عالمی فوجداری عدالت: امن معاہدے کے باوجود پیوٹن کے وارنٹ گرفتاری ختم نہیں ہونگے
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کے مطابق جنگی جرائم میں مطلوب روسی صدر اور ان کے ساتھ دیگر پانچ روسی حکام کے وارنٹ گرفتاری امن معاہدے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہیں گے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کی طرف سے یہ بات جمعہ کے روز کہی گئی ہے۔ فوجداری عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سینیگال سے تعلق رکھنے والی میم مینڈیائے نیانگ اور فجی سے تعلق رکھنے والی نزاہت شمیم خانیہ نے یہ بات اپنے بیان میں کہی ہے۔
یہ دونوں ڈپٹی پراسیکیوٹرز بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کی جگہ پر تحقیقات و تفتیش کے امور انجام دے رہی ہیں۔ چیف پراسیکیوٹر ان دنوں رخصت پر ہیں۔
ان پراسیکیوٹرز کے بقول بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کیا جانا ضروری ہو گی۔ تب جا کر وارنٹ گرفتاری معطل ہو سکیں گے۔
یاد رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روس کے صدر ولادی میر پوتین اور دیگر پانچ اعلیٰ روسی حکام کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں وارنٹ گرفتاری یوکرین پر روسی جنگی یلغار کی وجہ سے جاری کر رکھے ہیں۔ یوکرین جنگ فروری 2022 سے جاری ہے۔ جسے ماہ فروری 2026 میں چار سال مکمل ہو جائیں گے۔
روسی صدر پوتین اور روس کی چائلڈ رائٹس کمشنر لووا بیلووا پر الزام ہے کہ ان دونوں نے غیر قانونی طور پر سینکڑوں بچوں کو یوکرین سے ڈی پورٹ کیا تھا۔
دوسری جانب روس کی طرف سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے نیز جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بھی تردید کی جاتی ہے۔
روس کے جن دیگر اعلیٰ ذمہ داروں کو جنگی جرائم کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے ان میں روس کے سابق وزیر دفاع سرگئی شائق روسی جرنیل ولیری گراسیموف بھی شامل ییں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں اور معصوم سویلینز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دو ڈپٹی پراسیکوٹرز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا امن معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت سلامتی کونسل میں معاملہ جاتا ہے اور سلامتی کونسل بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وارنٹ گرفتاری ختم کر دیے جائیں تو صرف اس صورت میں وارنٹ واپس ہو سکتے ہیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نزاہت شمیم خان نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی بنیادی دستاویز اور دائرہ کار کا ذکر کرتے ہوئے کہا لیکن جہاں تک بین الاقوامی فوجداری عدالت کا تعلق ہے یہ اپنے طور پر ایسا نہیں کرے گی بلکہ انصاف کی بالادستی کے لیے ہر اقدام اور آخری حد تک جائے گی۔
یاد رہے ماہ نومبر کے دوران امریکی تیار کردہ امن منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
یوکرین اور یورپی ملکوں نے اس امریکی امن منصوبے کو روس کے سامنے جھک جانے والی دستاویز کے طور پر شک بھری نگاہ سے دیکھا ہے۔ کیونکہ اس امن معاہدے میں روسی مطالبات تسلیم کیے جانے کے علاوہ جنگ میں ملوث تمام فریقوں کو ہر طرح کے جرائم سے عام معافی بھی مل سکے گی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیانگ کے مطابق ہم نے سلامتی کونسل کے جس راستے کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہم اپنے قانون کے پابند ہیں، قانون کے سامنے جو ان میں سے کچھ سیاسی انتظامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے بھی عام معافی دینے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ نیدرلینڈز میں یوکرینی سفیر اینڈری کوسٹن، جو اس سے قبل پراسیکیوٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے عام معافی کے خیال کو مکمل مسترد کیا ہے۔
خیال رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے 125 ملک رکن ہیں۔ جبکہ امریکہ سمیت کئی اہم طاقتیں اس فوجداری عدالت کی رکن ہیں نہ اسے تسلیم کرتی ہیں۔ بلکہ اس پر بالعموم تنقید کرتی اور پابندیاں لگاتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری سلامتی کونسل جنگی جرائم میں ملوث روس کے
پڑھیں:
برطانیہ میں نوویچوک قتل کیس: پیوٹن ذمہ دار قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی عدالت نے 2018 کے نوویچوک زہر کے مشہور واقعے کی انکوائری رپورٹ عام کر دی، جس میں کہا گیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکرپل کے قتل کی منظوری دی تھی۔
(نوویچوک ایک انتہائی زہریلا کیمیائی ایجنٹ ہے جو عصبی نظام کو متاثر کرتا ہے، یہ بنیادی طور پر روس میں تیار کیا گیا تھا اور اسے فوجی اور خفیہ کارروائیوں میں استعمال کے لیے بنایا گیا۔)
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ زہریلے پرفیوم کے ذریعے قتل کی سازش ایک انتہائی خطرناک کارروائی تھی، جس میں ایک بے گناہ خاتون ڈان سرجیس ہلاک ہوگئیں، مارچ 2018 میں سرگئی اسکرپل اور ان کی بیٹی یولیا کو سالسبری میں بے ہوش حالت میں پایا گیا تھا جب کہ ان کے گھر کے دروازے پر نوویچوک زہر لگا ہوا تھا، اس حملے میں سرگئی محفوظ رہے۔
چار ماہ بعد روسی ایجنٹس نے ایک زہریلی پرفیوم کی بوتل سڑک پر پھینکی، جسے ایک راہگیر نے اپنی ساتھی ڈان سرجیس کو دے دیا، خاتون نے اسے پرفیوم سمجھ کر کپڑوں پر چھڑکا، جس سے وہ فوری طور پر ہلاک ہوگئیں اور ان کا ساتھی شدید بیمار ہوا۔
سپریم کورٹ جج انتھونی ہیوز کے مطابق یہ کارروائی روسی ملٹری انٹیلیجنس جی آر یو کی خصوصی ٹیم نے کی اور اس نوعیت کی کارروائی صرف صدر پیوٹن کی منظوری سے ممکن تھی، زہریلی بوتل میں موجود نوویچوک ہزاروں لوگوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی۔
برطانوی حکومت نے رپورٹ کے بعد روس کی جی آر یو پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور روسی سفیر کو طلب کیا گیا ہے، روس نے ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور لندن میں روسی سفارت خانے کی جانب سے فوری ردعمل نہیں آیا۔
یہ دوسری مرتبہ ہے کہ برطانوی تحقیقات نے روسی صدر پیوٹن کو لندن میں سابق روسی ایجنٹوں کے قتل کی کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ 2016 کی انکوائری میں بھی پیوٹن کو سابق ایجنٹ الیگزینڈر لیتوینینکو کے قتل کا ممکنہ ذمہ دار بتایا گیا تھا۔