ابوشباب کی ہلاکت، مزاحمت کی ناقابل شکست مقبولیت کا ثبوت
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یاسر ابوشباب کی موت پر غزہ بھر میں عوامی خوشی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ غزہ کا معاشرہ، اور مجموعی طور پر پورا فلسطینی سماج، دشمن کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کو مسترد کرتا ہے۔ اس سرزمین کے لوگ اپنی قومی قیادت اور اصولوں کے پابند ہیں۔ فلسطینی ہر اُس فریق کی سرپرستی اور اطاعت کو رد کرتے ہیں جو قابض ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے یا اُن کے مفادات کی خدمت کرے۔ فلسطینی معاشرہ ایک مضبوط قومی مزاحمت رکھتا ہے جو جھوٹی حقیقتوں کو مسلط ہونے نہیں دیتا۔ خصوصی رپورٹ:
غزہ میں اسرائیل کے ایجنٹ اور ایک دہشتگرد نیٹ ورک کے سرکردہ ملزم ابوشباب کی ہلاکت، چاہے اس کے پسِ پردہ عوامل کچھ بھی ہوں، اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جاسوسی منصوبے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ غزہ کی سماج میں حماس کی جگہ اسرائیلی ایجنٹوں کو متبادل کے طور پر لانے کا منصوبہ پہلے ہی دن سے ایک ہارا ہوا جُوا ثابت ہوا ہے۔ تسنیم کے بین الاقوامی ڈیسک کے مطابق جمعرات کو یاسر ابوشباب، جو اسرائیل کے بدنام ترین غزہ میں سرگرم دہشتگرد اور ایجنٹ کارندوں کا سرغنہ تھا، اس کی ہلاکت کی خبر کے بعد اس واقعے پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔
یاسر ابوشباب نسل کشی پر مبنی جنگ کے دوران غزہ میں اسرائیلی انٹیلی جنس اور قابض فوج کے ساتھ مکمل تعاون میں ملوث تھا، اور اس دوران اُس نے فلسطینی شہریوں کے خلاف بے شمار جرائم انجام دیے۔ ابوشباب کی موت اور اس کے اسباب سے متعلق متضاد آراء موجود ہیں۔ فلسطینی صحافی اور مصنف ثابت العمور نے اس بارے میں کہا ہے کہ ابوشباب کے قتل کے نتائج اور اثرات کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی سوالات کے جواب ضروری ہیں، نمبر ایک ابوشباب کیسے مارا گیا؟ اور دوسرا سوال کہ اسے کس نے قتل کیا؟
ابوشباب کے قتل کا ممکنہ منظر نامہ:
العمور نے ابوشباب کے قتل کے بارے میں کہا ہے کہ ممکن ہے کہ ابوشباب مجاہدین کے گھات میں پھنس گیا ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ صہیونیوں نے غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کے قریب آنے پر اسے خود قتل کیا ہو۔ اسی تناظر میں عرب تجزیہ کار ڈاکٹر ایاد القرا نے بھی کہا ہے کہ یاسر ابوشباب کا انجام، تمام ممکنہ منظرناموں کے باوجود، اس اسرائیلی منصوبے کے انہدام کا واضح ثبوت ہے جس کا مقصد غزہ میں اندرونی ایجنٹ نیٹ ورکس کا نمونہ تیار کرنا تھا۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ اس کی ہلاکت اس کی اپنی ٹیم کے اندر اثرو رسوخ اور مفادات پر ہونے والے اندرونی جھگڑے کا نتیجہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ابوشباب کا قتل، خواہ اسے کسی نے بھی انجام دیا ہو، ایسے منصوبے کے خاتمے کی علامت ہے جسے اسرائیل نے غزہ کے سماج میں قبائلی رجحانات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مزاحمت کے عوامی حمایت کے مرکز کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر تشکیل دیا تھا۔
فلسطینی سماج میں اسرائیل کا ناکام داؤ:
1۔ فلسطینی مصنف نے واضح کیا ہے کہ صہیونیوں نے یاسر ابوشباب اور اس کی ٹیم پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہوا تھا، اور ان ایجنٹ گروہوں پر اسرائیل کا سرمایہ کاری شدہ منصوبہ پوری طرح ناکام ہوگیا۔ اسی بنیاد پر یہ بھی ممکن ہے کہ ابوشباب کا قتل ایک امریکی اسرائیلی سمجھوتے کا حصہ ہو، تاکہ اسے مزید کسی سیاسی یا سیکیورٹی کردار تک رسائی ملنے سے پہلے اس کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے، کیونکہ اس کی موجودگی میں فلسطینی اتھارٹی غزہ میں واپس نہیں آ سکتی تھی۔
2۔ العمور نے غزہ کے داخلی حالات اور قبائل کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترابین قبیلے نے فوراً ہی ابوشباب کو غدار قرار دے کر اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا اور اس کا خون مباح سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کی موت کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی عوام اور قبائل نے واضح طور پر اس کا استقبال کیا اور اس کے قتل کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابوشباب کا قتل اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ یہی انجام دیگر ایجنٹوں کا بھی منتظر ہے، اور یہ کہ قابض قوتیں غزہ میں مزاحمت کی جگہ کوئی داخلی متبادل تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔
3۔ یاسر ابوشباب کے کردار کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ تمام نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں جو اسرائیلی منصوبے کی شکست کو واضح کرتی ہیں، وہ منصوبہ جس کا مقصد غزہ میں مقامی ایجنٹوں کا ایسا نیٹ ورک بنانا تھا جو ایجنٹس زمینی حقائق کو اسرائیل کے فائدے میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہو سکیں۔ یہ منصوبہ بہت جلد ناکام ہو گیا، اس منصوبے کی کوئی سماجی بنیاد موجود نہیں تھی، غزہ کی قبائل نے کسی متبادل قیادت یا ڈھانچے کے قیام کی ہر کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا۔ مزاحمت کی ایسی پائیدار صلاحیت، جو اس قسم کے ہر اس ڈھانچے کو ختم کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
ابوشباب کے خاتمے کے چند بنیادی پیغام:
ایاد القرا نے واضح کیا ہے کہ ابوشباب کی موت ایک معمولی واقعہ نہیں تھی، بلکہ اُس پورے منصوبے کا انہدام تھا جس پر قابض صہیونی قوتیں انحصار کر رہی تھیں، یعنی غزہ کی ساخت کو اندرونی ایجنٹوں کے ذریعے تبدیل کرنا۔ پیغام پوری طرح واضح ہے کہ غزہ تقسیم نہیں ہوگا، فلسطین کا قومی ماحول ہر قسم کی دراندازی کے مقابلے میں مضبوط ہے، اور جو بھی منصوبہ ایجنٹوں پر مبنی ہو گا، وہ یقینی طور پر ناکام ہوگا۔
عادل شدید جو ایک اور عرب سیاسی تجزیہ کار ہیں، انہوں نے اپنی جانب سے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ قابض صہیونی طاقتیں فلسطینی معاشرے، خصوصاً غزہ کی سماجی ساخت، اور داخلی مقامی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ فلسطینی معاشرہ ایک منظم سماجی نظام اور مضبوط قومی شعور رکھتا ہے، جو بیرونی قوتوں کی طرف سے مسلط کیے جانے والے کسی بھی مصنوعی مقامی ڈھانچے کو رد کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی رجیم کی جانب سے فلسطینی معاشرے کے اندر نیابتی ایجنٹ گروہوں کی تشکیل کی کوششیں ہمیشہ فلسطینی قومی حقیقت سے ٹکراؤ میں رہی ہیں۔ ایسے گروہ نہ عوامی حمایت رکھتے ہیں اور نہ سماجی مشروعیت۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عارضی اور تیزی سے بکھر جانے والے منصوبوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ عادل شدید نے زور دے کر کہا ہے کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب یہ ایجنٹ اپنے استعمال کی مدت پوری کر لیتے ہیں، صیہونی انہیں فوراً چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے ایجنٹوں پر تکیہ کرنا ابتدا ہی سے ایک ہارا ہوا جُوا ہے۔
ان منصوبوں کی ناکامی ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ غزہ سیاسی یا سماجی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ نہیں ہے، بلکہ ایک لچک دار ماحول ہے جو اُن سب پر اپنے اصول نافذ کرتا ہے جو اس کی اجتماعی ارادہ کو نظرانداز کرنے یا اس کی داخلی وحدت کو کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ فلسطینی تجزیہ کار اور مصنف احمد الحَیْلَه کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ایجنٹ یاسر ابوشباب کے قتل کا واقعہ فلسطینیوں کے قومی شعور کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کے مطابق، اس واقعے کا اصل سبق پشت پردہ عوامل میں نہیں، بلکہ اُن پیغامات میں ہے جو یہ واقعہ فلسطینی معاشرے تک پہنچاتا ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قابض قوتیں کوئی ایسا متبادل ڈھانچہ نہ تلاش کر سکتی ہیں اور نہ بنا سکتی ہیں، جسے فلسطینی عوام قبولیت دیں۔ مزید یہ کہ ایجنٹ نیٹ ورکس کی تشکیل کی ہر کوشش، فلسطینی قومی شعور اور ان منصوبوں کے خطرات سے متعلق اُن کی بصیرت کے سامنے، بہت جلد ناکام ہو جاتی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یاسر ابوشباب کی موت پر غزہ بھر میں عوامی خوشی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ غزہ کا معاشرہ، اور مجموعی طور پر پورا فلسطینی سماج، دشمن کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کو مسترد کرتا ہے۔ اس سرزمین کے لوگ اپنی قومی قیادت اور اصولوں کے پابند ہیں۔ فلسطینی ہر اُس فریق کی سرپرستی اور اطاعت کو رد کرتے ہیں جو قابض ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے یا اُن کے مفادات کی خدمت کرے۔ فلسطینی معاشرہ ایک مضبوط قومی مزاحمت رکھتا ہے جو جھوٹی حقیقتوں کو مسلط ہونے نہیں دیتا۔
جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور اسرائیلی سراب کا خاتمہ:
طہ عبدالعزیز، عرب دنیا کے ایک اور تجزیہ نگار اور مصنف ہیں، انہوں نے یاسر ابوشباب کی ہلاکت اور اس کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے ایک بڑے سیکیورٹی وہم کے خاتمے کی علامت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نسل کشی کے آٹھویں مہینے، اور غزہ کے جنوب میں رفح پر اسرائیلی زمینی حملے کے دوران، قابض قوتیں ایک خیالی سیکیورٹی منصوبے کی طرف بڑھیں، جس کی بنیاد ڈاکوؤں، بھگوڑے قیدیوں اور دیگر ایسے افراد پر رکھی گئی جو کسی بھی صلاحیت کے حامل نہیں تھے۔
یہ لوگ، جو اپنا نام لکھنے سے آگے کچھ نہیں جانتے تھے اور جن کے دل غزہ کے سماجی ڈھانچے سے بغض و عداوت سے بھرے تھے، وہی ڈھانچہ جو ہمیشہ ان کی مجرمانہ حرکتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا تھا، اچانک صہیونی حکام کے ذہن میں اس قابل ٹھہرے کہ جنگ کے بعد غزہ کے ممکنہ منتظمین بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدا میں ابوشباب کا معاملہ اسرائیلی فوج کے آپریشنل افسران کے پاس تھا، پھر اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے کوشش کی کہ ابوشباب اور اس کے گروہ کو غزہ میں اپنے سستے آلہ کار کے طور پر استعمال کریں۔
اس مقصد کے لیے انہیں کچھ بنیادی سازوسامان مہیا کیا گیا اور انہیں تباہ شدہ گھروں کی تلاشی، بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور مشتبہ علاقوں میں داخل ہونے جیسے کام سونپے گئے، تاکہ وہ دراصل اسرائیلی فوج کی انسانی ڈھال بن کر قابض فوج کے زمینی نقصان کو کم کریں۔ طہ عبدالعزیز نے کہا کہ جنوری میں جنگ بندی کے بعد، اسرائیلیوں نے انہی ایجنٹ گروہوں کو اپنی فورسز کے قریب تعینات کیا اور انہیں فائرنگ کور فراہم کیا۔ ساتھ ہی ان گروہوں کو ایک مقامی نیم سیکورٹی فورس کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اسرائیل نے جنوری کے وقفہ جنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارچ میں دوبارہ جنگ شروع کی، تو اسی دوران یاسر ابوشباب سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے لگا اور اسرائیلی منصوبوں میں ایک نئے مہرے کے طور پر ابھرا۔ اسی وقت فلسطینی مزاحمت نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا اور اس کی ٹیم کی سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا۔
طہ عبدالعزیز نے واضح کیا کہ عوامی شعور کی بلندی نے بھی اس صہیونی منصوبے کو ناکام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں شاباک کا وہ منصوبہ، جس کے ذریعے غزہ میں ایک متبادل اندرونی قوت پیدا کرنے کی امید کر رہی تھی، بہت تیزی سے دھڑام سے گر پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ابوشباب کی ہلاکت کی خبر سامنے آتے ہی صہیونی میڈیا نے اپنے روایتی فوجی سنسر کے تحت متضاد دعوے پیش کیے، کبھی خاندانی جھگڑا، کبھی اپنی ٹیم کے ہاتھوں قتل کی کہانیاں۔
اسی دوران عبرانی میڈیا اور اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے تسلیم کیا کہ غزہ میں اسرائیل کے سیاسی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے بدمعاش گروہوں پر بھروسہ کرنا ایک تباہ کن غلطی تھی۔ درحقیقت، ابوشباب کا خاتمہ ایک بڑے سیکیورٹی خیالی منصوبے کے ٹوٹنے کی علامت ہے، اب وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ غزہ میں حماس کے متبادل کے طور پر کسی بدمعاش گروہ کو بٹھانے کا منصوبہ ابتدا سے ہی ایک ہارا ہوا جوا تھا، حالیہ دور میں صہیونیوں کی کوشش یہ رہی کہ غزہ کے اندر ایسے گروہ تشکیل دیے جائیں جو ایجنٹ کے طور پر کام کریں اور اسرائیل کی مرضی کی زمینی حقیقت کو اس علاقے پر مسلط کرنے کے لیے ایک آلہ ثابت ہوں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ابوشباب کی ہلاکت غزہ میں اسرائیل ابوشباب کی موت ابوشباب کے قتل انہوں نے مزید ہے کہ ابوشباب یاسر ابوشباب اور اسرائیل اس حقیقت کو ابوشباب کا اسرائیل کے منصوبے کے کے طور پر ہے کہ غزہ اور اس کے کہا ہے کہ کے خاتمے یہ واقعہ ناکام ہو نے واضح کی کوشش کرنے کی کے ساتھ کرتا ہے کر دیا غزہ کے کے لیے اور ان کہا کہ غزہ کی
پڑھیں:
غزہ اور لبنان پر تازہ اسرائیلی حملے: 7 شہید، متعدد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں
غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہوگیا ہے۔ صیہونی فوج نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 7 فلسطینی شہید اور 4 عمارتیں تباہ ہوگئیں۔
فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے رفح سمیت مختلف آبادیوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے ایک ہی دن میں متعدد شہریوں کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ رفح میں کارروائی کے دوران حماس کے ایک کمانڈر کو بھی مارا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیردفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ میں فوجی کارروائیاں پوری طاقت سے جاری رہیں گی۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اب تک 360 فلسطینی شہید اور 900 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مجموعی اموات 70 ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں۔
ادھر لبنان میں بھی اسرائیلی فوج نے جنوبی علاقوں میں بمباری کی، جس سے 4 رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حملوں میں حزب اللہ کے اسلحہ گوداموں کو نشانہ بنایا گیا۔