گلشنِ اقبال ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد نے ایک ویڈیو بیان میں کراچی کی شہری صورتحال پر سخت مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور کے ایم سی نے عوام سے اربوں روپے تو وصول کر لیے، لیکن گٹروں پر ڈھکن لگانے جیسے بنیادی کام کے لیے بھی فنڈز موجود نہیں۔
ڈاکٹر فواد کا کہنا تھا کہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے 20 ارب روپے سے زائد بلوں کی مد میں لیے، جب کہ کے ایم سی بجلی کے بلوں کے ذریعے 4 ارب روپے میونسپل ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ “اتنی بڑی رقوم اکٹھی کرنے کے باوجود شہر کے مین ہولز کھلے پڑے ہیں، آخر یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے؟”، انہوں نے سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ اختیارات نہ دیے جاتے ہیں، نہ ہی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے، جبکہ گلشنِ اقبال ٹاؤن نے محدود بجٹ میں کروڑوں روپے اپنے طور پر خرچ کیے ہیں۔ مختلف یوسیز بھی اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج کے مسائل پر رقم لگا رہی ہیں، لیکن بڑے ادارے اپنے فرائض ادا کرنے کو تیار نہیں۔
ڈاکٹر فواد نے یونیورسٹی روڈ کی ابتر صورتحال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یونیورسٹی روڈ موت کا کنواں بن چکی ہے، اس کی ذمہ داری کے ایم سی پر ہے، لیکن یہاں کوئی عملی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔”
انہوں نے مطالبہ کیا کہ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کو منتخب نمائندوں کے ماتحت لایا جائے اور کراچی کو ایک متحد اتھارٹی کے تحت چلایا جائے تاکہ مسائل حل کرنے کا کوئی مؤثر طریقہ کار بن سکے۔
ڈاکٹر فواد نے مزید کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اختیارات کے لیے متحد ہونا ہوگا، اور میئر کراچی کو بھی مسائل کے حل کے لیے ٹاؤن چیئرمینز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ “دو سال میں میئر نے کتنی بار ٹاؤن چیئرمینز کے ساتھ مشاورت کی؟ شہر کے مسائل ایسے نہیں حل ہوں گے۔”
واضح رہے کہ حال ہی میں ایک افسوسناک حادثے میں شاہ فیصل کالونی کا تین سالہ بچہ ابراہیم نیپا کے قریب کھلے مین ہول میں گر کر جان کی بازی ہار گیا تھا، جس کے بعد گلشن اقبال کے شہریوں نے احتجاجاً کھلے گٹروں پر ٹاؤن چیئرمین کی تصاویر بھی آویزاں کی تھیں۔

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ڈاکٹر فواد کے ایم سی

پڑھیں:

کراچی میں کھلے گٹر: انتظامی غفلت، اجتماعی المیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251205-03-3

کراچی جیسے بے ہنگم پھیلاؤ والے شہر میں روزمرہ زندگی پہلے ہی بے شمار مشکلات سے گزر رہی ہے، مگر رواں برس پیش آنے والے ایک کے بعد ایک حادثے نے شہری ماحول کی سنگینی کو ایک نئے زاویے سے بے نقاب کر دیا ہے۔ کھلے گٹر اور نالوں میں گر کر ہونے والی اموات محض حادثات نہیں بلکہ انتظامی غفلت، ناقص نگرانی اور شہری سلامتی کے بنیادی اصولوں سے لاتعلقی کی ہولناک داستان بنتے جا رہے ہیں۔ سال کے دوران مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات میں کم عمر بچوں سمیت درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ متعدد شدید زخمی ہوئے۔ ان دلخراش سانحات نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو سوگوار کیا بلکہ شہر بھر میں اضطراب اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ یہ المناک سلسلہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب شہر کے ایک مصروف ترین علاقے میں ایک کمسن بچہ ایک ایسے مین ہول میں جا گرا جسے ڈھکن نہ ہونے کے باعث محض عارضی طور پر گتے سے بند کیا گیا تھا۔ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ گتے کا یہ کمزور سہارا بچے کے وزن کے سامنے ٹھیر نہ سکا، جس کے نتیجے میں بچہ اندھے مین ہول میں گر کر بہہ گیا اور اسے بازیاب کرنے کے لیے طویل ریسکیو آپریشن درکار ہوا۔ جدید آلات، ہیوی مشینری اور متعدد محکموں کی کوششوں کے باوجود بچے کی جان نہ بچائی جا سکی، اور اس کی لاش کافی دور سے برآمد ہوئی۔ یہ واقعہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی حالت کس قدر خراب ہے اور متعلقہ ادارے کس حد تک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے ایسے حادثات کی تعداد نے اس بحران کی شدت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ کبھی ایک راہگیر چلتے چلتے کھلے گٹر میں جا گرتا ہے، کبھی موٹر سائیکل سوار روشنی یا نشان دہی نہ ہونے کے باعث حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی کھیلتے ہوئے بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کبھی لاپتا افراد کی لاشیں کئی دن بعد نالوں سے ملتی ہیں۔ ان تمام واقعات میں ایک مشترکہ پہلو ہے انتظامی کوتاہی، مجرمانہ غفلت اور بروقت اقدامات کی عدم موجودگی۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ حادثات کے بعد اکثر متاثرہ خاندان خود مدد کے طالب نظر آتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اہل خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت وسائل جمع کیے، ہیوی مشینری کا بندوبست کیا، اور متعلقہ اداروں کے آنے سے پہلے ریسکیو کی ذمے داریاں خود نبھائیں۔ یہ صورتحال اس بڑے شہر کی انتظامی ترجیحات پر سوال اٹھاتی ہے، جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق اور حفاظت کے معاملے میں بارہا سنگین سستی سامنے آئی ہے۔ اس واقعے کے بعد شہر کی سڑکوں سے لے کر ایوانوں تک احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں۔ شہریوں نے مشتعل ہو کر احتجاجی دھرنے دیے، ٹائر جلائے اور حکام کے رویے پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔ دوسری جانب، بلدیاتی اداروں کے اجلاسوں میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا، جہاں اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا، سوالات اٹھائے، نعرے بازی کی اور جواب طلب کیا کہ آخر کب تک کھلے مین ہولز معصوم جانوں کو نگلتے رہیں گے۔ ایوان میں یہ تک دیکھنے میں آیا کہ کچھ ارکان جذبات کی شدت کے باعث آبدیدہ ہو گئے، اور یہ منظر خود اس مسئلے کی سنگینی کا مظہر تھا۔
ادھر ایوان کے اندر حکومتی ارکان کی جانب سے افسوس کے اظہار اور دعویٰ سامنے آیا کہ ذمے داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی، مگر یہ اعلانات شہریوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے وعدے کیے جاتے رہے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے مین ہولز اب بھی خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں، کئی مقامات پر ڈھکن ٹوٹے ہوئے ہیں، یا عارضی طور پر پتھروں، بوریاں یا دیگر غیر محفوظ طریقوں سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال انتظامی نااہلی سے کہیں بڑھ کر ایک اجتماعی ناکامی کا مظہر ہے۔ ایسے مسائل صرف کسی ایک ادارے یا فرد کی ذمے داری نہیں بلکہ ایک مربوط نظام کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہیں۔ جب میونسپل ادارے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹاؤن مینجمنٹ، اور ضلعی انتظامیہ سب اپنی اپنی حدود اور ذمے داریوں کا تعین کیے بغیر کام کریں گے، تو یہی المیے بار بار جنم لیں گے۔ شہری سلامتی کو یقینی بنانا صرف حادثات کے بعد کے بیانات سے ممکن نہیں بلکہ ایک واضح، مضبوط، اور مستقل حکمت ِ عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے تمام مین ہولز اور نالوں کا فوری سروے کیا جائے، ٹوٹے ہوئے یا غائب ڈھکنوں کی فوری مرمت کی جائے، ہر حساس مقام پر نشاندہی کے لیے واضح بورڈ لگائے جائیں، اور ایسے علاقوں میں نگرانی کے نظام کو سخت کیا جائے جہاں حادثات کے امکانات زیادہ ہوں۔ ساتھ ہی شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ وہ خطرناک مقامات کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں کو فوری اطلاع دیں۔ اس کے علاوہ، ریسکیو سروسز کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت کارروائی ممکن ہو۔ اگر شہر کی انتظامیہ اور منتخب نمائندے واقعی شہری خدمت کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں تو ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ شہر روزانہ محنت کرنے والے لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے، اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کو سیاست، اختیارات کی کشمکش یا محکمہ جاتی سرد مہری کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ کھلے مین ہولز کا مسئلہ محض انفرا اسٹرکچر کی خامی نہیں بلکہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو اپنے لوگوں کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس سنگین مسئلے کو محض حادثاتی واقعات کے طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے شہری و انتظامی بحران کے طور پر دیکھا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مستقبل میں کسی بھی خاندان کو اپنے پیاروں کے اس طرح کے المیے سے نہ گزرنا پڑے۔ شہر کے بچے، نوجوان اور بزرگ سب محفوظ راستوں، محفوظ گلیوں اور محفوظ بنیادی ڈھانچے کے حقدار ہیں۔ یہ نہ صرف ریاست کی اخلاقی ذمے داری ہے بلکہ آئینی تقاضا بھی۔ اگر اس مسئلے پر بھی سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو کراچی جیسے بڑے شہر میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک معمول بن جائے گا، اور ہر ایسا واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوال بن کر گرتا رہے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب لاپروائی نہیں بلکہ عملی اقدام کیا جائے، ورنہ یہ شہر ہمیشہ انہی کھلے مین ہولز اور نالوں کی کہانیوں میں ڈوبا رہے گا اور تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے کتنی قیمتی زندگیاں ضائع ہونے دیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • 4 ارب میونسپل ٹیکس بجلی بلوں میں وصول کیے، گٹر پر ڈھکن لگانے کے پیسے نہیں، چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن
  • میئر کراچی اختیارات نہیں دیتے ذمہ داری بھی نہیں لیتے؛ چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن ڈاکٹر فواد احمد
  • میئر کراچی اختیارات نہیں دیتے ذمہ داری بھی نہیں لیتے؛ گلشن اقبال ٹاؤن چیئرمین فواد احمد
  • صنعتی شہر ڈسٹرکٹ حق کیلیے اربوں روپے کے منصوبے منظورکرائے
  • این آئی سی وی ڈی میں دوائیوں کی شدید قلت
  • کراچی میں کھلے گٹر: انتظامی غفلت، اجتماعی المیہ
  • جامعہ کراچی کو دو لخت نہیں کیا جا رہا، اسماعیل راہو
  • جامعہ کراچی کو دو لخت نہیں کیا جا رہا، صوبائی وزیر جامعات اسماعیل راہو
  • پانی کو ترستے کراچی کے عوام