Juraat:
2025-10-23@04:16:22 GMT

کرکٹ سیاسی تعصب کے حصار میں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

کرکٹ سیاسی تعصب کے حصار میں

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

دنیا کے ہر میدان میں سیاست کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر کرکٹ وہ واحد کھیل سمجھا جاتا تھا جہاں باہمی عزت، اصول اور کھیل کا جذبہ سیاست پر غالب رہتا تھا۔ برصغیر میں کرکٹ محض کھیل نہیں بلکہ ایک ثقافتی روایت، جذبے اور شائستگی کی علامت تھی۔ مگر آج وہی کھیل، جو دوستیوں کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتا تھا، اب نفرت، تعصب اور سیاسی اثر و رسوخ کی زد میں آ چکا ہے ۔ بھارت کی موجودہ قیادت نے کرکٹ کو اپنی سیاسی اثر انگیزی کا ذریعہ بناتے ہوئے اسے سفارتی اور نظریاتی کشمکش کا حصہ بنا دیا ہے ۔ اب بھارتی کھلاڑی امن کے نمائندے نہیں رہے بلکہ قومی بیانیے کے پرچار کرنے والے بن چکے ہیں، جہاں ہر میچ کو سیاسی برتری سے جوڑا جا رہا ہے ۔
پاکستان نے ہمیشہ کرکٹ کو ایک کھیل کے طور پر دیکھا، دشمنی کے طور پر نہیں۔ مگر گزشتہ چند برسوں میں بھارت کے رویے نے یہ تاثر ختم کر دیا ہے کہ کھیل سیاست سے پاک رہ سکتا ہے ۔ بھارتی میڈیا، اسٹیڈیم کے نعرے ، اور بورڈ کے فیصلے سب ایک سمت اشارہ کرتے ہیں کہ اب کرکٹ کی باگ ڈور صرف کھیل کے ماہرین کے ہاتھ میں نہیں رہی بلکہ سیاسی ایجنڈوں کے تابع ہو گئی ہے ۔ جب کسی ملک کا کرکٹ بورڈ اپنی حکومت کی نظریاتی سوچ کا ترجمان بن جائے ، تو پھر غیر جانبداری کا تصور دم توڑ دیتا ہے ۔
آج یہی صورتحال آئی سی سی میں دکھائی دے رہی ہے جہاں بھارت کا جے شاہ بطور چیئرمین اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر کھیل کی روح پر سیاست کا سایہ ڈال رہا ہے ۔ ان کے اقدامات اور بیانات نے عالمی سطح پر یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ ایشیائی کرکٹ اب صرف کھیل نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ کا نیا محاذ ہے ۔ کھیل کا وہ اصول جسے ”جینٹلمین گیم” کہا جاتا تھا، اب سیاسی نفرت کے ہتھیار میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
ہندتوا سوچ والے جے شاہ نے جینٹلمین کھیل کو تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ جے شاہ نے کرکٹ کو ہائی جیک کر لیا ہے ۔ وہ جس عہدے پر فائز ہے ، وہاں غیر جانبداری اور وقار سب سے بڑی شرط ہوتی ہے ، مگر ان کے بیانات اور فیصلے بین الاقوامی کرکٹ میں سیاسی تقسیم کو بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک، جو خود سرحد پار دہشت گردی کا شکار ہے ، کے خلاف تعصب پر مبنی بیانات اور اقدامات سے کھیل کی روح مجروح ہو رہی ہے ۔ کھیل کبھی بھی سیاست کا میدان نہیں رہا، مگر بدقسمتی سے ایشیا میں کرکٹ اب سیاست کا ہتھیار بنتی جا رہی ہے ۔حال ہی میں پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (ICC) کے ایک متنازع اور قبل از وقت تبصرے کو مسترد کیا ہے جس میں افغانستان کے کھلاڑیوں کی ہلاکت سے متعلق غیر مصدقہ معلومات پر مبنی موقف اختیار کیا گیا۔ پاکستان نے بالکل درست طور پر کہا ہے کہ آئی سی سی نے افغان کھلاڑیوں کی ہلاکت کی کوئی آزادانہ تصدیق نہیں کی۔ اس طرح کے بیانات کھیل کو سیاسی رنگ دینے اور مخصوص ملکوں کے خلاف عالمی فضا خراب کرنے کے مترادف ہیں۔پاکستان نے واضح طور پر آئی سی سی کے متعصبانہ اور قبل از وقت بیان کو مسترد کر دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک بیان نہیں، بلکہ کھیل کی غیر جانبداری پر حملہ ہے ۔ جے شاہ، جو بھارتی کرکٹ بورڈ کا سیکریٹری اور آئی سی سی کا چیئرمین ہے ، اس کے اثر و رسوخ نے پورے ادارے کی شفافیت پر سوال کھڑا کر دیا ہے ۔ جب ایک ملک کے نمائندے کو اتنا بڑا عالمی عہدہ مل جائے تو اسے تمام ممالک کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے ، مگر جے شاہ کے رویے نے یہ تاثر زائل کر دیا ہے ۔بھارت کی ہندتوا پالیسی اب کھیل کے میدانوں میں بھی دکھائی دینے لگی ہے ۔ پاکستان کے کھلاڑیوں کو ویزے نہ دینا، ان کے پرچموں پر پابندیاں لگانا، اور میچز کے دوران تعصب پر مبنی نعرے لگوانا، یہ سب ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے ۔کھیل قوموں کو جوڑنے کا ذریعہ ہونا چاہیے ، توڑنے کا نہیں، مگر جے شاہ کی پالیسیوں نے کرکٹ کو نفرت، تعصب اور سیاست کے شکنجے میں قید کر دیا ہے ۔
آئی سی سی کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر کھیل کے اصولوں کی پاسداری اور غیر جانبدارانہ ماحول کا فروغ ہے ، لیکن حالیہ برسوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ فیصلوں میں طاقتور ممالک کا اثر بڑھتا جا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر 2023 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے میچز کو جان بوجھ کر متنازعہ وقت اور مقام پر رکھا گیا۔ حتیٰ کہ پاکستان کے کپتان کو میڈیا رسائی سے بھی محدود رکھا گیا۔ یہ سب جے شاہ کی زیرِ نگرانی ہونے والے فیصلے تھے ، جنہوں نے شفافیت پر سنگین سوال اٹھا دیے ۔ایشیا میں کرکٹ کا توازن بگڑتا جا رہا ہے ۔ پہلے یہ کھیل باہمی عزت، دوستی اور مقابلے کا نشان تھا، مگر اب یہ بھارت کی سیاسی طاقت کے مظاہرے کا ایک پلیٹ فارم بنتا جا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا، جو جے شاہ کے زیرِ اثر ہے ، ہر ایشیائی میچ کو قومی انا کے مسئلے میں بدل دیتا ہے ۔ اس فضا میں پاکستان کا مؤقف کہ آئی سی سی کو فوری اپنی غیر جانبداری اور شفافیت بحال کرنی چاہیے ، بالکل بجا ہے ۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ نے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کھیل کو سیاسی اثرات سے بچائیں۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تنازعات کو کھیل کے بجائے سفارتی سطح پر حل کیا جائے ، کیونکہ کھلاڑی دشمنی کے سفیر نہیں بلکہ امن کے نمائندے ہوتے ہیں۔ جب جے شاہ جیسا عہدے دار اپنی قومی اور سیاسی وابستگیوں کو فیصلوں میں شامل کرتا ہے تو نہ صرف کھیل بلکہ ادارے کی ساکھ بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
کرکٹ ایک شریفوں کا کھیل ہے، سیاسی ہتھیار نہیں۔مگر آج کے حالات میں یہ جملہ ایک تلخ طنز بن گیا ہے ۔ بھارتی اثر نے نہ صرف ایشیائی ٹورنامنٹس بلکہ عالمی کرکٹ کے ڈھانچے کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے ۔ چھوٹے ممالک کے بورڈز اب فیصلوں پر کھل کر تنقید نہیں کر سکتے کیونکہ فنڈنگ اور مستقبل کے دورے سب بھارت کے زیرِ اثر ہیں۔دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو یاد ہے کہ 2019 میں جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ ورلڈ کپ میچ میں فوجی کیپ پہن کر کھیلنے کا مظاہرہ کیا تو یہ کھیل کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ مگر آئی سی سی نے
آنکھیں بند کر لیں۔ اگر یہی عمل کسی دوسرے ملک نے کیا ہوتا تو سخت جرمانے اور معطلی کی سزا دی جاتی۔ اس دوہرے معیار نے آئی سی سی
کے کردار پر ہمیشہ کے لیے دھبہ لگا دیا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ ایشیائی ممالک، خصوصاً پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال مشترکہ طور
پر ایک مضبوط موقف اپنائیں تاکہ کھیل کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے ۔ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ آئی سی سی میں اصلاحات کے لیے ٹھوس
تجاویز پیش کریں، شفافیت کے اصول بحال کریں، اور کسی ایک ملک کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے نئے قواعد بنائیں۔ میڈیا اور کھیلوں کے تجزیہ کاروں کو بھی تعصبات سے بالا ہو کر کھیل کی غیرت مندانہ روح کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
یہ لمحہ محض پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ عالمی کھیل کے وقار کے لیے فیصلہ کن ہے ۔ اگر جے شاہ اور ان کے حمایتی کھیل کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتے رہے تو کرکٹ کا وہ سنہرا دور کبھی واپس نہیں آئے گا جب میدان میں صرف کھیل بولتا تھا، سیاست نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی کرکٹ کے تمام فریق ایک غیر جانب دار نظام کے قیام پر متفق ہوں، تاکہ ایشیا اور دنیا بھر میں کرکٹ دوبارہ امن، دوستی اور عزت کا استعارہ بن سکے ۔کھیل امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کوئی قوم یا مذہب ان کی روح کو محدود نہیں کر سکتا۔ کھیل انسانوں کے درمیان دیواریں نہیں، بلکہ دلوں کے درمیان پُل بناتے ہیں۔ ایک کھلاڑی جب میدان میں اترتا ہے تو وہ صرف اپنی ٹیم کا نہیں، پوری انسانیت کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل نے برسوں قوموں کو قریب کیا، دشمنیوں کو کم کیا اور نفرتوں کو دوستیوں میں بدلا۔ مگر افسوس کہ آج یہی کھیل، جسے دنیا ”جینٹلمین گیم ”کہتی تھی، سیاسی اثر و رسوخ، تعصب اور طاقت کے کھیل کا شکار بنتا جا رہا ہے ۔ کھیل اگر سیاست کے تابع ہو جائیں تو ان کی اصل روح مر جاتی ہے ، اور یہی وہ لمحہ ہے جس کا سامنا آج عالمی کرکٹ کر رہی ہے جہاں محبت کے بجائے مفادات، اور اصولوں کے بجائے تعصب کا بول بالا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان نے پاکستان کے سیاسی اثر کر دیا ہے جا رہا ہے میں کرکٹ صرف کھیل کو سیاسی کھیل کی کرکٹ کو کھیل کو کھیل کے رہی ہے کی روح جے شاہ کے لیے

پڑھیں:

مصباح الحق کو اہم ذمہ داری دیے جانے کا امکان

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے سابق کپتان مصباح الحق کو اہم ذمہ داری دیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق مصباح الحق کی ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز انٹرنیشنل تقرری کا امکان ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ نے چند دن قبل ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز انٹرنیشنل کے لیے اشتہار دیا تھا۔

اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ اشتہار میں اہلیت کے لیے پہلی مرتبہ سابق ٹیسٹ کرکٹر یا ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹر کی شرط رکھی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاک بھارت تنازع میں ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز انٹرنیشنل عثمان واہلہ کو معطل کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی دباؤ یا دکھاوا
  • پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں 7 نومبر کو مدمقابل ہوں گی
  • پنڈی ٹیسٹ: تیسرے روز کھیل کا آغاز ہوتے ہی جنوبی افریقا کی پانچویں وکٹ گرگئی ‏
  • پنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی اننگز 333 رنز پر سمٹ گئی، مہاراج کی تباہ کن بولنگ
  • مصباح الحق کو اہم ذمہ داری دیے جانے کا امکان
  • نوجوان ووٹرز :سیاست اور جمہوریت کی نئی طاقت
  • شاہین شاہ آفریدی قومی ون ڈے کرکٹ ٹیم کے کپتان مقرر
  • فیشن ڈیزائنر ہمایوں عالمگیر نے بتایا: کن پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ کھیل چکا ہوں؟
  • کرکٹ بورڈ کی ٹیم بھی اچھی بنائیں