چائلڈ لیبر جبری مشقت کا بڑھتا دائرہ اور سماجی بے حسی
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بچے پھول ہوتے ہیں، مگر ہمارے معاشرے کی سختیاں ان کے چہروں پر وقت سے پہلے ہی اداسی کی لکیریں کھینچ دیتی ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے خواب، جو اصل میں تتلیوں کی طرح رنگ بکھیرنے چاہئیں، غربت، افلاس اور محرومی کی گرد میں اَٹ کر مدھم پڑ جاتے ہیں۔ محبت جب دسترس میں نہ رہے تو معصومیت کی آنکھوں میں خوف کے سائے اُتر آتے ہیں اور یہ سائے بچپن کی روشنی چھین لیتے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس یہ بچے صرف رزق کے ٹکڑے نہیں ڈھونڈتے بلکہ اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کی کرچیاں بھی چنتے پھرتے ہیں۔ ان کی ہنسی کی جگہ فکری بوجھ لے لیتا ہے ، کھیل کی جگہ ذمہ داری آ جاتی ہے ، اور ننھے ہاتھوں میں کھلونے نہیں بلکہ مشقت کی تھکن بھر دی جاتی ہے ۔ اس سب کے باوجود ان کے دل میں امید کی ایک ایسی شمع روشن رہتی ہے جو بجھنے کا نام نہیں لیتی، اور یہی امید ہمیں روز یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ان پھولوں کو مرجھانے سے بچا سکتے ہیں، ان کے خوابوں کو بھیانک صورت اختیار کرنے سے روک سکتے ہیں، اور ان کی آنکھوں میں دوبارہ وہی روشنی، وہی رنگ اور وہی مسکراہٹ لوٹا سکتے ہیں جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے ۔
دنیا کے نقشے پر جبری مشقت، چائلڈ لیبر اور قرضِ غلامی اگرچہ پرانے زمانوں کے الفاظ لگتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کے دورِ جدید میں بھی انسانوں کے استحصال کی کئی ایسی شکلیں موجود ہیں جو ہمارے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں پوری شدت کے ساتھ دکھائی نہیں دیتیں۔ سندھ میں جبری و چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کا عالمی دنِ برائے انسدادِ غلامی پر منعقدہ مشاورتی اجلاس اسی تلخ حقیقت کی جانب ایک بار پھر توجہ دلاتا ہے ۔ یہ اجلاس کسی رسمی کارروائی کا حصہ نہیں تھا بلکہ سماج کے اُن پہلوؤں کا عکاس تھا جو ہمارے نظام، قانون، معاشرتی رویّوں اور کمزور طبقات کی بے بسی کے درمیان ایک پیچیدہ مگر حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ بچوں، خصوصی افراد، خواتین اور معاشی طور پر مجبور مزدوروں پر جو دباؤ موجود ہے ، وہ محض قانونی زبان میں درج دفعات سے ختم نہیں ہوسکتا؛ اس کے لیے عملی حکمت عملی، ادارہ جاتی تعاون اور سماجی شعور کی شدید ضرورت ہے ۔اس اجلاس میں کمیشن کی ممبر بیرسٹر رِدا طاہر نے جو نکات بیان کیے ، وہ نہ صرف قانونی پس منظر کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کی یاددہانی بھی ہیں۔ سندھ بونڈیڈ لیبر سسٹم ایکٹ 2015 اور سندھ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2021کا بنیادی مقصد بچوں سمیت ہر کمزور فرد کو استحصال سے بچانا ہے ۔ بیرسٹر رِدا طاہر کا یہ کہنا کہ 18سال سے کم عمر ہر بچہ ریاست کی ذمہ داری ہے ، اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی معیارات کے عین مطابق ہے ، مگر مسئلہ یہ نہیں کہ قانون کیا کہتا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ قانون کو کس طرح نافذ کیا جاتا ہے اور کیا اس پر مؤثر عمل ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ انہوں نے 2018 میں نافذ کیے گئے اسمگلنگ و ٹریفکنگ ایکٹس کے مؤثر استعمال پر زور دے کر اس پہلو کی نشاندہی کی کہ جب تک قانونی ڈھانچہ فعال نہ ہو، کمزور افراد ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں۔
کمیشن کے رکن اور رکنِ سندھ اسمبلی بیرسٹر شیراز شوکت راجپر نے اجلاس میں بتایا کہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ میں 2021کی ترمیم کے بعد بچوں سے متعلق بدسلوکی کی تعریف زیادہ جامع کر دی گئی ہے ، جس کے باعث چائلڈ لیبر، بچوں کو بھیک منگوانے اور اُن کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں مؤثر ہوسکتی ہیں۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جامع تعریفیں اُس وقت تک کوئی عملی فائدہ نہیں دیتیں جب تک ادارے انہیں سمجھ کر نافذ نہ کریں۔ بدسلوکی، استحصال، جسمانی و ذہنی اذیت، تجارتی فائدے کے لیے بچوں کا استعمال یہ سب قانونی زبان میں جرم ہیں مگر زمینی حقیقت میں یہ جرائم اکثر نظرانداز ہوجاتے ہیں یا اُن کی شکایات دب جاتی ہیں۔ بچوں کے مفاد کا تحفظ ایک حساس ترین ذمہ داری ہے ، جو نہ صرف ریاست بلکہ معاشرے کی اجتماعی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے ۔
سیکریٹری کمیشن آغا فخر حسین نے اس تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ غلامی جدید دور میں مختلف شکلوں میں موجود ہے ۔ اگرچہ ظاہری غلامی کا نظام ختم ہوگیا ہے ، مگر معاشی مجبوری، قرضِ غلامی، کم اجرت، محدود روزگار، جبری مشقت، کم عمر بچوں سے اوور ٹائم کرانا اور خواتین کی غیر محفوظ مزدوری یہ سب ایسی شکلیں ہیں جنہیں جدید غلامی کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔ اگر کوئی مزدور اپنے مالک کے قرض کے بوجھ تلے نسل در نسل دبا رہے اور اپنی مزدوری، نقل و حرکت یا فیصلوں پر خود اختیار نہ رکھ سکے تو یہ غلامی ہی ہے ، چاہے اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے ۔
تحسین فاطمہ نے اجلاس میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ضلع ویجیلنس کمیٹیوں کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ یہ کمیٹیاں بونڈیڈ لیبر اور چائلڈ لیبر کے کیسز کو براہِ راست دیکھتی ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کئی اضلاع میں یہ کمیٹیاں غیر فعال ہیں یا اُن کے پاس وسائل اور تربیت کی کمی ہے ، جس کے باعث ان کی کارکردگی محدود رہ جاتی ہے ۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ تعلیمی سہولیات کی کمی اور معاشی دباؤ چائلڈ لیبر کے اصل اسباب ہیں۔ جب ایک گھر کا معاشی بوجھ بچوں تک منتقل ہوجائے اور تعلیم اُن کی پہنچ سے دور ہو، تو بچے مزدوری پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں قانون محض کاغذ پر رہ جاتا ہے اور بچے بچپن کی بجائے محنت کا بوجھ اٹھانے لگتے ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ سماجی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے ۔
پاکستان لیگل یونائیٹڈ سوسائٹی کے سی ای او الطاف کھوسو نے خصوصی بچوں اور خصوصی افراد کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کر کے اس کمی کی طرف توجہ دلائی کہ معاشرے کے سب سے کمزور افراد کے لیے ایک الگ قانونی نظام کی ضرورت ہے ۔ خصوصی افراد کے استحصال کے کیسز عام عدالتوں میں اکثر تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں یا مناسب مہارت نہ ہونے کے باعث پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ تجویز اس حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ کمزور طبقے کو عام شہریوں کے برابر تحفظ دینے کے لیے خصوصی ڈھانچے کی ضرورت ہے ۔سماجی کارکن ماہین عارف نے قرضِ غلامی کو جدید غلامی کی بنیادی وجہ قرار دیا، جو بالکل درست ہے ۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ کے زرعی علاقوں میں یہ مسئلہ دہائیوں سے موجود ہے ۔ ایک مزدور معمولی رقم کا قرض لیتا ہے مگر اس پر سود یا فریق کے کنٹرول کی وجہ سے یہ قرض کبھی ختم نہیں ہوتا۔ نہ مزدور کی آزادی برقرار رہتی ہے نہ اس کی نسلوں کی۔ بونڈیڈ لیبر کی یہ شکل انسانی وقار پر کاری ضرب ہے ۔ قانون واضح طور پر اس عمل کو جرم قرار دیتا ہے ، مگر عملدرآمد کا فقدان اسے آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے ۔لیبر ڈپارٹمنٹ کراچی کے ریجنل ڈائریکٹر سید اطہر علی شاہ نے اس حقیقت کی وضاحت کی کہ قوانین موجود ہونے کے باوجود اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ زرعی شعبے کے کیسز بھی لیبر کورٹس میں نمٹائے جا رہے ہیں جبکہ کم از کم اجرت نہ دینا، بغیر معاوضہ اوور ٹائم کرانا اور بچوں کو محنت پر لگانا جبری مشقت کی واضح شکلیں ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ 1996 میں چائلڈ لیبر کی شرح 20 فیصد تھی اور اب کم ہو کر 10 فیصد رہ گئی ہے ، بظاہر ایک بہتری کی نشاندہی کرتا ہے ، مگر یہ 10 فیصد بھی لاکھوں بچوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے ۔ یہ تعداد محض ایک عدد نہیں بلکہ اُن بچوں کی کہانیاں ہے جو قلم اور کتاب کی جگہ مزدوری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
اجلاس کے اختتام پرایس ایچ آر سی نے واضح انداز میں یہ بات کہی کہ قانون پر سخت عملدرآمد، محکموں کے درمیان مضبوط رابطہ کاری اور عوامی آگاہی کے بغیر سندھ میں بچوں اور مزدوروں کو استحصال سے محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ قانون محض ایک فریم ورک دیتا ہے ، مگر اسے فعال بنانا ریاست، اداروں، عدالتوں اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اگر والدین کو معلوم ہو کہ چائلڈ لیبر بچے کی زندگی تباہ کرتی ہے ، اگر مزدور کو معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں، اگر ادارے بروقت کارروائی کریں، اگر عدالتیں مؤثر فیصلے دیں اور اگر معاشی عدم مساوات کم ہوتو جدید غلامی کے مقابلے میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے ۔ اس کے بغیر معاشرے کا کمزور طبقہ ہمیشہ خطرے میں رہے گا۔
سندھ کو نہ صرف مزید فعال ویجیلنس کمیٹیوں کی ضرورت ہے بلکہ اسکولوں میں داخلے کی شرح بہتر بنانے ، غریب خاندانوں کو مالی معاونت دینے ، جبری مشقت کی شکایات کے فوری ازالے ، بونڈیڈ لیبر کے مراکز کے خاتمے اور تمام اضلاع میں لیبر انسپکٹرز کو بااختیار بنانے کی بھی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں یہ شعور بھی مضبوط کرنا ہوگا کہ کم عمر بچوں سے محنت لینا معاشی مجبوری نہیں بلکہ ایک جرم ہے ۔ جب مزدور اپنی محنت کا پورا معاوضہ لے گا، جب بچوں کو اسکول میں جگہ ملے گی، جب قانون پر مؤثر عمل ہوگا، جب محکمہ جاتی رابطے مضبوط ہوں گے اور جب عوام جدید غلامی کی شکلوں کو پہچان کر اُن کے خلاف آواز اٹھائیں گے تب ہی سندھ میں جبری و چائلڈ لیبر کا حقیقی خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بونڈیڈ لیبر جدید غلامی چائلڈ لیبر ہیں بلکہ کہ قانون ضرورت ہے لیبر کے بلکہ ا میں یہ کے لیے
پڑھیں:
بڑھتا ہوا ظلم اور خاموش تماشائی عالمی طاقتیں
اسلام ٹائمز: عالمی سفارتی قوانین اور اخلاقیات سے عاری امریکہ نے ایران کیساتھ امن مذاکرات کے دوران بھی ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، جس کا جواب ایران نے نہ صرف اسرائیل کیساتھ 12روزہ جنگ میں دیا، بلکہ قطر میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کیلئے طاقت کے استعمال کا نہ صرف عندیا نہیں دیا، بلکہ مذمت تک نہیں کی۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
کرہ ارض پر انسان ارتقائی منازل طے کرتا ہوا حیوانی زندگی سے نکل کر مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کیساتھ رہنے والی مدنی زندگی میں داخل ہوا تو اس نے معاشرے کو پُرامن بنانے کا عہد کیا، لیکن جوں جوں انسان عقل و بصیرت اور علم کی منزل طے کرتا ہوا آگے بڑھا تو طاقت کے نشے اور دوسروں کو طاقت سے زیر کرنے کی خواہش نے اسے پرانی روش کو اختیار کرنے پر مجبور کر لیا، بقائے باہمی اور امن کی بجائے قتل و غارت، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، املاک کو نقصان پہنچانا، وسائل پر قبضہ کرنا اور ظلم و استبداد کا ناجائز راستہ اختیار کرنا، اس کی عادت بن گئی۔ ہماری زندگی میں آج کے دور سے پہلے ویسے تو کئی جنگیں لڑی گئیں، لیکن دو بڑی جنگیں عالمی جنگ اول اور دوئم لڑی گئیں، جن میں لاکھوں انسانوں کو قتل اور جلا وطن کیا گیا۔ یہ بھی انسانی تاریخ کا سیاہ کن باب ہے۔ لیکن اس کے آگے دیکھیں تو امریکہ جیسی بڑی طاقت اور اسرائیل جیسی شیطانی حیوانی ناجائز صیہونی حکومت نے بھی وہی راستہ اختیار کیا کہ دنیا میں امن قائم نہ ہوسکے۔
افسوسناک بات اور ظلم یہ ہے کہ دنیا کے آج کے مہذب معاشروں میں یہ سکت نظر نہیں آرہی کہ وہ کسی جارح کی جارحیت کو روک سکے یا اس کیخلاف محاذ بنا کر مقابلہ کرنے کی کوشش کرے۔ ابھی چند ماہ پہلے اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے اس کی اہم حکومتی، سیاسی، سماجی اور سائنسی شخصیات کو شہید کیا اور امن ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچایا۔ لیکن کسی نے بھی جارحیت کے مقابلے کی جرات کی اور نہ ہی کوئی ایران کیساتھ کھل کر کھڑا ہوا، بلکہ عالمی سفارتی قوانین اور اخلاقیات سے عاری امریکہ نے ایران کیساتھ امن مذاکرات کے دوران بھی ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، جس کا جواب ایران نے نہ صرف اسرائیل کیساتھ 12روزہ جنگ میں دیا، بلکہ قطر میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کیلئے طاقت کے استعمال کا نہ صرف عندیا نہیں دیا، بلکہ مذمت تک نہیں کی۔
کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل نے امریکہ کے اتحادی دوست قطر پر بھی حماس کی قیادت کو قتل کرنے کی غرض سے فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے بیرون ملک دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں قطری شہری اور حماس کے مہمانوں کو شہید کیا گیا، جبکہ اس سے پہلے نومنتخب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی لڑائی میں جس بربریت کا مظاہرہ یہودی صیہونی حکومت نے کیا، نہ صرف قابل مذمت، بلکہ اس معاشرے کے چہرے پر شرمندگی کا بدنما داغ بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریروں میں امن کا مسیحا بننے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پھر صدر منتخب ہونے کے بعد سے اب تک ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ رکوانے کا بار بار تذکرہ کرتے اور امن کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے اور توقع رکھتے ہیں کہ امن کا نوبل ایوارڈ اسے دیا جائے اور اس کے بار بار تذکرے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
میرا تو خیال ہے کہ اسرائیلی سرپرستی اور 80 ہزار کے قریب فلسطینیوں کے قتل عام کی سرپرستی پر امریکی صدر کو اگر کوئی منافقت اور ظلم و بربریت کا ایوارڈ ہو تو اسے دیا جائے، امن ایوارڈ کا تو یہ کوئی حق دار نہیں، حالانکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور اسرائیلی دہشت گرد نیتن یاہو کی خواہش یہی ہے۔ امریکی صدر نے خصوصاً غزہ میں سیز فائر کی کوشش کی تھی، اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بدنیتی پر مبنی اسرائیلی سرپرستی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ، ہاشم صفی الدین اور ان کے ساتھیوں کو بھی شہید کیا گیا۔ انصار اللہ یمن پر بھی حملے کئے گئے۔ اتنے بڑے مظالم سے عالمی طاقتوں اور اداروں کی خاموشی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کے زبانیں گنگ ہوچکی ہیں، بڑے ممالک کے فوجی بھی کسی اندھیرے میں گم ہوچکے ہیں، کوئی بھی ملک بے تحاشا وسائل رکھنے کے باجود کوئی ایسا اقدام اٹھانے کو تیار نہیں، جس سے امریکہ اور اس کے پالتو اسرائیل کے مظالم کو روکا جا سکے۔
ابھی چند دن پہلے لبنان کے بارڈر پر امن کے نام سے سیز فائر کے باوجود حزب اللہ لبنان کے کمانڈر ہیثم علی طباطبائی کی شہادت اسرائیلی بربریت اور امریکی سرپرستی کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص جماعت یا گروہ نہیں، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے بازو کو مروڑ کر توڑ سکے۔ ان واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اور امریکی صدر خطے کو پرامن نہیں رہنے دیں گے اور گاہے بگاہے مختلف ممالک کے اندر تخریبی عناصر کی سرپرستی کرکے انتشار پیدا کریں گے۔ کاش! امت مسلمہ میں کوئی ایک فرد بھی ٹرمپ اور نتن یاہو کو للکارتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا پیش خیمہ بنے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو صرف مشرق وسطی ہی نہیں پوری دنیا میں تیسری جنگ عظیم کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لبنان کی قیادت، فلسطینی بے گھر، نادار لوگ ظلم سے نبرد آزما ہوں گے اور اپنے ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ بھی لیں گے۔