بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کیلئے خود کو ‘دہشت گردی کا شکار’ظاہر کر رہا ہے، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور امریکہ انسداد دہشت گردی مشترکہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہونے کے بھارت کے دعوے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے اپنے ریکارڈ اور پاکستان کے خلاف جارحانہ عسکری عزائم کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت اور امریکہ نے مشترکہ طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے طور پر متعدد تنظیموں پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور سیاسی اختلاف کو دبانے میں ملوث ہے۔ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ کشمیری بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں کشمیر سے متعلق اہم پیش رفت بھارت کے بیانیے کو مزید کمزور کرتی ہے۔ بھارت نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ 2019ء میں 227، 2022ء اور 2023ء میں 1,200 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری سیاسی کارکنوں، طلباء اور عام شہریوں کو مجرم بنانے کے لیے اس کالے قانون یو اے پی اے کو نافذ کیا گیا ہے۔ بھارتی پولیس کے سربراہ نے کشمیریوں کے قاتل ولیج ڈیفنس گارڈز کو ضم کرنے کے مطالبہ کیا ہے جس سے کشمیریوں کو مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد اور قتل عام کا سلسلہ دوبارہ شروع کئے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ 2019ء کے بعد سے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے جعلی مقابلوں اور دوران حراست قتل میں ملوث ہیں۔ ادھر بھارت نے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
معروف بھارتی صحافی منیش پرساد کے مطابق بھارتی وزیر دفاع بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے 125 نئے منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان میں تزویراتی طور پر حساس شیوک ٹنل کا منصوبہ بھی شامل ہیں اور یہ منصوبے کشمیریوں کو سہولتوں کی فراہمی یا علاقے کے مفاد کے لیے نہیں ہے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے لداخ کے ساتھ جنگی نقطہ نظر پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے کے بارے میں اس کا جارحانہ طرز عمل اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے نوآبادیاتی منصوبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کا اصل چیلنج دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی خواہاں ہے، تو اسے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے کے مطابق بھارت کے کہ بھارت
پڑھیں:
بھارت جموں و کشمیر کے تئیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے، محبوبہ مفتی
سرینگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے تئیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے مفاہمت کا عمل شروع کرے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2019ء میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے کہا تھا کہ کشمیر میں حالات اب ٹھیک ہیں، لیکن زمینی صورت حال کچھ اور بتاتی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ میرے خیال میں بھارتی وزیراعظم، وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کو جموں و کشمیر کے تئیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی شکایات کو دور کرنے کے لیے مفاہمت کی ضرورت ہے۔یہاں کے لوگ عزت اور وقار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ بھارتی این آئی اے اور دیگر ایجنسیاں انہیں تنگ نہ کریں اور ان پر ”یو اے پی اے اور پی ایس اے” جیسے کالے قوانین لاگو نہ ہوں۔