Jasarat News:
2025-10-28@03:48:25 GMT

سبزیات،سیاست اور کلٹ

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

میر صاحب نے کہا تھا:

عشق اک میر بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

 

بازار گئے تو معلوم ہوا کراچی کے سبزی فروشوں نے عشق کی جگہ ٹماٹر رکھ دیے ہیں۔ چھے سو روپے کلو۔ جن کے سامنے ہر خریدار ناتواں۔۔ چلو ایک پائو دے دو۔۔ کلو دو کلو، کسی سے اٹھ کے نہیں دے رہے۔ اس کے سامنے ہر سبزی شرمندہ شرمندہ، یتیم یتیم۔ ہمارے بھی اک روز ماں باپ تھے۔ ٹماٹر۔ کولھے پہ ہاتھ رکھے تھرکنے لگی حیات۔ کی طرح پر غرور اور نخروں میں سرشار۔ ہم دکاندار سے شکوہ کناں ہوا ہی چاہتے تھے کہ غالب یاد آگئے:

 

ہاں وہ نہیں خدا پرست جائو وہ بے وفا سہی

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

ہنڈیا نے یہ روداد سنی تو بولی

ہاں وہ نہیں قیمت میں کم جائو وہ ارزاں نہیں

جس کو ہو ہانڈی عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

بیگم نے یہ سب سنا تو حضرت جگر الہ آبادی کی تضمین کر ڈالی

ہنڈیا آساں نہیں بنانا، بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

 

اس شاعرانہ بزم کے روبرو ہماری سیاسی تجزیہ نگاری آئی تو ٹماٹروں کے مقابل عمران خان آگئے۔ ہنڈیا ہو یا سیاست عمرانی۔ ہر روز بھاری پتھر اٹھاتی ہے۔ جیل کا ہو یا مہنگائی کا۔ آگ کے دریا سے گزرتی ہے، مہنگائی کے طوفان میں پکتی ہے۔ مگر ہنڈیا ٹماٹر کے بغیر اور سیاست عمران خان کے بغیر نہیں چلتی۔ کوئی حقیقت، کوئی سازش، کوئی مجبوری، اس عشق کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کلٹ، اس عقیدے کے مقابل نہیں آسکتی۔ ہنڈیا ہو یاسیاست۔ نہ ٹماٹر سے بے نیاز رہ سکتی ہے اور نہ عمران خان سے۔ لاکھ دہائیاں دیتے رہیے۔

 

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

 

غالب کی بات بھی کوئی نہیں سنتا حالانکہ غالب کے ہاں عشق محض رومان نہیں ایک فکری کیفیت ہے۔ غا لب کا عشق سوال اُٹھاتا ہے، جھنجھوڑتا ہے اور آخرکار شعور کی حد پر لے جاتا ہے لیکن یہی عشق جب عقل سے بے نیاز ہو جائے تو ٹماٹروں اور عمران خان کے عشق کی طرح وجود کی وہ کیمیا بن جاتا ہے، جس کے آگے ہر سوال، ہر جھنجھوڑ، شعور کی حد۔ بے بس۔ لا چار۔ جون ایلیا نے بھی تو کسی کو کلٹ کی طرح ہی چاہا ہوگا تب ہی تو بے بس ہوکر پوچھنا پڑا تھا:

 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

 

زیادہ پرانی بات نہیں، جب کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ کبھی پرانی بات ہوسکتی ہے، جب الطاف حسین اور مہاجریت کا ہرا دھنیا مہاجروں کا کلٹ تھا۔ ایسا کلٹ جس نے مہاجروں کی افادیت، انفرادیت، عقل حتیٰ کہ شخصیت کو بھی معطل کرکے رکھ دیا تھا:

 

الطاف حسین نے نکما کردیا

ورنہ مہاجر بھی آدمی تھے کام کے

 

اس زمانے میں الطاف حسین کے جلسے اور ٹیلی فونک خطاب روحانی اجتماع کی طرح ہوتے تھے۔ ہر کارکن اس کی ایک آواز پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتا تھا۔ وہ مہاجروں کا محافظ قوم ہی نہیں سب کچھ تھا حالانکہ اس نے مہاجروں کو بربادی، تباہی اور رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

 

مہاجر بھی کیا سادہ، بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی مہاجرت کے لونڈے سے دوا لیتے تھے

 

عمران خان اور الطاف حسین سے پہلے پاکستان کی سیاست میں جس کو ایک کلٹ کی طرح دیوانہ وار چا ہا گیا وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ عمران خان کے خوش رنگ مگر جلد خراب ہو جانے والے ٹماٹروں اور الطاف حسین کے مہکتے مگر وقتی تاثر اور چند گھنٹوں کی خوشبو والے ہرے دھنیے کے مقابل بھٹو کا کلٹ اور سوشلزم آلو کی طرح تھا معیشت، سیاست اور مذہب کے ہر سالن کا لازمی جزو، وزنی اور سادہ، مٹی سے جڑا۔ بھٹو کے روٹی، کپڑے اور مکان کی افادیت اور کلٹ میں جمہوریت بھی پرستش میں بدل گئی تھی۔ لیکن سندھی عصبیت، الیکشن میں بدعنوانی، نفس پرستی، خود پسندی، اقتدار کا نشہ اور امریکا سے پنگا انہیں لے بیٹھا، اسی طرح پاکستان کے ٹوٹنے میں ان کے کردار کی کوئی تو ضیح ممکن نہیں لیکن ان کا انجام اور عدالتی قتل!!!

 

نہ پائی تاب تماشائے حادثات چمن

ہمیں تو راس نہ آئی بہار آخرکار

 

عمران خان ہوں، الطاف حسین یا بھٹو جب انگلش میں ان کے لیے cult کا لفظ بولا جاتا ہے تو یہ عام طور پر personality cult یعنی شخصیت پرستی، قائد پرستی، شخصیت کا طلسم، فرد کی الوہیئت کا تاثر اور بندگی قائد جیسے معنوں میں بولا جاتا ہے جن میں بھٹو آج بھی زندہ ہے، عمران خان آج بھی دیوتا ہے اور الطاف حسین آج بھی رہنما ہے۔ یا پھر cult follwing یعنی جنون کی حد تک عقیدت رکھنے والے پیرو کاروں، اندھی عقیدت رکھنے والے گروہ، دیوانہ وار پیروی یا غیر معمولی یا غیر معقول مقبولیت کے لیے بولا جاتا ہے جو ایسے نعروں میں گونجتا ہے جس میں ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ یا ’’میں عشق عمران میں مارا جائوں گا‘‘۔ جس میں اس صوبے کا وزیراعلیٰ جو حالت جنگ میں ہے شہداء کے گھروں میں نہیں جارہا، ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ نہیں رکھ رہا، پولیس والوں اور پولیو ٹیموں کے ورکروں کے سر پر ہاتھ نہیں پھیر رہا لیکن عمران خان کی تصویر کی صفائی کرنے میں منہمک ہے وہ بھی کیمروں کے سامنے، کیمرے ارینج کرکے، درست زاویوں پر رکھ کر لائٹنگ اور سرکولیشن کے مکمل انتظامات کے ساتھ۔ جس میں عمران خان کی سائفر کی کہانی کھل جانے کے باوجود اسے تسلیم نہیں کیا جاتا حالانکہ امریکا سے پاکستان تک سیاست میں ایسی نورا کشتیاں عام ہیں اور ہر روز کھیلی جاتی ہیں۔

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: الطاف حسین جاتا ہے کی طرح ہے اور

پڑھیں:

آزاد کشمیر کی سیاست کو پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے شرمناک بنادیا ہے: لیاقت بلوچ

لیاقت بلوچ — فائل فوٹو

نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ پاک افغان جنگ بندی ہی نہیں پائیدار تعلقات خطے کی ضرورت ہے۔

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین جاری مذاکرات کے موقع پر جارحانہ بیانات غیر ضروری ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان پر جانبدارانہ عمل نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی سیاست کو پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے شرمناک بنادیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی کا کسان روڈ کارواں پُرامن ہوگا، جماعتِ اسلامی کسانوں کی ترجمان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلاول,مولانا فضل الرحمٰن ملاقات: اپوزیشن حکمتِ عملی اور کشمیر کی سیاست زیرِ بحث
  • بہار اسمبلی انتخابات:مودی کا وقار داؤ پر
  • کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، وفاقی وزیر اطلاعات
  •   آزادکشمیرکی  سیاست میں اَپ سائیڈڈاؤن؛ بیرسٹر سلطان نےگیم چینج کر دی
  • ایم کیو ایم ماضی میں کی گئی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر قوم سے معافی مانگے، ڈپٹی میئر کراچی
  • آزاد کشمیر کی سیاست کو پی پی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے شرمناک بنادیا ہے: لیاقت بلوچ
  • ‏چوہدری سالک حسین کے ایک سالہ پرانے کلپ کو توڑ موڑ کر پیش کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے ۔ مصطفیٰ ملک
  • عمران خان کی رہائی مشروط، محاذ آرائی کی پالیسی بدلے بغیر 2026 تک جیل میں رہنے کے امکانات
  • عمران خان نے رویہ نہ بدلا تو 2026 کے بعد بھی جیل سے باہر نہیں آئیں گے، ذرائع کا دعویٰ