دوحہ سے استنبول تک، پاک افغان مذاکرات کے پس پردہ سرگرم ابراہیم قالن کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ترک انٹیلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے سربراہ اور صدر رجب طیب ایردوان کے انتہائی قریبی ساتھی ابراہیم قالن ایک بار پھر عالمی سفارتی منظرنامے پر نمایاں ہو گئے ہیں۔
ترک میڈیا کے مطابق دوحہ میں ہونے والے حالیہ پاک–افغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں ابراہیم قالن نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور مذاکراتی عمل کو پُرامن انداز میں آگے بڑھانے میں بھرپور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ابراہیم قالن نے یہ بھی یقینی بنایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے مذاکرات کار ہاتھ ملائے بغیر مذاکراتی اسٹیج نہ چھوڑیں۔ اب وہ استنبول میں جاری مذاکراتی عمل کے بھی میزبان ہیں، جہاں دوطرفہ تعلقات میں پائیدار بہتری کے امکانات پر غور جاری ہے۔
ابراہیم قالن کا پس منظر
1971 میں استنبول میں پیدا ہونے والے ابراہیم قالن ترکی کے معروف اسکالر، سفارت کار اور پالیسی ساز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے استنبول یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن، ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ماسٹرز، اور 2002 میں امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 2005 میں انہوں نے ترکی کے ایک بااثر حکومتی تھنک ٹینک “سیتا فاؤنڈیشن” (SETA Foundation) کی بنیاد رکھی، جو آج بھی پالیسی سازی اور بین الاقوامی امور پر ایک معتبر ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
قالن 2014 میں صدر ایردوان کے صدارتی ترجمان مقرر ہوئے اور تب سے ترکی کی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ترکی اور روس کے درمیان تنازع، قطر اور متحدہ عرب امارات کی کشیدگی، شام کے بحران، اور حالیہ غزہ جنگ بندی جیسے حساس معاملات میں ثالثی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
ترک ذرائع کے مطابق صدر ایردوان ان پر غیر معمولی اعتماد رکھتے ہیں اور ترکی میں انہیں اکثر “صدر کا سایہ” (Shadow of a President) کہا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ایم آئی ٹی ترکی کی سفارت کاری اور انٹیلی جنس کے درمیان ایک مؤثر پل بن چکی ہے، جس نے انہیں نہ صرف ترکی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم کردار بنا دیا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ابراہیم قالن کے درمیان کے مطابق
پڑھیں:
افغان قیادت کا اپنی زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونےکا اعتراف
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ ٹیلیفونک گفتگو کی۔ خطے کی صورت حال، دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے کہا ہے کہ افغان قیادت یا معاشرے کی جانب سے یہ تسلیم کرنا کہ ان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کو دوام بخشنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے، ایک مثبت پیش رفت ہے اور یقینا اس کا خیرمقدم کیا جائے گا تاہم ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں درکار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ترجمان دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ انڈونیشیا کے صدر نے وزیر اعظم پاکستان کی دعوت پر حالیہ دورہ کیا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات، تجارت، دفاع اور دیگر شعبوں میں تعاون پر مفصل تبادلہ خیال ہوا۔ ترجمان کے مطابق دورے کے دوران 8 ایم او یوز پر دستخط کیے گئے، جب کہ انڈونیشین صدر نے چیف آف ڈیفنس فورسز سے بھی ملاقات کی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ ٹیلیفونک گفتگو کی۔ خطے کی صورت حال، دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ ترجمان نے بھارت کے وزیر خارجہ کے حالیہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے۔ مئی 2025 کی جنگ نے ثابت کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج انتہائی پروفیشنل اور مادرِ وطن کے تحفظ کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔ ترجمان طاہر حسین اندرابی کے مطابق پاکستان اور تیونس کے درمیان سیاسی مشاورت کا چوتھا دور 9 دسمبر کو تیونس میں منعقد ہوا۔ پاکستانی وفد کی قیادت ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ حامد اصغر خان نے کی۔ اجلاس میں سیاسی تعاون، تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، تعلیم اور اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلوں پر اتفاق کیا گیا۔دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی چارٹر پر مکمل عمل درآمد اور رابطوں کے فروغ پر بھی اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے مثبت پیش رفت کی گئی ہے تو اسے خوش آئند سمجھتے ہیں، تاہم "ہمیں افغان قیادت سے تحریری ضمانتیں درکار ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا امدادی قافلہ مکمل طور پر کلیئر ہے، اب یہ طالبان انتظامیہ پر ہے کہ وہ اسے وصول کرتے ہیں یا نہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر گزشتہ ڈیڑھ برس میں امریکہ کے 100 سے زائد قانون سازوں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں، اور توقع ہے کہ امریکی سینیٹرز کے حالیہ خط پر بھی مناسب فالو اپ کیا گیا ہو گا۔ انہوں نے ایف-16 پروگرام کی اپ گریڈیشن کے لیے امریکا کی جانب سے امداد کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا۔