data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف دانشور محمداکمل صدیقی نے کہا ہے کہ اگرچہ روایتی غلامی کا خاتمہ ہوچکا ہے، مگر جدید غلامی آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد مختلف جدید غلامی کے مظاہر جیسے جبری مشقت، انسانی اسمگلنگ، گھریلو استحصال، کم عمری کی شادی، جنسی استحصال اور بچوں سے محنت طلب کام کا شکار ہیں۔محمداکمل صدیقی نے مزید کہا کہ عالمی یومِ انسدادِ غلامی، جو ہر سال دسمبرمیں منایا جاتا ہے، انسانی وقار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم موقع ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید غلامی کے خاتمے کے لیے قوانین پر سخت عمل درآمد، متاثرین کے تحفظ کے مراکز، آگاہی مہمات اور عالمی تعاون ناگزیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی قرض پر مبنی جبری مشقت، گھریلو ملازمین کا استحصال، بچوں سے مشقت لینا اور انسانی اسمگلنگ کے مسائل موجود ہیں اور حکومت نے ان کے حل کے لیے قوانین سخت کیے اور خصوصی عدالتیں قائم کی ہیں، لیکن آگاہی کی کمی، غربت اور کمزور عمل درآمد اب بھی بڑے چیلنج ہیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جدید غلامی

پڑھیں:

فرانس میں ہر تیسرا مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ،تازہ رپورٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251206-8-4

پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک ) فرانس میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور تازہ رپورٹ کے مطابق ہر 3 میں سے ایک مسلمان خود کو اس کا شکار قرار دیتا ہے۔فرانس کی حقوق کی محتسب کلیئر ہیدون کی جانب سے جاری رپورٹ میں 2024 ء کے ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں 5 ہزار افراد نے حصہ لیا۔ فرانسیسی قانون کے تحت نسلی، لسانی یا مذہبی بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کرنے پر پابندی ہے، جس کے باعث امتیازی سلوک سے متعلق جامع اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے تاہم سروے کے مطابق 7فیصد افراد نے گزشتہ 5برس میں مذہبی بنیادوں پر امتیاز کا سامنا کرنے کا اعتراف کیا، جو 2016 ء میں 5فیصد تھا۔مسلمان، یا وہ افراد جنہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے، اس امتیاز کا سب سے زیادہ شکار پائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق34 فیصد مسلمانوں نے خود کو متاثرہ قرار دیا ہے جبکہ دیگر مذاہب کے افراد میں یہ شرح 19 فیصد اور مسیحیوں
میں صرف 4 فیصد رہی۔ مسلمان خواتین میں امتیازی سلوک کی شرح مزید بلند ہے، جو 38 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حجاب پہننے والی خواتین کو اکثر ملازمتوں میں رکاوٹوں، کیریئر میں تعطل اور بعض اوقات کھیلوں میں شرکت پر پابندی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانسیسی سیکولرزم کے متعلق عوامی غلط فہمیاں امتیاز میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ بہت سے لوگ اسے ’’عوامی مقامات پر مذہبی علامتوں پر پابندی‘‘ کے طور پر سمجھتے ہیں حالانکہ قانون کا اصل مقصد ریاست کی غیرجانبداری اور مذہبی آزادی کا تحفظ ہے۔حقوق گروپس کے مطابق سرکاری سطح پر حجاب پر پابندیاں دراصل مذہبی آزادی کے برعکس ہیں اور خواتین کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے لباس کا انتخاب کریں۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • فرانس میں ہر تیسرا مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ،تازہ رپورٹ
  • فرانس میں ہر تیسرا مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ہے: رپورٹ میں انکشاف
  • فرانس میں ہر تیسرا مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ہے، تازہ رپورٹ میں انکشاف
  • شکار پور ؛2 تیز رفتار کاروں  میں خوفناک تصادم ؛5 خواتین سمیت 8 افراد زخمی 
  • امریکی انتظامیہ کا وینزویلین صدر سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ، نکولس مادورو کا صاف انکار
  • امریکی انتظامیہ کا وینزویلین صدر سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ، نکولس کا صاف انکار
  • لبرل نظام اب ٹوٹ بھوٹ کا شکار ہو چکا ہے، الکساندر اسٹب کا تجزیہ
  • مظلوم کشمیری بدترین بھارتی غلامی کا شکار
  • افغان طالبان رجیم کے تحت انسانی حقوق کی پامالیاں اور بڑھتی غربت، افغان عوام مشکلات کا شکار