Jasarat News:
2025-12-04@22:29:19 GMT

کراچی میں کھلے گٹر: انتظامی غفلت، اجتماعی المیہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251205-03-3

کراچی جیسے بے ہنگم پھیلاؤ والے شہر میں روزمرہ زندگی پہلے ہی بے شمار مشکلات سے گزر رہی ہے، مگر رواں برس پیش آنے والے ایک کے بعد ایک حادثے نے شہری ماحول کی سنگینی کو ایک نئے زاویے سے بے نقاب کر دیا ہے۔ کھلے گٹر اور نالوں میں گر کر ہونے والی اموات محض حادثات نہیں بلکہ انتظامی غفلت، ناقص نگرانی اور شہری سلامتی کے بنیادی اصولوں سے لاتعلقی کی ہولناک داستان بنتے جا رہے ہیں۔ سال کے دوران مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات میں کم عمر بچوں سمیت درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ متعدد شدید زخمی ہوئے۔ ان دلخراش سانحات نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو سوگوار کیا بلکہ شہر بھر میں اضطراب اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ یہ المناک سلسلہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب شہر کے ایک مصروف ترین علاقے میں ایک کمسن بچہ ایک ایسے مین ہول میں جا گرا جسے ڈھکن نہ ہونے کے باعث محض عارضی طور پر گتے سے بند کیا گیا تھا۔ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ گتے کا یہ کمزور سہارا بچے کے وزن کے سامنے ٹھیر نہ سکا، جس کے نتیجے میں بچہ اندھے مین ہول میں گر کر بہہ گیا اور اسے بازیاب کرنے کے لیے طویل ریسکیو آپریشن درکار ہوا۔ جدید آلات، ہیوی مشینری اور متعدد محکموں کی کوششوں کے باوجود بچے کی جان نہ بچائی جا سکی، اور اس کی لاش کافی دور سے برآمد ہوئی۔ یہ واقعہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی حالت کس قدر خراب ہے اور متعلقہ ادارے کس حد تک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے ایسے حادثات کی تعداد نے اس بحران کی شدت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ کبھی ایک راہگیر چلتے چلتے کھلے گٹر میں جا گرتا ہے، کبھی موٹر سائیکل سوار روشنی یا نشان دہی نہ ہونے کے باعث حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی کھیلتے ہوئے بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کبھی لاپتا افراد کی لاشیں کئی دن بعد نالوں سے ملتی ہیں۔ ان تمام واقعات میں ایک مشترکہ پہلو ہے انتظامی کوتاہی، مجرمانہ غفلت اور بروقت اقدامات کی عدم موجودگی۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ حادثات کے بعد اکثر متاثرہ خاندان خود مدد کے طالب نظر آتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اہل خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت وسائل جمع کیے، ہیوی مشینری کا بندوبست کیا، اور متعلقہ اداروں کے آنے سے پہلے ریسکیو کی ذمے داریاں خود نبھائیں۔ یہ صورتحال اس بڑے شہر کی انتظامی ترجیحات پر سوال اٹھاتی ہے، جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق اور حفاظت کے معاملے میں بارہا سنگین سستی سامنے آئی ہے۔ اس واقعے کے بعد شہر کی سڑکوں سے لے کر ایوانوں تک احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں۔ شہریوں نے مشتعل ہو کر احتجاجی دھرنے دیے، ٹائر جلائے اور حکام کے رویے پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔ دوسری جانب، بلدیاتی اداروں کے اجلاسوں میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا، جہاں اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا، سوالات اٹھائے، نعرے بازی کی اور جواب طلب کیا کہ آخر کب تک کھلے مین ہولز معصوم جانوں کو نگلتے رہیں گے۔ ایوان میں یہ تک دیکھنے میں آیا کہ کچھ ارکان جذبات کی شدت کے باعث آبدیدہ ہو گئے، اور یہ منظر خود اس مسئلے کی سنگینی کا مظہر تھا۔
ادھر ایوان کے اندر حکومتی ارکان کی جانب سے افسوس کے اظہار اور دعویٰ سامنے آیا کہ ذمے داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی، مگر یہ اعلانات شہریوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے وعدے کیے جاتے رہے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے مین ہولز اب بھی خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں، کئی مقامات پر ڈھکن ٹوٹے ہوئے ہیں، یا عارضی طور پر پتھروں، بوریاں یا دیگر غیر محفوظ طریقوں سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال انتظامی نااہلی سے کہیں بڑھ کر ایک اجتماعی ناکامی کا مظہر ہے۔ ایسے مسائل صرف کسی ایک ادارے یا فرد کی ذمے داری نہیں بلکہ ایک مربوط نظام کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہیں۔ جب میونسپل ادارے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹاؤن مینجمنٹ، اور ضلعی انتظامیہ سب اپنی اپنی حدود اور ذمے داریوں کا تعین کیے بغیر کام کریں گے، تو یہی المیے بار بار جنم لیں گے۔ شہری سلامتی کو یقینی بنانا صرف حادثات کے بعد کے بیانات سے ممکن نہیں بلکہ ایک واضح، مضبوط، اور مستقل حکمت ِ عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے تمام مین ہولز اور نالوں کا فوری سروے کیا جائے، ٹوٹے ہوئے یا غائب ڈھکنوں کی فوری مرمت کی جائے، ہر حساس مقام پر نشاندہی کے لیے واضح بورڈ لگائے جائیں، اور ایسے علاقوں میں نگرانی کے نظام کو سخت کیا جائے جہاں حادثات کے امکانات زیادہ ہوں۔ ساتھ ہی شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ وہ خطرناک مقامات کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں کو فوری اطلاع دیں۔ اس کے علاوہ، ریسکیو سروسز کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت کارروائی ممکن ہو۔ اگر شہر کی انتظامیہ اور منتخب نمائندے واقعی شہری خدمت کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں تو ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ شہر روزانہ محنت کرنے والے لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے، اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کو سیاست، اختیارات کی کشمکش یا محکمہ جاتی سرد مہری کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ کھلے مین ہولز کا مسئلہ محض انفرا اسٹرکچر کی خامی نہیں بلکہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو اپنے لوگوں کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس سنگین مسئلے کو محض حادثاتی واقعات کے طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے شہری و انتظامی بحران کے طور پر دیکھا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مستقبل میں کسی بھی خاندان کو اپنے پیاروں کے اس طرح کے المیے سے نہ گزرنا پڑے۔ شہر کے بچے، نوجوان اور بزرگ سب محفوظ راستوں، محفوظ گلیوں اور محفوظ بنیادی ڈھانچے کے حقدار ہیں۔ یہ نہ صرف ریاست کی اخلاقی ذمے داری ہے بلکہ آئینی تقاضا بھی۔ اگر اس مسئلے پر بھی سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو کراچی جیسے بڑے شہر میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک معمول بن جائے گا، اور ہر ایسا واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوال بن کر گرتا رہے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب لاپروائی نہیں بلکہ عملی اقدام کیا جائے، ورنہ یہ شہر ہمیشہ انہی کھلے مین ہولز اور نالوں کی کہانیوں میں ڈوبا رہے گا اور تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے کتنی قیمتی زندگیاں ضائع ہونے دیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ایک کھلے مین ہولز علاقوں میں نے والے کے لیے شہر کی شہر کے کے بعد

پڑھیں:

کراچی نیپا چورنگی حادثہ، شوبز شخصیات کا انتظامیہ کی غفلت پر شدید ردِعمل

نیپا چورنگی کے قریب مین ہول میں گر کر تین سالہ ابراہیم کی المناک موت نے پورے شوبز حلقے کو بھی غمزدہ کر دیا ہے۔معصوم ابراہیم والدین کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکلا تھا لیکن کھلے گٹر میں گرنے کے باعث جان کی بازی ہار گیا، پندرہ گھنٹے کی تلاش کے بعد اس کی لاش ملی جس کے بعد نمازِ جنازہ ادا کرکے تدفین کر دی گئی،تاہم شوبز شخصیات بھی ننھے ابراہیم کی موت پر انتہائی افسردہ ہیں اور انتظامیہ و حکمرانوں کی ناہلی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔اداکار احسن خان نے ابراہیم کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ہم اسے وہ بنیادی تحفظ نہ دے سکے جس کا ہر بچہ حق دار ہے، اس کی معصومیت اور بے بسی ہماری اجتماعی ناکامی ہے، ابراہیم ہمیں معاف کر دینا۔اداکارہ فاطمہ آفندی نے حکام کی نااہلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں روپے ای چالان سے وصول کیے جاتے ہیں مگر سڑکوں پر مین ہول کے ڈھکن لگانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ماہرہ خان نے واقعے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد لکھا کہ ماں کا اپنے بچے کے لیے بلک بلک کر رونا دل دہلا دینے والا ہے، اس حادثے کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ ایسی بے حسی ناقابلِ برداشت ہے۔سجل علی نے بھی شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دل توڑ دینے والا حادثہ ہے، شرم آنی چاہیے اس شخص یا ادارے کو جو اس کا ذمہ دار ہے، کراچی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس ناکام نظام کی جواب دہی کون کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ جو شہر لاکھوں لوگوں کو سہارا دیتا ہے، اس کے تحفظ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔علاوہ ازیں دیگر شوبز شخصیات نے بھی ننھے ابراہیم کی حادثے میں انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پوتے کی جان انتظامی غفلت کے باعث گئی، گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والے کمسن ابراہیم کے دادا بھی غمزدہ
  • کراچی: کھلے مین ہول میں گرنے کا ایک اور واقعہ، بچی کی جان بچ گئی
  • سانحہ نیپا شہر میں جاری بد انتظامی و غفلت کا نتیجہ ہے‘ جاوداں فہیم
  • کراچی شہرکا المیہ
  • کراچی میں ایک اور واقعہ، کھلے مین ہول میں بچی گرگئی
  • کراچی میں ایک اور واقعہ، بچی کھلے مین ہول میں گرگئی، ریسکیو
  • ڈھکن گٹر پر نہیں، کرپشن پر لگانا ہوگا، یاسر حسین کا حکومت پر طنز
  • لاؤس پیپلز ریولیوشنری پارٹی نے کھلے پن کے امور میں قابلِ قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں، چینی صدر
  • کراچی نیپا چورنگی حادثہ، شوبز شخصیات کا انتظامیہ کی غفلت پر شدید ردِعمل