Jasarat News:
2025-12-05@23:27:31 GMT

اخوان المسلمین: دہشت گردی کا لیبل یا سازش؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا میں کچھ فیصلے حقیقت، شواہد اور انصاف پر مبنی ہوتے ہیں، اور کچھ محض سیاسی خوف، علاقائی مصلحتوں اور طاقت کے اندھے استعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اخوان المسلمین کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے کی تازہ بین الاقوامی کوشش اسی دوسری قسم کے فیصلوں کی بدترین مثال ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جو تحقیق سے خالی، قانون سے متصادم اور سیاسی بددیانتی سے بھرپور ہے۔ یہ اقدام نہ تو کسی عالمی ادارے کی سفارش پر مبنی ہے، نہ ہی کسی عدالتی فیصلے کی بنیاد رکھتا ہے۔ بلکہ یہ ایک سیاسی سودا ہے جسے چند خوفزدہ عرب آمریتوں، اسرائیلی لابیوں اور ان کے مغربی سرپرستوں نے پس ِ پردہ طے کیا ہے۔ اصل مسئلہ نہ تو اخوان کا مذہبی پس منظر ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی سرگرمیوں کی نوعیت۔ اصل مسئلہ ہے: عوام، ووٹ اور جمہوریت کا خوف۔

1928 میں مصر کے اسکول ٹیچر حسن البناء نے اخوان المسلمین کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کی اصل روح مسلمانوں کی اخلاقی، سماجی اور فکری تربیت تھی۔ تعلیم، خدمت ِ خلق، کمیونٹی نیٹ ورکنگ، اصلاحِ معاشرہ اور سیاسی بیداری؛ یہ سب اس کے بنیادی ستون تھے۔ مغرب کا سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ اخوان کو صرف ایک سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اخوان بنیادی طور پر ایک معاشرتی تحریک ہے۔ یہ ہزاروں اسکول، فلاحی ادارے، اسپتال، رفاہی تنظیمیں اور سماجی خوشحالی کے مراکز قائم کر چکی ہے۔ یہی عوامی خدمت اس کی مقبولیت کا اصل سبب ہے۔ 2011 کی عرب بہار نے خطے کے سیاسی نقشے کو ہلا کر رکھ دیا۔ دہائیوں سے قائم آمریتوں کے خلاف عوام سڑکوں پر آئے، اور مصری تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے۔ اخوان المسلمین سے وابستہ محمد مرسی بھاری عوامی ووٹ سے صدر منتخب ہوئے۔ یہ لمحہ سادہ نہیں تھا! یہ پورے خطے کے لیے ایک سبق تھا کہ: اگر عوام کو منصفانہ موقع ملے۔ اگر انتخابی نظام شفاف ہو۔ اور اگر ریاستی ادارے مداخلت نہ کریں تو پھر ایک اسلامی، فلاحی، اور عوامی تحریک اقتدار میں آسکتی ہے۔ یہی وہ حقیقت تھی جس نے کئی عرب حکمرانوں کے قدموں تلے زمین کھینچ لی۔ مرسی کی جیت کے صرف ایک سال بعد جولائی 2013 میں جنرل السیسی نے فوجی بغاوت کرکے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ یہ ایک تاریخی دھوکا تھا۔ عوام کے ووٹ سے منتخب صدر کو چند گھنٹوں میں گرفتار کر لیا گیا، اخوان کے دفاتر سیل کر دیے گئے، ہزاروں رہنماؤں کو لمبی قید اور سزائے موت سنائی گئی۔

مگر سوال یہ ہے: مغرب، جو جمہوریت کا علمبردار بنتا ہے، وہ کہاں تھا؟ امریکا، یورپ، اور اقوام متحدہ نے اس بغاوت کو ’’سیکورٹی کی ضرورت‘‘ کہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں مفادات نے اصولوں کے گلے میں رسّی ڈال دی۔ اخوان کو دہشت گرد کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ 1۔ عرب آمریتوں کا خوف۔ خلیجی ریاستوں کے لیے اخوان کی سب سے خطرناک بات اس کا نظریہ نہیں بلکہ اس کی مقبولیت ہے۔ اخوان نے فلاحی خدمات، تعلیمی اداروں، تنظیمی ڈھانچے اور محنت کے ذریعے خطے میں ایک ایسی عوامی بنیاد بنائی جسے آمریتیں کبھی قائم نہیں کر سکتیں۔

آمریتوں کو سب سے زیادہ خطرہ اس بات سے تھا کہ: اگر مصر میں عوام اسلامی فلاحی تحریک کو ووٹ دے سکتے ہیں، تو کل کو سعودی عرب، امارات یا اردن میں بھی عوام یہی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک نے کھل کر مصر کی فوجی بغاوت کو فنڈ کیا۔ سیاسی بقاء کا خوف ہر اخلاقی اصول کو کھا گیا۔ 2۔ اسرائیل اور صہیونی لابیوں کا دباؤ۔ اخوان المسلمین فلسطین کے مسئلے پر واضح، مضبوط اور غیر لچکدار موقف رکھتی ہے۔ یہ حماس کی فکری ماں بھی ہے۔ اس کا اصول ہے کہ فلسطینی عوام کا حق ِ آزادی غیر مشروط ہے۔

اسرائیل کو ایسے گروہ سے ہمیشہ خوف رہے گا جو: عوامی حمایت رکھتا ہو۔ فلاحی کام کرتا ہو۔ جمہوری طریقے سے حکومت میں آسکتا ہو۔ اور فلسطین پر واضح اصولی مؤقف رکھتا ہو۔ اسی لیے اسرائیلی لابیاں مسلسل مغرب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہیں کہ اخوان ’’تشدد پسند‘‘ ہے حالانکہ اسرائیل کے اپنے پنڈت تسلیم کرتے ہیں کہ اخوان کبھی دہشت گردی میں ملوث نہیں رہی۔ 3۔ خلیجی سیاسی مفادات: سعودی عرب، امارات، اور مصر کی موجودہ فوجی حکومت کے مقاصد مشترک ہیں۔ خطے میں ایسی کوئی جماعت نہ ہو جو عوامی ووٹ سے اقتدار میں آئے۔ ایسی کوئی تحریک نہ ہو جو سماجی انصاف کا مطالبہ کرے اور نہ ہی ایسی قوت ابھرے جو حکمران اشرافیہ کی اجارہ داری توڑ سکے ان کے نزدیک اخوان کو کمزور کرنا ان کی سیاسی حکمت ِ عملی کا مرکزی حصہ ہے۔ 4۔ مغربی دوغلا پن: مشکل ترین بات یہ ہے کہ مغرب بھی اس کھیل میں برابر کا شریک ہے۔ جمہوریت، آزادیِ اظہار، اور انسانی حقوق کا نعرہ صرف تب تک ہے جب تک وہ ان کے مفادات سے ٹکراتا نہ ہو۔ جب مصر کی جمہوریت ختم کی گئی، کوئی عالمی عدالت حرکت میں نہ آئی۔ کوئی بڑی جمہوریت چیخی نہیں، کسی بڑی طاقت نے پابندی نہیں لگائی، کیونکہ ان کے معاشی مفادات، تیل کی سیاست اور اسٹرٹیجک تعلقات زیادہ اہم تھے۔ اخوان اور دہشت گردی: حقیقت کیا ہے؟

دہشت گردی کی بنیادی تعریف تین چیزوں پر مشتمل ہے: 1۔ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے تشدد، 2۔ عام شہریوں کو نشانہ بنانا، 3۔ خوف پھیلانا۔

اخوان کی 90 سالہ تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جسے دہشت گردی کہا جا سکے۔ بلکہ القاعدہ اور داعش جیسے گروہ ہمیشہ اخوان کے سیاسی، جمہوری اور پرامن طریقوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ یہ بات مغرب کے تمام تھنک ٹینکس تسلیم کر چکے ہیں کہ اخوان ایک سیاسی، سماجی تحریک ہے، دہشت گرد تنظیم نہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکا، برطانیہ کسی نے بھی اخوان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا۔ یہ صرف چند مخصوص حکمرانوں کا فیصلہ ہے، عالمی فیصلہ نہیں۔ مصر میں اخوان کی قیادت جیلوں میں ہے، کارکن زیر ِ عتاب ہیں، دفاتر بند ہیں، میڈیا دشمن ہے۔ مگر اخوان اب بھی موجود ہے، اس کا نیٹ ورک اب بھی چل رہا ہے، اس کی فکر اب بھی دلوں میں سانس لے رہی ہے۔

کیونکہ: فلاحی کاموں کو پابندیوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ نظریات کو ہتھکڑیوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ عوامی شعور کو میڈیا پروپیگنڈے سے نہیں دبایا جا سکتا۔ اخوان ایک نام نہیں، ایک تصور ہے۔ اصلاح، شفافیت، انصاف، اجتماعی بھلائی اور سماجی ذمے داری کا تصور۔ کیا یہ سیاسی سازش ناکام ہو گی؟ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ: آمریتیں ڈوبتی ہیں۔ پروپیگنڈے مٹ جاتے ہیں۔ فوجی حکومتیں قائم نہیں رہتیں۔ مگر عوامی تحریکیں زندہ رہتی ہیں۔ اخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے کا فیصلہ وقتی فائدہ ضرور دے گا، مگر یہ ایک ایسی غلطی ہے جو آنے والے وقت میں ان ہی حکومتوں کو بے نقاب کرے گی جنہوں نے یہ کھیل کھیلا۔

اخوان المسلمین کے خلاف یہ مہم اصل میں عوامی طاقت کے خلاف مہم ہے۔ یہ جنگ نظریات کی نہیں، مفادات کی ہے۔ یہ لیبل حقیقت سے زیادہ خوف اور سیاست کا نتیجہ ہے۔ اور یاد رکھنا چاہیے: عوام کی طاقت کو وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اخوان کی بقا اسی اصول کی گواہی دیتی ہے۔ اخوان کمزور نہیں پڑے گی۔ لیبل مٹ جائیں گے، پروپیگنڈے دم توڑ دیں گے، مگر عوام ہمیشہ سچ کی طرف لوٹتے ہیں۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اخوان المسلمین اخوان کو کہ اخوان ا مریتوں اخوان کی جا سکتا ا سکتا ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی؛ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہاکہ پریس کانفرنس کا مقصد اندرونی طور پر موجود نیشنل سکیورٹی تھریٹ ہے،ہم تمام سیاسی جماعتوں کی عزت کرتے ہیں،پاک فوج اور عوام کے درمیان دراڑڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی ،فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری  نے کہا ہے کہ  ایک شخص اپنی ذات کا قیدی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں،اس کی ذا ت اور خواہشات اس حد تک بڑھ چکی ہے وہ کہتا ہے میں نہیں تو کچھ نہیں ،اب سیاست ختم ہو چکی اب اس کا بیانیہ پاکستانی کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سینئر صحافیوں اور اینکرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف آف ڈیفنس فورسز کی تعیناتی پر سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،چیف آف ڈیفنس فورسز کے ہیڈکوارٹرز کا آغاز ہو چکا ہے،چیف آف ڈیفنس فورسز ہیڈکوارٹرز کی بہت عرصے سے ضرورت تھی،چیف آف ڈیفنس ہیڈکوارٹر جنگی معاملات کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ  ایک شخص اپنی ذات کا قیدی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں،اس کی ذا ت اور خواہشات اس حد تک بڑھ چکی ہے وہ کہتا ہے میں نہیں تو کچھ نہیں ،اب سیاست ختم ہو چکی اب اس کا بیانیہ پاکستانی کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے،ان کاکہناتھا کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں کی عزت کرتے ہیں،ریاست پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں،ہم مذہبی ، لسانی یا کسی سیاسی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتے،ہم کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا لے کر نہیں چلتے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ پریس کانفرنس کا مقصد اندرونی طور پر موجود نیشنل سکیورٹی تھریٹ ہے،ہم تمام سیاسی جماعتوں کی عزت کرتے ہیں،پاک فوج اور عوام کے درمیان دراڑڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی ،فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ایک شخص قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا، یہ واضح ہے جو وہ چاہتا ہے وہ نہیں ہو سکتا : ڈی جی آئی ایس پی آر 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلیے فوج ہروقت تیار ہے، عبدالجبار
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا عمران خان کے بیٹوں کو فوج میں بھرتی ہونے کا مشورہ
  • فوج کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی؛ڈی جی آئی ایس پی آر
  •  مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، مدارس کو تنگ کرنے کی پالیسی ترک کرنی ہوگی، قاری حنیف جالندھری 
  • افغانستان، عالمی دہشت گردی کا مرکز
  • جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں، سہیل آفریدی
  • بانی کی فیملی کی ملاقاتیں بھی سیاسی پیغام پر مشتمل ہورہی ہیں،اب سے یہ  بھی بند کردی جائیں گی،فیصل واوڈا
  • جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھر بھی مداخلت کررہے ہیں:وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا