اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلاتک غزہ جنگ بندی مکمل نہیں سمجھی جائے گی؛ قطری وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دوحہ: قطری کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں سے انخلا تک غزہ جنگ بندی مکمل نہیں سمجھی جائے گی۔
شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے کہا ہے کہ گزشتہ تقریبا دو ماہ سے جاری غزہ جنگ بندی اُس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جائے گی جب تک امریکی اور اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج فلسطینی علاقے سے واپس نہیں چلی جاتی۔
دارالحکومت میں ہونے والا سالانہ سفارتی اجلاس میں دوحہ فورم سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہم اس وقت نہایت نازک مرحلے میں ہیں، جنگ بندی اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا نہ ہو جائے اور غزہ میں استحکام بحال نہ ہو جائے۔امریکا، مصر اور قطر نے مل کر غزہ میں طویل عرصے سے مطلوب جنگ بندی کرائی تھی، جو 10 اکتوبر سے نافذ ہے۔
یاد رہے کہ معاہدے کے دوسرے مرحلے( جو ابھی شروع ہونا باقی ہے) میں اسرائیل نے غزہ میں اپنی پوزیشنوں سے دستبردار ہونا ہے، عبوری انتظامیہ نے حکمرانی سنبھالنی ہے اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعینات کی جانی ہے۔
ادھر عرب اور مسلمان ممالک نئی فورس میں شامل ہونے سے ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ امکان ہے کہ اس فورس کو فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کرنا پڑ سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مکمل نہیں
پڑھیں:
فلسطین: سول سوسائٹی پر اسرائیلی کریک ڈاؤن تشویشناک حد کو پہنچ گیا: اقوام متحدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی تنظیم یونین آف اگریکلچرل ورک کمیٹیز پر اسرائیلی چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی سول سوسائٹی پر دباؤ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یکم دسمبر کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے رام اللہ اور الخلیل میں تنظیم کے دفاتر پر چھاپے مارے، املاک کو نقصان پہنچایا اور عملے کے ارکان کو حراست میں لیا۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر ) کے مطابق عمارتوں میں موجود افراد کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں، ہاتھ باندھ کر انہیں کئی گھنٹوں تک گھٹنوں کے بل یا زمین پر لیٹنے پر مجبور کیا گیا اور 8 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
یہ یونین، جو فلسطینی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہے، کئی دہائیوں سے کسانوں اور دیہی برادریوں خاص طور پر اُن لوگوں کی جو آبادکاروں کی تشدد آمیز سرگرمیوں یا جبری بے دخلی کے خطرے سے دوچار ہیں کی مدد کر رہی ہے ۔
یہ تنظیم اُن چھ فلسطینی این جی اوز میں شامل ہے جنہیں اسرائیلی حکام نے 2021 میں دہشت گرد قرار دیا تھا ایسے قانون کے تحت جسے اقوامِ متحدہ حد سے زیادہ وسیع اور سول سوسائٹی پر غیر ضروری و بلاجواز پابندیاں عائد کرنے کا ذریعہ قرار دیتی ہے۔
انسانی حقوق کے دفتر نے زور دیا کہ اسرائیل نے ان الزامات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔چھاپہ ایسے وقت میں مارا گیا جب کئی ہفتوں سے اسرائیلی آبادکاروں اور اُن کے رہنماؤں کی جانب سے زیتون کی فصل کی تیاری کے موقع پر یونین آف اگریکلچرل ورک کمیٹیز کو نشانہ بناتے ہوئے ہراسانی اور عوامی اشتعال انگیزی جاری تھی۔
نومبر کے وسط تک او ایچ سی ایچ آر نے 167 آبادکار حملوں کے دستاویزی ثبوت مرتب کئے جو 87 فلسطینی کمیونٹیز کو متاثر کر رہے تھے۔
یکم اکتوبر سے اقوامِ متحدہ کے دفتر نے آبادکاروں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کے محافظین، حفاظتی نگرانی فراہم کرنے والے رضاکاروں، اور اُن این جی اوز کے خلاف 81 خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کیاہے جو آبادکاروں کے تشدد یا آباد کاری میں توسیع سے متاثرہ کمیونٹیز کی مدد کرتی ہیں۔
ان میں گرفتاری کے 48 اور جسمانی تشدد کے 22 واقعات شامل ہیں۔او ایچ سی ایچ آر کے مطابق غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کا استعمال، حراست اور بدسلوکی مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی آپریشنز کا معمول بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کیا کہ مجموعی طور پر یہ صورتحال فلسطینیوں کی جسمانی اور شہری آزادیوں کو تیزی سے محدود کر رہی ہے، خاص طور پر جب آبادکاری میں توسیع جاری ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اس علاقے کا ’’غیر قانونی انضمام‘‘بڑھتا جا رہا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں او ایچ سی ایچ آر کے سربراہ اجیت سنگھے نے کہا کہ بین الاقوامی قانونی مؤقف بالکل واضح ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی ختم کرنی چاہیے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کے مطابق تمام یہودی آبادکاروں کووہاں سے نکالنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کے تحت واضح ذمہ داریاں ہیں جن میں فلسطینیوں کے روزگار کے حق اور اظہارِ رائے و وابستگی کی آزادی کا احترام اور تحفظ شامل ہے۔