Express News:
2025-12-06@23:17:53 GMT

کیا غزہ میں جنگ بندی دیرپا ہوگی؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

غزہ وہ زمین جو کبھی زیتون کے باغات اور بچوں کی ہنسی سے مہکتی تھی، آج بارود کی بُو اور بے گور و کفن لاشوں سے پہچانی جاتی ہے۔ برسوں سے اس دھرتی پر خون بہتا آ رہا ہے اور ہر بار امن کی بات ایک بوسیدہ وعدے کی طرح دیوارِ گریہ سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے۔ اب پھر ایک نئی جنگ بندی کی خبر ہے مگر کیا یہ صلح دیرپا ہوگی؟ یا یہ بھی ماضی کی طرح ایک عارضی توقف ہے جو پھر کسی فائرنگ کی آواز میں دفن ہو جائے گا؟

ہماری تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر جتنی جنگ بندیاں ہوئیں اتنی ہی بار ان کا گلا گھونٹا گیا، سوال یہ نہیں ہے کہ جنگ بندی ہو گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا امن کا یہ نازک سا پھول ظلم طاقت اور سیاست کی گرد سے بچ سکے گا؟گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی جنگ بندی چند شقوں پر مبنی ہے۔

قیدیوں کا تبادلہ ،اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور انسانی امداد کی اجازت۔ بظاہر یہ خوش آیند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کے پیچھے نیت کتنی سچی ہے؟ کیا ان تحریروں کو عالمی طاقتیں تسلیم کریں گی؟ اور کیا فریقین واقعی ان پر عمل کریں گے؟ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اوسلو معاہدہ ہوا ،کیمپ ڈیوڈ سجا لیکن امن لہو لہان رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی معاہدے کی ہر شق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی نہ بنایا جائے وہ محض کاغذ ہی رہتا ہے۔دوسرا سوال سیاسی نیت کا ہے کیا اسرائیلی حکومت اس معاہدے کو سنجیدگی سے لے گی؟ یا نیتن یاہو جیسے سیاستدان اسے محض وقتی دباؤ سے نکلنے کا راستہ سمجھیں گے؟ کیا حماس کی قیادت کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ تمام گروپوں کو ایک موقف پر لا سکے؟ یا پھر غزہ کی سرزمین پر درجنوں مسلح گروہ کسی ایک نظم میں بندھنے سے انکاری رہیں گے؟

یہ کوئی نیا منظر نہیں ہماری دنیا کی سیاست اپنے مفادات کی گٹھری باندھے انسانی جانوں کو تختہ مشق بناتی آئی ہے۔ فلسطینیوں کا دکھ ان کے بچوں کی لاشیں، ان کی ماؤں کی چیخیں صرف وہی سنتے ہیں جن کے دل میں انسانیت ابھی سانس لیتی ہے۔

باقی سب کے لیے یہ صرف بین الاقوامی مسئلہ ہے جس پر اجلاس تو ہوتا ہے عمل نہیں۔اگر واقعی یہ جنگ بندی دیرپا ہو تو سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ نگران کون ہوگا؟ کیا اقوامِ متحدہ اپنی وہ حیثیت واپس حاصل کر چکی ہے جہاں وہ متحرک کردار ادا کر سکے؟ کیا امریکا اور یورپی یونین اس امن کو مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ان کے الفاظ اب بھی دوغلے ہوں گے جب تک جنگ بندی کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی نہ کی جائے اور کسی فریق کو یہ اعتماد نہ ہو کہ دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہے امن ایک کمزور شمع کی طرح ہوا کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔

ذرا ان ماؤں کا حال سوچیں جو اپنے بچے دفن کر چکی ہیں۔ ان بچوں کا تصور کریں جن کی آنکھوں نے اسکول کی جگہ صرف ملبہ دیکھا۔ وہ گھر جو اب صرف مٹی ہیں۔ جنگ بندی ان سب کے لیے ہے مگر یہ تب ہی دیرپا ہوگی جب ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔ اگر صرف بمباری رکنے کو امن سمجھا گیا تو یہ فریب ہے۔ امن وہ ہے جب اسپتال ہوں اسکول کھلیں بچے کھیلیں اور کسی فلسطینی ماں کو خوف نہ ہو کہ اگلی صبح اس کا بیٹا واپس آئے گا یا نہیں۔

امن کی پہلی شرط ہے انصاف۔ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق ان کی زمین، ان کی خودمختاری اور ان کی عزت واپس نہیں ملتی، کوئی جنگ بندی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک نکتہ ہے جس پر دنیا آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

اسرائیلی مظالم، بستیوں کی تعمیر، جبری انخلا اور فلسطینی عوام کو دہشت گرد کے لقب سے پکارنا یہ سب امن کے خلاف زہر ہیں۔ اگر دنیا واقعی جنگ بندی کو دیرپا دیکھنا چاہتی ہے تو اسے صرف میز پر نہیں میدان میں انصاف کرنا ہوگا۔یہ جنگ بندی ایک لمحہ سکون ہے جیسے کوئی زخمی ماں اپنے مردہ بچے کو آخری بار سینے سے لگاتی ہے۔ خاموش نڈھال مگر پھر بھی سینے میں امید کی کوئی ننھی سی چنگاری باقی ہے۔ کیا دنیا اس چنگاری کو بجھنے دے گی؟ یا اس پر ہاتھ رکھ کر اسے ہوا دے گی؟ یہی سوال ہے اور یہی امتحان۔

جنگ بندی کے بعد کیا پھر غزہ کی زمین پر زندگی لوٹ آئے گی؟ کیا وہ بچے جو مہینوں سے تعلیم سے محروم ہیں، پھر سے اسکول جا سکیں گے؟ کیا وہ مائیں جن کے بچے ان سے جدا ہو گئے کسی نئی صبح کی امید میں آنکھ کھول سکیں گی؟ یا پھر سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف توپوں کا خاموش ہونا امن نہیں ہوتا۔ امن وہ ہے جو دلوں میں اُترتا ہے جو خوابوں کو جنم دیتا ہے جو نسلوں کو ایک نئے مستقبل کا حوصلہ دیتا ہے، اگر غزہ کے نوجوان اب بھی ایک ویران ملبے میں جنم لیں گے اگر ان کی زندگی صرف جدوجہد اور موت کے بیچ جھولتی رہے گی تو پھر ہم نے امن نہیں صرف خاموشی پیدا کی ہے۔

یہ صرف غزہ کا امتحان نہیں یہ پوری دنیا کا امتحان ہے۔ وہ دنیا جو انسانی حقوق کی علمبردار بنتی ہے جس کے ایوانوں میں جمہوریت کے گیت گائے جاتے ہیں اگر وہ خون میں لت پت معصومیت کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی تو پھر وہ اپنے ہی دعوؤں سے منہ موڑ چکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیرپا ہو سوال یہ کے لیے کی طرح

پڑھیں:

پیوٹن 2 روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے، دو طرفہ تعلقات کی نئی سمت کیا ہوگی؟

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جمعرات کو 2 روزہ دورے پر بھارت پہنچے، جو ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان تقریباً 8 دہائیوں پر محیط مضبوط شراکت داری کو اجاگر کرتا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر کریملن کے سربراہ نئی دہلی میں ہونے والی بھارت۔روس سالانہ سربراہ ملاقات کے 23 ویں اجلاس میں شرکت کریں گے۔

یہ صدر پیوٹن کا 2022 میں یوکرین پر روس کے بڑے حملے کے بعد بھارت کا پہلا دورہ ہے۔

دونوں ممالک نے اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو مزید مضبوط بنانے کا اشارہ دیا ہے، جو 2010 میں دو طرفہ تعلقات کا باضابطہ درجہ قرار دیا گیا تھا۔

India’s PM Narendra Modi broke with tradition, greeting Russian President Vladimir Putin with a warm hug instead of a handshake as he stepped off the plane in New Delhi.

Putin is on a two-day state visit looking to shore up economic, defense and energy ties. pic.twitter.com/FmjT9ygUeb

— DW News (@dwnews) December 5, 2025


دورے سے قبل صدر پیوٹن کے چیف آف اسٹاف اور کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے بھارت اور روس کے تعلقات اور تجارت کے دفاع کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کو روسی تیل کی خریداری پر امریکی ٹیرف کا سامنا ہے۔

جبکہ روس یوکرین جنگ کے سبب مغربی پابندیوں کی بڑھتی ہوئی فہرست سے نبردآزما ہے۔

پیسکوف نے کہا کہ ہمیں اپنی تجارت کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنا ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تجارت کے لیے متبادل ادائیگی کے طریقۂ کار پر بات چیت جاری ہے، تاکہ پابندیوں سے بچا جا سکے۔

ایجنڈے میں بھارتی کارکنوں کی روس منتقلی کا معاملہ بھی شامل ہے، کیونکہ وہاں روزگار کے مواقع تلاش کرنے والے بھارتی شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

ترجمان نے دفاعی تعاون کا بھی ذکر کیا، جن میں S-400 فضائی دفاعی نظام، سخوئی-57 لڑاکا طیارے اور چھوٹے ماڈیولر نیوکلیئر ری ایکٹرز کی فروخت شامل ہیں۔

بھارت روسی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار ہے، اور یوکرین جنگ سے پہلے تقریباً 2 فیصد کے مقابلے میں اب روس بھارت کی 35 فیصد سے زائد خام تیل کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔

تاہم امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارتی ریفائنرز نے متبادل سپلائرز کی تلاش بھی شروع کی ہے۔

امریکی دباؤ کے باوجود بھارت۔روس تعلقات مضبوط
ماہرین اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور روس کے تعلقات مغربی دباؤ، خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے باوجود مضبوط رہے ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف رشیئن اسٹڈیز کے راجن کمار کے مطابق، صدر پیوٹن کا دورہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ روس عالمی امور میں تنہا نہیں۔

ان کے مطابق بھارت اپنی سفارت کاری میں روس کو اس لیے بھی اہم سمجھتا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر مغرب اور چین، دونوں کے ساتھ توازن برقرار رکھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے کے ساتھ اعتماد میں کمی پیدا کی ہے اور روس کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔

’ساتھ ہی روس کو الگ تھلگ کرنا اسے چین کے مزید قریب کر سکتا ہے، جو بھارت کے مفاد میں نہیں۔‘

ان کے مطابق روس بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے محتاط ہے، اسی لیے وہ بھارت کو ایس سی او اور برکس جیسے فورمز کے ذریعے یوریشیئن سیاست میں زیادہ فعال دیکھنا چاہتا ہے۔

’مزید یہ کہ روس بھارت کے اندرونی مسائل پر تنقید نہیں کرتا، نہ ہی تعاون کے لیے شرائط عائد کرتا ہے۔‘

بھارت اور روس کے تعلقات کی تاریخی بنیاد
بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ماسکو اور نئی دہلی کے تعلقات قائم ہوئے، سوویت یونین نے بھارت کی صنعتی ترقی میں مدد کی اور مسئلہ کشمیر سمیت متعدد معاملات میں سفارتی حمایت فراہم کی۔

1971 کی پاک۔بھارت جنگ میں ماسکو نے کھل کر بھارت کی حمایت کی جبکہ امریکا اور چین نے پاکستان کی پشت پناہی کی۔

دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات سرد جنگ کے خاتمے کے باوجود قائم رہے، اور روس نے بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی، لڑاکا طیاروں اور جوہری آبدوزوں کے پروگرام میں اہم کردار ادا کیا۔

2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی تعاون میں اضافہ ہوا، خاص طور پر جوہری توانائی اور یورینیم کے شعبوں میں۔

یوکرین جنگ کے دوران بھارت نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے روس کی کھلی مذمت نہیں کی، بلکہ جنگ کے خاتمے کی اپیل کی۔

تبدل ہوتے عالمی حالات میں اسٹریٹیجک خودمختاری
نیو دہلی کی پالیسی یہ ہے کہ اسٹریٹیجک شراکت داریاں صفر جمع کا کھیل نہیں ہوتیں۔

بھارت امریکا کے ساتھ جی ای ایرو اسپیس اور ایچ اے ایل کے درمیان 1 ارب ڈالر کے انجن معاہدے جیسے بڑے دفاعی معاہدوں پر بھی آگے بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری جانب وہ پیوٹن کا پرتپاک استقبال بھی کر رہا ہے۔

سابق بھارتی سفیر کنول سبل سمجھتے ہیں کہ امریکا بھارت کی خارجہ پالیسی طے نہیں کر سکتا۔ بھارت وہیں شراکت داری کرتا ہے جہاں اس کے مفاد میں ہو، اور امریکی دباؤ کو بھی مناسب حد تک روکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون جاری رہے گا، مگر روس کی اسٹریٹیجک اہمیت برقرار رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ معاہدے میں حماس کو غیر مسلح کرنا اولین ترجیح نہیں، انقرہ
  • اسرائیلی انخلاء کے بغیر غزہ جنگبندی مکمل نہیں ہوگی، قطر
  • اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں سے مکمل انخلاتک غزہ جنگ بندی مکمل نہیں سمجھی جائے گی؛ قطری وزیراعظم
  • اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا تک غزہ میں جنگ بندی مکمل نہیں ہوگی، قطری وزیراعظم
  • غزہ جنگ بندی اسرائیلی فوج کے انخلا اور آزاد فلسطینی ریاست تک نامکمل ہے؛ قطر
  • غزہ جنگ بندی اسرائیلی فوج کے انخلا اور آزاد فلسطینی ریاست تک نامکمل ہے؛ قطر
  • غزہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہو چکے، قطری وزیراعظم
  • پی ٹی آئی نے موقع گنوا دیا، اب جیل ملاقات کی بالکل اجازت نہیں ہوگی، وزیر اطلاعات
  • کشمیری شناخت پر اجتماعی سزا کے اثرات اور دیرپا امن کے لیے اصلاحات کی ضرورت
  • پیوٹن 2 روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے، دو طرفہ تعلقات کی نئی سمت کیا ہوگی؟