Juraat:
2025-12-07@13:07:48 GMT

چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف

حمیداللہ بھٹی

سفر نت نئی ملاقاتوں کاوسیلہ بنتے ہیں ۔مختلف رہن سہن اور معاشرت جاننے کے ساتھ ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اب توذرائع آمدورفت اورتیزتر مواصلاتی رابطوں نے دنیاکو گلوبل ویلیج بنا دیاہے۔ اب ہر ایک کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت دنیا کے حالات جاننابہت آسان ہے مگر جولطف سیاحت میں ہے ۔وہ ریکارڈ شدہ مواد دیکھ کرنہیں آتا۔ حالاتِ حاضرہ سے آگاہی رکھنے والوں کی طرح دنیا میں ایسی تعداد بھی کافی ہے جو ملک ملک اور نگر نگرگھوم پھر کر قدرت کی تخلیقات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اِس مقصدکے لیے لاکھوں کی تعدادمیں سیاح ذوقِ جمال کی تسکین کے لیے دنیاکے ہرخطے میں سرگرداںہیں حالانکہ درجنوں ممالک میں جاچکاہوں مگر کچھ علاقے یا شہر ایسے ہیں جہاں جاکر بندہ کھو سا جاتا ہے پولینڈ کے دارلحکومت وارسا میں گھومنے کے بعد میرے کچھ ایسے ہی احساسات ہیں ۔
کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اُترنے کے بعد ہمارامختصر سا قافلہ جائے قیام مالموکی طرف روانہ ہوا۔مذکورہ دونوں شہروں کے درمیان آبنائے اوریسنڈ ہے جس پر بنایا گیاتاریخی پُل ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن اور سویڈن کے شہر مالمو کوآپس میں جوڑتا ہے 7845میٹر طویل یہ یورپ کا سب سے طویل پُل ہے ۔سڑک ،سرنگ اور ریل کی وجہ سے اِسے سہ قِسمی کہہ سکتے ہیں۔ 1995 میں شروع ہوکر یہ پُل 14 اگست 1999میں مکمل ہو گیا۔ جولائی 2001میں میں ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ ثانی اور سویڈش ہم منصب کارل گسٹاف نے افتتاح کرتے ہوئے اِسے عام آمدورفت کے لیے کھول دیا ۔دونوں ممالک کویقین ہے کہ اِس کی مکمل لاگت 2035 تک وصول کرلیں گے اِس پُل سے روازنہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں ۔یہ دونوں ممالک میں ایسی سفری سہولتوںکا باعث ہے جس سے کام کاج کے سلسلے میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں شہریوں کوسہولت ہوئی ہے۔ وہ کام کاج کے بعد شب بسری کے مقام پر باآسانی آسکتے ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے سویڈن کا تیسرا بڑا شہر مالمو ایک پُر امن اور خوبصورت شہرہے جو قدیم وجدید کا حسین امتزاج ہے ۔اِس کی جہاز سازی کی شہرت کے باعث ہی ہم نے طے کیا کہ مالمو سے وارسا جانے کے لیے جتناممکن ہو بحری جہاز سے سفر کیاجائے۔
چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف ،نصف شب سے قبل میزبان ارشاد ناظر کی ہمرکابی میں مالمو سے کوچِ سفرکیا شہرکی بندرگاہ پر موجودایک کثیر منزلہ بحری جہاز پر سوار ہونے کے لیے ٹکٹ دکھاکر اجازت حاصل کرنے جیسے مراحل طے ہوگئے تواپنے کمرے کا رُخ کیا سامان قرینے سے رکھااورسفری زریعے کاجائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے یہ جہاز ایک چلتا پھرتا شہر تھا ،گاڑیوں و بسوں کی وسیع پارکنگ کے علاوہ خریداری کے لیے دکانیں اور بکثرت تفریحی لوازمات تھے۔ میرایہ پہلا طویل سمندری سفر تھا۔ اِس لیے مختلف جہاز ڈوبنے کی کہانیاں زہن میں تھیں لیکن سپیدہ سحر سے قبل جہاز نے بحفاظت پولینڈ کی سرزمین پر پہنچا دیا تو ہم نے پولینڈکے دارلحکومت وارسا کی راہ لی۔ وسطی یورپ کایہ ملک زرعی اجناس کے لیے یورپ میں اہم مقام کاحامل ہے ۔یہ دنیامیں سرسوں کی پیدوار میں دوسرے اور سیب کی پیدوارمیں تیسرے نمبرپرہے۔ آلو،گندم،چینی،تمباکو بھی اہم پیداوار ہیں جرمنی ،روس،بیلا روس ،یوکرین ،چیک اور سلواکیہ میں گھراچار کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک آبادی کے حوالہ سے یورپی یونین کاپانچواں بڑاملک ہے ۔گاڑی سڑک پر فراٹے بھرتی جارہی تھی اور اطراف میں میلوں طویل سرسوں کے کھیت تھے ۔یوں لگتا تھا جیسے کسی نے پیلا رنگ کر دیا ہے فطرت کے یہ رنگ فرحت بخشی کے ایسے احساس اورلطف کوجنم دے رہے تھے جسے الفاظ کاپیراہن پہنانابھی پُرلطف ہے ۔
پولینڈجانے کی دیگر جوہات کے ساتھ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ روس و یوکرین جنگ کے یہاں کیا اثرات ہیں؟ آیالوگ پریشان ہیں یا بے نیازی سے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہیں ؟نیز روسی جارحیت نے پولینڈ کو کِس حدتک متاثر کیاہے؟وارسا پہنچے توروسی جارحیت کے اثرات بہت محسوس ہوئے اور یہاں کئی طرح کی تبدیلیوں کا احساس ہوا ۔ وارسا شہرکو1955میں اُس وقت عالمگیر شہرت حاصل ہوئی جب وسطی اور مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں نے چودہ مئی 1955کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے کسی ایک ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہواتو معاہدے میں شامل تمام ممالک ملکر دفاع کریں گے جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔
وارسا شہرکے بارے میں سستا ہونے کی کافی کہانیاں سُن رکھی تھیں جوپہنچنے پر محض زیبِ داستان اور افسانہ معلوم ہوئیں یورپی یونین کا حصہ ہونے کی بناکر یورومیں خریدوفروخت کی جا سکتی ہے مگرمقامی کرنسی زلوٹی کی بھی اہمیت ہے کیونکہ اگر آپ نے کوئی سرکاری ادائیگی کرنی ہے تو لازم ہے آپ کے پاس مقامی کرنسی ہو وگرنہ مشکل پیش آسکتی ہے۔ مزید خاص بات یہ کہ اِس حوالے سے مقامی لوگ مددگار نہیں ہوتے۔ یہاں چند ایک مصروفیات تھیں جن سے فراغت ہوئی تو دوپہرکے کھانے کاوقت ہوچکا تھاجس کی میزبانی خوش اخلاق چوہدری شمریز نے کی جن کاگجرات کے گائوں ساکہ سندوعہ سے تعلق ہے۔ ذاتی تجربے کی روشنی میں کہوں گاکہ دنیا کے ہر ملک میں گجرات کے شہری موجود ہیں جس ملک بھی گیاہوں میرے حصے گجراتیوں کی محبت اوراحترام والی مہمان نوازی آئی گجرات کے لوگ مہمان نوازہونے کے ساتھ ملنساربھی ہوتے ہیں۔ ہماراکھانا وارسا کے وسط میں لاہور ریسٹورنٹ پر رکھاگیاتھا۔ ایک یورپی ملک میں لاہورسے محبت دیکھ کردل سے آواز آئی کہ واقعی لاہور لاہو رہے اور اِس کا کوئی ثانی نہیں۔ لاہور ریسٹورنٹ پر ایشیائی کے ساتھ یورپی کھانے بھی ہیں اِس بڑی ضیافت میں دوران طعام تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا۔
پولینڈ کوئی امیر ملک نہیں اسی لیے یہاں تارکینِ وطن زیادہ کشش محسوس نہیں کرتے ملازمت کے مواقع کم ہیں اور جوہیں وہ بھی اِس بناپر زیادہ اہم نہیں سمجھتے جاتے کہ تنخواہیں قلیل ہیں اسی لیے تارکین ِ وطن کی پولینڈکے بعد اگلی منزل یورپ کے دیگر امیر ممالک فرانس ، جرمنی، بیلجئم ، سوئس اور اسکنڈے نیوین ہوتی ہے جہاں پُرکشش تنخواہیں ملتی ہیں ۔اِس کے باوجود پاکستانیوں ،بھارتیوں ،بنگلہ دیشیوں کی تعدادمحتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اِس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے تعلیمی اِدارے غیر ملکی طلباکوداخلے دیتے وقت نہ صرف فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ سفارتخانے بھی ویزہ دیتے وقت غیر ضروری اعتراضات نہیں لگاتے۔ دورانِ تعلیم اور بعد میں یہ ملک رہنے اور ملازمت دینے میں کافی نرمی اور رحمدلی سے کام لیتا ہے۔ اِسی بناپرتوپولینڈ کو تارکینِ وطن یورپ میں داخلے کے لیے گیٹ وے کہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کے ساتھ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی

اسلام ٹائمز: مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اپنی نئی قومی سلامتی کی دستاویز میں دعویٰ کیا ہے کہ یورپ کی تہذیب اگلے دو دہائیوں کے اندر تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ہنگامہ خیز دستاویز میں امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یورپ میں امریکہ کے بعض قدیم ترین اتحادی ممالک ناقابل کنٹرول ہجرت کے باعث آئندہ 20 سال میں سنگین اور حقیقی تہذیبی زوال کے امکان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس متنازعہ دستاویز میں یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے بے لگام ہجرت کی اجازت دے کر اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگا کر موجودہ بحران کو بڑھایا ہے۔

حکمتِ عملی کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو یہ براعظم 20 سال یا اس سے بھی کم عرصے میں ناقابلِ شناخت ہو جائے گا۔ دستاویز میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا بعض یورپی ممالک کے پاس اتنی مضبوط معیشتیں اور فوجی طاقت باقی رہے گی کہ وہ امریکہ کے قابلِ اعتماد اتحادی بنے رہ سکیں۔ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی دستاویز میں یورپ کے روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اختیار کردہ مؤقف پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ اعتماد کی کمی کا شکار ہے، جو سب سے زیادہ اس کے روس کے ساتھ تعلقات میں نمایاں ہوتی ہے۔

اگرچہ یورپی ممالک کے پاس روس کے مقابلے میں سخت طاقت (یعنی فوجی طاقت) میں قابلِ ذکر برتری ہے، لیکن یوکرین جنگ کے باعث وہ اب روس کو بقا کے لئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ امریکی اسٹریٹجی میں بعض یورپی حکومتوں کے یوکرین سے متعلق مؤقف پر بھی تنقید کی گئی ہے اور نامعلوم حکام پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں، جبکہ خود اپنے ممالک میں غیر مستحکم اقلیتی حکومتیں چلا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ بعض یورپی ممالک میں عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان کی حکومتیں جمہوری عمل کو کمزور کرکے اس عوامی خواہش کو روک رہی ہیں۔

مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔

ٹرمپ کے یورپی تہذیب کے مستقبل پر دعوے:
امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت حکومت نے جاری کی، نہ صرف یورپ کے مستقبل کے بارے میں تشویشات بیان کرتی ہے بلکہ امریکہ یورپ تعلقات کے ممکنہ تناؤ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ دستاویز میں یورپ کی تہذیب، امن، معاشی استحکام اور نیٹو جیسے اہم اتحادوں کے مستقبل پر سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مرکزی دعویٰ: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں بے قابو مہاجرت کے سبب تہذیبی اور سماجی ڈھانچہ بنیادی خطرے سے دوچار ہے۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یورپ 20 برسوں میں شناخت کے قابل نہیں رہے گا۔ یورپی یونین سمیت بین الاقوامی اداروں پر الزام ہے کہ وہ ہجرت کو منظم کرنے میں ناکام رہے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی کو یورپی بحران کی ایک اور وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ سیاسی نوعیت کا ہے اور دائیں بازو کے حلقوں میں موجود بیانیے کی توسیع ہے، جو مہاجرت کو وجود کو لاحق خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار اور سوشل پالیسیوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے، تاہم یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں حقیقی بحث کا موضوع ضرور ہیں۔
۔ یورپ کی سیاسی و عسکری کمزوری پر امریکی تشویش: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کچھ یورپی ممالک کی معیشتیں اور فوجیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ یورپ روس کے بارے میں اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو دفاعی لحاظ سے مزید کمزور اور خوفزدہ بنا دیا ہے۔ یہ نقطہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپ دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں امریکہ پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ یورپی یونین اندرونی اختلافات، مہنگائی اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نیٹو میں امریکہ کے بوجھ سے بارہا ناخوشی کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تنقید اس وسیع تر امریکی پالیسی رجحان کا حصہ ہے جو یورپ سے زیادہ عسکری خود مختاری کی توقع رکھتی ہے۔
۔ نیٹو کا مستقبل، کیا یہ اتحاد کمزور ہوگا؟: دستاویز کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چند دہائیوں میں نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بنا سکتے ہیں۔ یہ بیان صرف آبادیاتی تشویش نہیں بلکہ نیٹو کی شناخت اور اس کے اسٹریٹجک مفادات کے بارے میں سوالات کھڑا کرتا ہے۔ امریکہ یورپی اراکین پر اخراجات بڑھانے اور دفاعی ذمہ داریاں سنبھالنے کا دباؤ بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں نیٹو کے اندر سیاسی ہم آہنگی کم ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں نیٹو ایک غیر مستحکم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔
۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار اور سیاسی سنسرشپ پر تنقید: دستاویز یورپ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ دائیں بازو کی سیاسی سوچ کو سسٹمیٹک طور پر محدود کر رہا ہے۔ میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارمز میں سیاسی درستگی کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے پہلے سے موجود نظریات کی بازگشت ہے۔ یورپ واقعی نفرت انگیز تقریر کے قوانین کو سخت کر رہا ہے، لیکن انہیں تہذیب کے زوال کا ثبوت قرار دینا سیاسی الزام کے دائرے میں آتا ہے نہ کہ سائنسی تجزیے میں۔

یورپ، امریکہ تعلقات پر ممکنہ اثرات:
دستاویز کا سخت لہجہ مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اس کا مثبت رخ ہے، یورپ دفاعی خودمختاری کی طرف مائل ہو سکتا ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان عملی تعاون میں نئے ڈھانچے تشکیل پا سکتے ہیں۔ اور منفی پہلو یہ ہے، سفارتی تناؤ میں اضافہ، نیٹو کی کمزور ہوتی داخلی ہم آہنگی، یورپی ممالک کا امریکی پالیسیوں پر عدم اعتماد۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی دستاویز ایک سخت سیاسی بیانیہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد یورپ پر دباؤ بڑھانا، مہاجرت مخالف ایجنڈے کو تقویت دینا، اور نیٹو میں امریکی بوجھ کم کرنے کے لیے رائے عامہ تیار کرنا ہے۔ اگرچہ یورپ کو واقعی آبادیاتی، سیاسی اور دفاعی چیلنجز درپیش ہیں، لیکن "20 سال میں یورپی تہذیب کے خاتمے" کا دعویٰ مبالغہ آمیز اور سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی پالیسی نے یورپ میں ہلچل مچا دی
  • امریکی صدر ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی اسٹریٹیجی جاری، یورپ کو نشانے پر لے لیا
  • یورپ 2027 تک نیٹو کی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال لے: امریکا
  • 20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی
  • افغان ڈیموکریٹک اپوزیشن نے خطے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا
  • افغان ڈیموکریٹک اپوزیشن نے طالبان سے یورپ سمیت خطے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا
  • ایف آئی اے نے جعلی دستاویزات پر یورپ جانے کی کوشش ناکام
  • ایران: پاسداران انقلاب کی خلیج میں مشقوں کے دوران امریکی جہاز کو وارننگ
  • یوکرینی صدر زیلنسکی ڈرون حملے میں نشانہ بننے سے بچ گئے
  • لاہور میں رثائی ادب کانفرنس 14 دسمبر 2025ء کو منعقد ہوگی