اسلام ٹائمز: اب اگر کوئی پوچھے کہ "کچھ خالص ہے؟؟" تو میں جواب دیتا ہوں: ہاں۔۔۔۔ جھوٹ، دھوکہ، فریب، لالچ، نفاق، کذب، بددیانتی اور بد نیتی۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی خالص ہیں، نہ ان میں خوف کی آمیزش ہوئی۔۔۔۔۔۔ نہ شرم کی۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی انسان تھے۔۔۔۔۔۔۔ اب صرف تصویر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص نہیں۔۔۔۔۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.
بازار میں سب کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوکہ، وعدے، دعوں کی گونج اور ضمیر کی قیمت۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کچھ خالص نہیں۔۔۔۔۔
یہ وہ عہد ہے، جہاں ہر سچ کے ساتھ کوئی مفاد منسلک ہے۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ہر جذبہ کسی مصلحت کے تحت پروان چڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور ہر لفظ کے پیچھے ایک خفیہ سودا چھپا ہے۔۔۔۔۔۔۔
دکاندار اطمینان سے کہتا ہوا نظر آتا ہے:
"یہ تیل خالص ہے!"
میں مسکرایا اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ —
اگر جھوٹ کو بھی ناپ کر بیچا جا سکتا،
تو یہ بازار فریب کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہوتا۔
چند قدم آگے بڑھا تو گلی کے نکڑ پر ایک مدرسہ دیکھا۔
جہاں واعظ مفاخرانہ انداز میں گویا تھا
"بس ہمارا ہی مسلک خالص ہے!"
میں نے سنا ضرور مگر سمجھ نہ سکا۔۔۔۔۔
اور یہی سوچتا ہوا چل دیا کہ
جب خدا کے نام پر بھی تجارتی مقابلے شروع ہو جائیں،
تو پھر ابلیس کو نئی منڈی تلاش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اداروں کے دروازوں پر "میرٹ" کے سنہری بورڈ آویزاں ہیں۔۔۔۔۔۔
مگر اندر کی فضا سفارش سے آلودہ ہے۔
حکومت "عوام کی خدمت" کے نعرے تو لگاتی ہے،
مگر عوام کے نصیب میں غربت ، بھوک و افلاس، امیدیں، بجلی کی بندش، پانی کی قلت، ٹیکسوں کا بوجھ اور کبھی تو دن بدلیں گے جیسی آس ہی ہے۔۔۔۔۔۔
ہاں یہاں اگر کچھ خالص ہے تو وہ ہے انتظار۔۔۔۔۔۔
کہ ممکن ہے کوئی آس حقیقت کا روپ دھار لے۔۔۔۔۔۔
کسان "خالص بیج" کی تلاش میں نکلا تو ہے
مگر لوٹا تو قرض، کیمیکل اور تھکن کی پوٹلی اٹھائے۔
مزدور "مزدوری" ڈھونڈتا ہے تو
اُسے ادھورا پیٹ، آدھی اُجرت اور مکمل بے بسی ہی ملتی ہے۔
مذہب کے بازار میں "نجات" کے دروازے بالکل بند ہیں اور اگر کچھ ہے تو وہ ہر عمل پر صرف سزا ہی سزا۔۔۔۔۔۔۔
ہر فتوے پر نیا لیبل، نئی تشریح، نئی شرط۔
میں سوچتا ہوں۔۔۔۔۔۔
جب حق کی بھی ذیلی شاخیں بن جائیں،
تو باطل کو اپنی شناخت کی فکر کیوں ہو؟
محلے کے بزرگ اکثر ماضی کا نوحہ پڑھتے ہیں:
"بیٹا! پہلے وقتوں میں سب کچھ خالص تھا۔۔۔۔ نیتیں، رشتے، وقت، انسان اور دعائیں۔"
میں سوچتا ہوں:
"پھر ملاوٹ کہاں سے آئی؟"
پر کوئی جواب نہیں۔۔۔۔۔۔
شاید ہم سب نے تھوڑا تھوڑا زہر
اپنی آسانیوں کے عوض خرید لیا۔
اور اب روح کے خمیر میں بھی کیمیائی ملاوٹ شامل ہوچکی ہے۔
سیاست دان ایمان بیچتے ہیں،
مولوی فرقے۔۔۔۔۔۔۔
استاد نمبر۔۔۔۔۔۔۔
اور میڈیا خوف۔۔۔۔۔۔
سب کے کاروبار رواں ہیں،
سب کامیاب ہیں۔۔۔۔۔
بس سچ کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔۔۔۔۔۔
ہم نے "خالص" کو خود دبا دیا۔۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ اس منڈی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔۔۔۔۔۔
وہ سستا نہیں۔۔۔۔۔۔
وہ نمائشی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ صرف سچ ہے۔۔۔۔۔۔
اور سچ کا سب سے بڑا جرم یہی ہے
کہ وہ جھوٹ کی طرح دلچسپ نہیں۔۔۔۔۔۔
اب اگر کوئی پوچھے کہ
"کچھ خالص ہے؟؟"
تو میں جواب دیتا ہوں:
ہاں۔۔۔۔ جھوٹ، دھوکہ، فریب، لالچ، نفاق، کذب، بددیانتی اور بد نیتی۔۔۔۔۔۔
وہ اب بھی خالص ہیں
نہ ان میں خوف کی آمیزش ہوئی۔۔۔۔۔۔
نہ شرم کی۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی انسان تھے۔۔۔۔۔۔۔
اب صرف تصویر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص نہیں۔۔۔۔۔
خلوص اب نایاب جنس ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور سچ وہ پرندہ ہے، جسے ہم نے اپنی آسائش کی آگ میں خود جلا دیا۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کچھ خالص ہے
پڑھیں:
آج عالمی سطح پر کوئی بھی بیٹھک پاکستان کے بغیر نہیں ہوتی: علی پرویز ملک
—فائل فوٹووفاقی وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ آج عالمی سطح پر کوئی بھی بیٹھک پاکستان کے بغیر نہیں ہوتی ہے اور مختلف ممالک کے وفد پاکستان کے دورے کر رہے ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت قائم ہوئی ہے، ہماری فوج اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ معرکہ حق میں تینوں فورسز نے مثالی کام کیا۔ میں اور پوری قوم سید عاصم منير کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نوٹ چھاپ کر خسارے پورے کرتے ہیں تو مہنگائی جنم لیتی ہے، ٹیکسوں کو بڑھایا گیا، اخراجات کو کم کیا گیا، ہم نے مل کر پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہے۔
وفاقی وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوئی ہے جس سے گیس کی طلب میں بڑی کمی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں کی وجہ سے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں پر قابو پایا جا رہا ہے، ہمارا معاشی نظام ہم نے مل کر ٹھیک کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دیوالیہ پن کی گفتگو جو گونجتی تھی اس کو کنارے لگا دیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے نوجوان نسل کو کس طرح روزگار مہیا کرنا ہے، جب معشیت چلنا شروع ہوتی ہے تو وسائل کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں کی وجہ سے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں پر قابو پایا جا رہا ہے۔