ر کی جائیں تاکہ آئندہ اس طرح کا المناک اور دلخراش واقعہ رونما نہ ہوسکے اور کسی ماں کی گود نہ اجڑ چکے۔ حکومت شہر بھر میں تمام خطرناک مقامات کی ہنگامی بنیادوں پر مرمت کرے اور تمام کھلے مین ہولز پر کور رکھے جائیں۔ حکومت اس دلخراش سانحہ کی جامع تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے اور واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ لواحقین کی فوری طور پر مالی امداد بھی کی جائے۔

قاسم جمال سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سانحہ نیپا معصوم بچے کھلے مین کراچی کے کے شہری ہے اور کے لیے

پڑھیں:

بے حسی و نااہلی ننھے ابراہیم کی موت کی ذمے دار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251206-03-7
سیاسی رسہ کشی، عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے والے مناظر، ذہن کو تسلیم نہ ہونے والے اقدامات، کو دیکھ دیکھ کر ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہوگیا ہے لگتا ہے کہ دماغ خراب ہوجائیں گے یا ہوچکے ہیں۔ ایک خاتون جنہیں میں بھابھی کہونگا چونکہ وہ میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی کی بیگم ہیں وہ چند روز قبل پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت پی ٹی آئی کے منفی پروپیگنڈہ کرنے والے ’’ڈھنڈورچیوں‘‘ کے ہاتھ لگ گئیں، وہ پی ٹی آئی کے کارکن ٹرمپ کے آنے پر مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے اڈیالا جیل کے باہر جمع ہوگئے تھے کہ اب ان کا لیڈر باہر آئے گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا جس کے بعد زلفی بخاری، اور پی ٹی آئی کے بیرون ملک بیٹھے بھگوڑوں کے تمام تر پروپیگنڈے ناکام ہوگئے تو اب پی ٹی آئی کے وہ بھگوڑے عناصر نے اپنا منہ گند میں ڈال دیا اور اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے بھارتی چینل، کا سہارہ لیا اور وہاں ہماری بھابھی سے انٹرویو کرادیا اور جس لیڈر کی رہائی کے پہلے بھی کوئی امید نہ تھی اس کی مزید امیدوں پر پانی پھر گیا۔ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینا کوئی بری بات نہیں مگر بھارتی میڈیا سبحان اللہ وہ تو خود اپنے ملکی معاملات پر خبروں پر دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے، مزید یہ کہ بھارتی میڈیا پر بیٹھ کر قتل کی دھمکیاں، عسکری قیادت کے خلاف نہ زیباء الفاظ، یہ کون سی نام نہاد سیاسی تحریک کا حصہ ہے؟؟ عوام کے دماغوں کو زنگ لگ گیا ہے یہ سوچ کر کہ ہماری بھابھی محترمہ نورین خان نیازی کی ملاقات اڈیالا جیل کے باسی سے کیوں کرائی گئی جن کے لیے وہ داد رسی لیکر بھارتی میڈیا کو پہنچ گئیں، ان کے اور سلائی مشین فیم علیمہ خان کے اس انٹرویو کا اہتمام لندن میں بیٹھے ایک بھگوڑے نے کیا تھا۔ یہ خبر عوام کے لیے یقینا پریشان کن ہے کہ پاکستان کے متعلق اتنا اول فول بکنے کے بعد وزیر اعلیٰ سرحد کو نظر انداز کرتے ہوئے نورین نیازی سے کیوں کرائی گئی؟؟ ہندوستانی میڈیا کا معاملہ لوگوں کو بھول گیا جب کراچی سے سندھ حکومت، سندھ میونسپلٹی کی بے حسی کی خبر آئی کہ عروس البلاد کراچی جہاں ایک دہائی سے بھٹو کے جانثاروں کی حکومت ہے، سائیں مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلیٰ بن کر ہیٹ ٹرک کر چکے ہیں۔ یہاں ایک بچہ شہر کے مرکزی علاقے میں گٹر میں گر کر جان گنوا دیتا ہے، ماں باپ دادا دادی مدد کے لیے چیختے چلاتے ہیں، سرکاری اداروں کو فون کرتے ہیں کوئی مدد کو نہیں آتا۔ میڈیا کے شور مچانے پر ’’بھٹو کے زندہ‘‘ ہونے کی گواہی دینے والے انگڑائی لے کرجاگتے ہیں۔ سرکاری مشینری حرکت میں آتی ہے لیکن نتیجہ صفر۔ ایسے میں ایک تنویر نامی پتلا دبلا خاکروب، غلیظ سسٹم کی طرح لتھڑے غلیظ گٹر میں اُترتا ہے اور معصوم ابراہیم کی لاش ماں باپ کے حوالے کردیتا ہے۔ اب آپ بتائیں یہ تنویر کراچی کا ہیرو کہلانے کا مستحق ہے یا مرتضیٰ وہاب؟؟

یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ وہ ادارے جو حکومت کی جانب سے ریسکو کے ذمے دار ہیں ان کی خفت مٹانے کے لیے کچرا اٹھانے والے تنویر جو گڑ میں گھس کر پندرہ گھنٹے بعد گٹر میں گرجانے والے تین سالہ ابراہیم کی لاش نکال کرلایا اسے موقع سے پہلے ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر اہل محلہ نے شور مچایا تو اس کے انعام دینے کی بات کی گئی، دوسری جانب ذمے دارران اپنے گرم بستروں کو مزید گرم کررہے تھے اہل محلہ کے پاس، ان کے پاس کو ہی ذریعہ نہیں تھا کہ گٹر سے لاش نکالی جاسکے، ایک مشین ملی جس میں ڈیزل بھی محلے کے لوگوں نے پندرہ ہزار روپیہ کا چندہ کرکے ڈلوایا، رات دس بچے ابراہیم گٹر میں گرا ور دوسرے روز دصبح دس بجے کے بعد اسے ننھا بچہ تنویر ابراہیم کی لاش لایا، خیراتی امدادی ادارے ایدھی و یگر وہاں موجود تھے مگر مشینیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکے۔ سندھ میں بھٹو ابھی تک زندہ ہے مگر اس صوبے کے بے شمار بچے بھٹو کو زندہ ماننے والے سیاسی لوگوں کی غیر ذمے داری کی وجہ سے لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں۔ کراچی میں رواں سال مین ہول اور نالوں میں گرکر جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 23 ہوگئی ہے۔ ایدھی حکام کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مین ہول میں گر کر جان سے جانے والوں میں 3 سال کے بچوں سے لے کر 48 سال تک کے افراد شامل ہیں، حادثات سب سے زیادہ گارڈن میں پیش آئے جہاں 3 افراد مین ہول میں گر کر جاں بحق ہوئے۔ پاکستان کے قانون Section 319 PPC 322 کے تحت ذمے داران کو پانچ سال قید بامشقت بنتی ہے 2023ء میں بھی ان ہی قابل لوگوں کی حکومت تھی جس کے صرف 8 ماہ کے اعداد کے مطابق، کراچی میں ’’68 افراد‘‘ کھلے مین ہول کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جن میں بچوں سمیت مرد و خواتین شامل تھے۔ 2025ء میں ابراہیم کے علاوہ پانچ بچے گٹر میں گر چکے ہیں، نشے کے عادی گٹر کے ڈھکنے فروخت کرکے چرس، افیم سے لطف اندوز ہوتے ہیں، غفلت ایک معمولی نام نظر آتا ہے غفلت پر بھی کڑی سزائین ہیں مگر اشرافیہ بڑی سزاؤں سے اپنے جرم کو غفلت کے لبادے میں اوڑھ کر بچ جاتی ہے حالیہ تاریخوں میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ قتل ہوئے، اور غفلت کا نام لیکر انہیں رہا کردیا گیا اگر جائزہ لیا جائے کہ غفلت کے ذمے دار کس سزا کے مستحق ہیں؟ تو وہ قتل ِ غفلت (Section 319 – 322 PPC) کے تحت سزا کا مستحق ہے اگر کسی کی غفلت (Negligence) سے کسی کی موت ہو جائے تو یہ قتل ِ خطا کہلاتا ہے۔ مین ہول کا ڈھکن نہ لگانا ایک واضح غفلت ہے۔ جس کی سزا 5 سال تک قید، جرمانہ یا دونوں نیز section 322 کے تحت دیت بھی لاگو ہوتی ہے غفلت و لاپروائی سے انسانی جان کو خطرے میں ڈالنا (Section 284 PPC) جس کے مطابق اگر کوئی ادارہ یا افسر ایسی جگہ پر خطرہ چھوڑ دے جہاں عوام آتے جاتے ہوں، جیسے کھلا مین ہول تو یہ criminal negligence کہلاتا ہے۔ اس کی سزا 6 ما ہ قید، سرکاری عہدے کا غلط استعمال / فرائض میں غفلت (Section 166 \ 217 \ 218 PPC) اگر میونسپل ادارے، کے ایم سی، واٹر بورڈ یا کوئی افسر اپنی ذمے داری پوری نہ کرے (مین ہول کور نہ لگائے، شکایت کے بعد ایکشن نہ لے)، تو یہ جرم بنتا ہے۔ اس کی سزا کم از کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال مع ملازمت سے معطلی، اگر ابراہیم کی موت پر ہمارا قانونی نظام مزید غفلت سے کام نہ لے تو کون کون ذمے دار ٹھیر سکتا ہے۔کراچی میں مین ہول زیادہ تر کے ایم سی کی ذمے داری ہوتے ہیں۔

Karachi Water Sewerage Corporation (KWSC) اگر سیوریج یا واٹر لائن کا مین ہول ہو تو واٹر بورڈ کو ملزم نامزد کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگرماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو کیا 3 سالہ ابراہیم کے موت پرکسی کو واقعی سزا ہوجائے گی؟؟ بھٹو زندہ والے مرتضیٰ وہاب میئر موقع پر آئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں ننھے بچے ابراہیم کی لاش اٹھائی ہے ان کی آنکھیں آنسوں سے بھری تھیں، میئر نے اسے سیاسی شعبدہ بازی کہہ کر انکوائری کا حکم دے دیا، اب معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگا اگر پہلے کبھی کسی کو سزا ملی ہو تو ابھی بھی مل جائے گی، ماں کی گود اجڑنا مئیر کو سیاسی شعبدہ بازی لگتی ہے مرتضیٰ وہاب مئیر کراچی کے والد مرحوم وہاب صدیقی اور میں نے این ایس ایف میں ساتھ بڑے دن گزارے ہیں اگر آج وہ حیات ہوتے تو شاید مئیر کراچی پی پی پی میں بھی نہ ہوتے۔ کراچی اور ہر شہر کی درد دل رکھنے والوں کی آنکھیں نم ہیں کلیم چغتائی کے بقول

یہ سانحہ ہے بڑا دل خراش ہے ہم وطنوں
ہر آنکھ اسے سوچ کر ہی پرنم ہے۔

امیر محمد خان سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • بے حسی و نااہلی ننھے ابراہیم کی موت کی ذمے دار
  • کراچی کا کھلا مین ہول — یا نظام کی کھلی قبر؟
  • میئر کراچی نے نیپا چورنگی واقعے پر معافی مانگ لی، ناکامی کا بھی اعتراف
  • میں بچے کے گھر والوں سے معافی مانگتا ہوں، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب
  • گٹر میں گر کر بچے کی ہلاکت: اسسٹنٹ کمشنر گلشن سمیت متعدد افسران معطل
  • گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والے ابراہیم کے والد حکومت سے مایوس، گٹرز کے ڈھکن خود لگوانے کا اعلان
  • کراچی، نیپا چورنگی حادثے میں معصوم بچے کے گٹر میں گرنے کی سی سی ٹی وی سامنے آگئی
  • بچے کے گٹر میں گرنے سے ہلاکت، سانحہ کی وجہ بی آر ٹی تعمیرات قرار
  • کراچی: نیپا چورنگی حادثے میں معصوم بچے کے گٹر میں گرنے کی سی سی ٹی وی سامنے آگئی