data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251206-11-6
نوابشاہ (نمائندہ جسارت) شہر کے متعدد نجی اسکولوں میں مونوگرام والی کاپیاں، مخصوص کتابیں، اسٹیشنری اور مہنگے ڈریس لازمی قرار دینے کے خلاف والدین سراپا احتجاج بن گئے۔ والدین کا کہنا ہے کہ اسکولز انتظامیہ انہیں بار بار اسکول بلا کر مونوگرام اشیا کی خریداری اور متفرق فیسوں کی ادائیگی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، جبکہ طلبہ کو اس کے بدلے مناسب سہولیات بھی فراہم نہیں کی جاتیں جبکہ والدین نے الزام عائد کیا کہ امتحانی فیس، شیڈول فیس، ٹیکنالوجی فیس، “ٹیچرز لائسنس” اور دیگر اضافی چارجز کے نام پر ماہانہ اخراجات میں ناجائز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق عام مارکیٹ میں دستیاب سستی اور معیاری اسٹیشنری استعمال کرنے کی اجازت نہ دینا والدین پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔والدین نے اپنے مؤقف کی تائید میں قانونی ریفرنس بھی پیش کیے۔سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس 2001ء اور سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز رولز 2005 ء کے مطابق نجی اسکول سال میں صرف 5 فیصد تک فیس بڑھا سکتے ہیں، جب کہ کسی اضافی فیس یا چارجز کے لیے متعلقہ اتھارٹی کی باقاعدہ منظوری ضروری ہے۔اسی طرح Sindh Right of Children to Free and Compulsory Education Act, 2013 کے تحت اسکولوں کو ‘‘capitation fee’’ یعنی غیر ضروری داخلہ اخراجات یا جبری خریداری عائد کرنے کی اجازت نہیں۔والدین نے حکومتِ سندھ، ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ اسکولز اور ضلعی انتظامیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ:غیر قانونی فیسوں اور جبری اسٹیشنری خرید پر پابندی لگائی جائے۔اسکولز کی طرف سے فیس اسٹرکچر کی شفاف تفصیل فراہم کی جائے۔ اسکولوں کا آڈٹ کر کے یہ دیکھا جائے کہ فیسوں کے عوض طلبہ کو کون سی تعلیمی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ نے سخت کارروائی نہ کی تو احتجاج کو وسیع کیا جائے گا۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

برآمدات میں کمی کا علاج، اب ضروری

رات کی خاموشی میں جب کراچی بندرگاہ پرکنٹینر سے سامان اتارنے کی گہما گہمی تھی، وہیں ایک کونے میں کھڑی ہوئی معیشت اپنی سانسیں گن رہی تھی۔ سناٹے میں اور شور شرابے میں ایک عدد چیخ گونج رہی تھی جیسے بین کر رہی ہو۔ ایسی چیخ جسے خوشحال قوموں نے کبھی نہیں سنا۔ وہ قوم جس کا پیشہ زراعت ہو، جس کے کھیت لہلہاتے ہوں، جس کی بارانی زمینوں پر آج بھی باران رحمت اترتی ہو، لیکن آج 5 ماہ کے عرصے میں اس قوم نے غیر ملکی دال، غذائی درآمدات، موبائل فونز، قیمتی گاڑیوں، مہنگے ترین فرنیچرز، سامان آرائش و زیبائش کی درآمد پر اتنا خرچ کر ڈالا کہ 5 ماہ میں برآمدی مالیت سے کہیں آگے نکل گئی۔

یعنی 28 ارب 31 کروڑ30 لاکھ ڈالرز کی درآمدات اس طرح درآمدات میں 13.26 فی صد اضافہ ہی نہیں ہوا، بلکہ معیشت کے سرہانے لگی وہ ڈرل مشین ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر کی ہڈیوں میں سوراخ کرتی ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک جب درآمدات بڑھاتے ہیں تو صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا ہے، روزگار کے پھل لگتے ہیں اور ہمارے یہاں تو بے روزگاری کے پھل لگ رہے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 80 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، جس معاشرے اور ملک میں اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار ہوں تو معیشت کی ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں۔ ذخائر ایمرجنسی وارڈ میں چلے جاتے ہیں، عوام کی جیبیں ہاتھ کھڑے کر دیتی ہیں۔

ہماری برآمدات نے تو جیسے سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا ہو، بیرون ملک تعینات تجارتی اتاشیوں کا پول کھول دیا ہو۔ پاکستانی برآمدات سے سفیروں کی عدم دلچسپی ظاہر کر دی ہو۔ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جولائی تا نومبر ان 5 ماہ میں برآمدات میں 6.39 فی صد کی کمی کے ساتھ صرف 12 ارب 84 کروڑ40 لاکھ ڈالرز کی رہیں۔ ایک طرف دنیا کی تجارت میں مقابلہ تیز ہو رہا ہے، بہت سے ملکوں کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہے اور ہماری برآمدات گھٹتی چلی جا رہی ہیں۔

جب برآمدات اور درآمدات کی مالی صورت حال اس قسم کی ہوگی تو تجارتی خسارے نے معیشت کو وہ گھاؤ لگا دیا ہے جس کو صرف غریب عوام ہی محسوس کر رہے ہیں اور یوں جولائی تا نومبرکا تجارتی خسارہ 37.17 فی صد کی جست لگا کر 15 ارب 47 کروڑ ڈالرز کا ہوگیا ہے۔ یہ محض ایک عدد بن کر نہیں رہ گیا، یہ معیشت کے اوپر وہ داغ ہے جہاں پر ڈالر کے پیچھے بیرونی قرض ہے۔ ہر قرض کے پیچھے آئی ایم ایف کی ہڈیاں توڑتی ہوئی شرائط ہیں اور ہر شرط کے پیچھے عوام کی کمزور ترین پسلیاں ہیں اور ان کے پیچھے غریب، کمزور، نڈھال، فاقہ کش عوام کی چیخیں ہیں جو اشرافیہ کو سنائی نہیں دیتیں۔

اس وقت عالمی معاشی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ایک طرف جنگ بھی چل رہی ہے، اسرائیل کا ظلم و ستم غزہ پر اس کی چیرہ دستیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور طاقتور ممالک پھر بھی اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ تجارت بھی زوروں پر ہے بنگلہ دیش کی برآمدات، ویتنام کی برآمدات اور دیگر ملکوں کی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدی کارکردگی انتہائی کمزور ہے۔ برآمدات کے سلسلے میں بہت سے مسائل حل کیے بغیر اور بہت سے مسائل لاد کر ہمارے کارخانہ داروں، ایکسپورٹرز کو سراب میں دھکیل کر کہا جائے کہ دوڑو، تو ایسا ممکن ہے؟

ان 5 ماہ کی برآمدات ہمیں بتاتی ہیں کہ پاکستان ایسے مسافر کی طرح ہے جس کی جیب میں جو بھی پیسے ہیں وہ قرض کے ہیں، ان پر سود کا بوجھ چڑھا ہوا ہے، شرائط کے شکنجے میں کسا ہوا ہے، لیکن پھر بھی ادھڑے ہوئے سانس کے ساتھ ہانپتا کانپتا ہوا چلا جا رہا ہے، کیونکہ رک جانا موت ہے، خودکشی ہے۔

اس کالم میں اگرچہ معیشت کا نوحہ بیان کیا گیا ہے لیکن امید کی شمعیں ابھی بھی روشن ہیں۔ وہ ہے پاکستان کے تاجروں کا اعتماد ان کی صلاحیتیں۔ ان کو موقع ملنے کی بات، بیرون ملک ان کے لیے سفارت خانے کی طرف سے سہولیات کا ملنا، برآمدی پالیسی کا تجارت دوست بنانا۔ ہر پالیسی، ہر قانون، ہر رعایت، ہر سہولت صرف اور صرف اشرافیہ کے لیے نہ ہو۔ ان کے لیے ہوں جو دن رات محنت کرکے کارخانے چلاتے ہیں، پیداوار کے ڈھیر لگاتے ہیں، مزدوروں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، محنت کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں، دن رات محنت کرکے اپنے مال کو بیرون ملک فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے ساتھ مل بیٹھ کر حکومت برآمدی مسائل حل کرے۔ اب اشرافیہ پر اپنی ترجیحات خرچ کرنے کے بجائے ملک کو برآمدی ملک بنانے کو ترجیح دی جائے۔ کوئی بھی ملک درآمدی مالیت میں اضافہ کرکے کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے ہر سطح پر، ہر طریقے سے کوشش کرنا ہوگی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار میسر آ سکے۔ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو اور ملکی طلب میں اضافہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • کے الیکٹرک کو پرانے واجبات کی وصولی کی اجازت دینے سے متعلق درخواست مسترد
  • برآمدات میں کمی کا علاج، اب ضروری
  • پنجاب کے اسکولوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹکس کی تعلیم کا فیصلہ
  • مشہور انفلوئنسر پیاری مریم زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر گئیں
  • برفباری اور بارش، محکمہ موسمیات نے بڑی پیشگوئی کردی
  • پنجاب: اسکولز میں موسمِ سرما کی چھٹیوں کا اعلان
  • گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس شروع
  • کراچی سمیت اندرون سندھ دیہی علاقوں کے طلبا کو صحت کی سہولتیں دینے کا منصوبہ
  • کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے کا واقعہ، وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر افسران معطل