پاکستان قدرتی خوبصورتی، تاریخی ورثے اور متنوع ثقافتوں کا خزانہ ہے اور سیاحت کے شعبے میں بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات پر اینٹری فیس لاگو، سیاح کیا کہتے ہیں؟

سنہ 2025 میں حکومت نے ویزا پالیسیوں میں نرمی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے ذریعے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے خاص طور پر ان مقامات کی طرف جو ابھی تک بڑے پیمانے پر مشہور نہیں ہوئے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں اور ساحلی خطوں میں ایسے ابھرتے ہوئے سیاحتی مقامات ہیں جو قدرتی حسن، مہم جوئی اور ثقافتی مشاہدات سے بھرپور ہیں اور یہاں بیحد سکون کا احساس ہوتا ہے۔

مختلف صوبائی اور وفاقی منصوبے بھی نئے سیاحتی مقامات کو سہولیات سے آراستہ کر رہے ہیں۔

 شمالی علاقہ جات کی عالمی سطح پر پذیرائی، پنجاب کے ثقافتی اثاثوں کی تجدید، خیبر پختونخوا کے ڈیم سائٹس پر تفریحی منصوبے اور جنوبی ساحلی کناروں پر کنیکٹیویٹی کے اقدامات، یہ سب مل کر ملک کے سفر و سیاحت کے منظرنامے کو تیزی سے بدل رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے پہاڑی مناظر، جھیلیں اور وادیاں روایتی طور پر سیاحوں کا مرکز رہی ہیں، مگر اب عالمی اداروں اور میڈیا کی طرف سے کی جانے والی تعریف نے اس خطے کو نئی توجہ دلائی ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا کے سب سے زیادہ انسٹاگرام کیے جانے والے سیاحتی مقامات کون سے ہیں؟

 اس سال گلگت بلتستان کو عالمی فہرستوں میں شامل کیا جانا اور مقامی ہوابازی و انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے منصوبے سب مل کر یہاں کے دورے کو مزید آسان اور پائیدار بنا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دیگر شمالی شہروں میں ہوائی رابطے اور سیاحتی سہولیات کے توسیعی منصوبے بھی زیرِ غور ہیں جو مقامی معاشیات کو بھی فائدہ پہنچائیں گے۔

خاص طور پر اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی اپ گریڈیشن جیسے اقدامات سے شمالی خطے کی رسائی بہتر ہونے لگی ہے۔ ہوائی راستوں کی بہتری اور ممکنہ نئی ڈائرکٹ فلائٹس کا مطلب یہ ہے کہ اندرون ملک اور بین الاقوامی سیاح شمالی علاقہ جات تک کم وقت میں پہنچ سکیں گے جس سے مقامی ہوٹلنگ، ٹور آپریٹرز اور کاروباروں کو فوری روزگار کے نئے مواقع ملیں گے۔ یہ اقدام طویل مدتی سیاحتی پائیداری کے لیے بھی مثبت سمجھا جا رہا ہے۔

آئیے پاکستان کے کچھ اہم اور کم مشہور سیاحتی مقامات کے بارے میں جانتے ہیں۔

ننگما ویلی

قراقرم پہاڑوں میں واقع، ایک ایسا ابھرتا ہوا سیاحتی مقام ہے جو ٹریکنگ کے شوقین افراد کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہ وادی قدرتی حسن کی خام شکل پیش کرتی ہے جہاں دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں، گلیشیئرز اور مقامی ثقافت کا امتزاج ہے۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کی ویزا پالیسیوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے یہ علاقہ زیادہ قابل رسائی ہو گیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ سیاح یہاں بغیر ہجوم کے مہم جوئی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

مقامی کمیونٹیز کے ساتھ رابطے اور ثقافتی تبادلے یہاں کے سفر کو مزید یادگار بناتے ہیں اور یہ وادی 2025 کی ’نوٹ ہاٹ لسٹ‘ میں شامل کی گئی ہے جو کم مشہور مقامات کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کی خوبصورتی اور سکون کی وجہ سے یہ وادی ان سیاحوں کے لیے مثالی ہے جو روایتی ہائیکنگ روٹس سے ہٹ کر کچھ نیا تلاش کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مارچ 2025 میں امریکی میگزین ٹائم ے ننگما ویلی کو 2025 کے دنیا بھر کے بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کیا۔ اسے قدرتی حسن، ایڈونچر اور مقامی بلتی ثقافت کا حسین امتزاج قرار دیا گیا۔ یہ پاکستان کی طرف سے ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ اس سے پہلے یہ وادی زیادہ تر مقامی سیاحوں تک محدود تھی۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں سیاحتی مقامات کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز، کرایہ کتنا ہوگا؟

وادی میں سرسبز چراگاہیں، پہاڑی ندیاں اور جنگلاتی علاقے ہیں جہاں کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لیے بہترین موسم مئی سے ستمبر تک ہے۔ یہاں پہنچنے کا راستہ سکردو سے جیپ یا پیدل ہے۔ ننگما ویلی سنہ 1970 کی دہائی سے مغربی ٹریکرز اور راک کلائمبرز کی پسندیدہ منزل رہی ہے۔ یہ قراقرم رینج کا حصہ ہے جہاں 5,800 میٹر تک کے عظیم ٹاورز موجود ہیں جو اعتدال پسند سے لے کر ایڈوانسڈ راک کلائمبینگ کے لیے مثالی ہیں۔

سون ویلی

خوشاب ضلع میں واقع ایک اور کم مشہور سیاحتی جگہ ہے جو حالیہ برسوں میں آہستہ آہستہ سیاحوں کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔

یہ وادی سرگودھا میانوالی ہائی وے سے براہ راست جڑی ہوئی ہے اور یہاں قدرتی جھیلیں، پہاڑی مناظر اور جنگلی حیات کی کثرت ہے۔

 اگرچہ یہ ابھی تک بڑے پیمانے پر مشہور نہیں لیکن مقامی ہوٹلز اور سیاحتی سہولیات میں اضافہ اسے مزید پرکشش بنا رہا ہے۔ سیاح یہاں پیدل سفر، فشنگ اور قدرتی سکون کا لطف اٹھا سکتے ہیں اور یہ وادی پاکستان کے اندرون ملک کے ابھرتے ہوئے سیاحتی مقامات میں شمار ہوتی ہے جو ہجوم سے دور ایک پرامن تجربہ پیش کرتی ہے۔

وادی کا سب سے بڑا پرکشش مقام، جو 3,500 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جھیل پگھلنے والے برفانی پانی سے بھری ہوئی ہے اور اس کا پانی اتنا صاف ہوتا ہے کہ آس پاس کے پہاڑوں کی عکاسی صاف نظر آتی ہے۔ موسم بہار میں یہاں الپائن پھولوں کی رنگ برنگی قالین بچھ جاتی ہے۔

گوادر

گوادر بلوچستان کا ابھرتا ہوا ساحلی شہر ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے سیاح ہیمر ہیڈ راک فارمیشن اور آسٹولا آئی لینڈ کا لطف اٹھا سکتے ہیں جہاں واٹر ایکٹیویٹیز جیسے اسنارکلنگ اور فشنگ دستیاب ہیں۔

 یہ علاقہ قدرتی ساحلوں اور سمندری حیات کی وجہ سے توجہ حاصل کر رہا ہے اور حالیہ ترقیاتی کاموں نے اسے مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔

اگرچہ یہاں اب تک سیاحوں کا کوئی بڑا ہجوم نہیں ہوتا لیکن اس کی پرامن ساحلی خوبصورتی اور ثقافتی تنوع سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔

واضح رہے کہ گوادر کو ’بلوچستان کا مستقبل کا دبئی‘ کہا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخی عمارتیں اور متنوع کمیونٹیز (بلوچی، سندھی، عمانی) اسے ایک ثقافتی مرکز بناتی ہیں۔

ہنگول نیشنل پارک

ہنگول نیشنل پارک بلوچستان کے ساحلی علاقے میں واقع ہے۔ یہ ایک ایسا قدرتی خزانہ ہے جو ’پرنسس آف ہوپ‘ جیسی منفرد راک فارمیشنز اور ساحلی خوبصورتی پیش کرتا ہے۔

یہ اتنا مشہور نہیں ہے لیکن اب سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے خاص طور پر ان کے لیے جو قدرتی عجائبات اور وائلڈ لائف دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں کی ساحلی خوبصورتی اور جیولوجیکل خصوصیات اسے ایک منفرد مقام بناتی ہیں اور حالیہ برسوں میں یہ پارک ماحولیاتی سیاحت کے لیے مشہور ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: عیدالفطر پر بلوچستان کے کون سے سیاحتی مقامات کی سیر کی جاسکتی ہے؟

بلوچستان کے مکران کوسٹل علاقے میں واقع یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔ یہ تقریباً 6,100 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور لسبیلا، گوادر اور آواران اضلاع میں واقع ہے۔

یہ سنہ 1998 میں قائم کیا گیا۔ یہ پارک عرب سمندر کے ساحل سے ملحق ہے اور ہنگول ندی (بلوچستان کی سب سے لمبی ندی) کے نام پر مشہور ہے۔

ہنگول پاکستان کا بائیو ڈائیورسٹی ہاٹ اسپاٹ ہے جہاں تقریبا 257 پودوں کی اقسام، تقریبا 35 ممالیہ، اسی طرح 65 کے قریب رینگنے والے، 289 پرندوں اور درجنوں مچھلیوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔

یہاں نایاب جانور جیسے سندھ آئی بیکس، چنکارا ہرن، بلوچستان یوریل، فارسی لیوپارڈ، بلوچستان بلینک بیئر، مارش کروکوڈائل، گرین ٹرٹلز اور ہوبارا برڈ پائے جاتے ہیں۔ ہنگول ندی میں مہشیر مچھلی (انڈین کارپ) کی افزائش ہوتی ہے۔

رنی کوٹ فورٹ

اس کو ’دی گریٹ وال آف سندھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں واقع ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ سمجھا جاتا ہے جس کی دیواریں تقریباً 32 سے 40 کلومیٹر (مختلف ذرائع کے مطابق) کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کو چین کی عظیم دیوار سے مشابہت دیتی ہے۔

 یہ قلعہ کراچی سے تقریباً 90 کلومیٹر شمال مشرق میں کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ سنہ 2025 میں یہ قلعہ اپنی تاریخی اور تعمیراتی اہمیت کی وجہ سے سیاحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ کا مرکز ہے۔

حالیہ برسوں میں سندھ ٹورزم ڈیپارٹمنٹ نے رنی کوٹ کو سیاحتی مقام کے طور پر فروغ دیا ہے۔ سنہ 2025 میں نئی گائیڈڈ ٹورز اور کیمپنگ سہولیات متعارف ہوئی ہیں جو ایڈونچر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔

چیپورسن ویلی

یہ شمالی پاکستان میں واقع ہے۔ یہاں ہوم سٹیز اور مقامی کھانوں کا تجربہ سیاحوں کو ایک منفرد ثقافت سے روشناس کراتا ہے۔

یہ وادی تقریباً 60 کلومیٹر لمبی ہے اور واخان کوریڈور اور چین کے سنکیانگ صوبے کی سرحد سے ملحق ہے۔ یہاں کی بلندی 3,000 سے 4,700 میٹر تک ہے جو اسے دنیا کے بلند ترین آبادی والے علاقوں میں شمار کرتی ہے۔

یہاں کی ثقافت، گھوڑوں کی چراگاہیں، گلیشئرز اور نایاب وائلڈ لائف کی وجہ سے یہ وادی ایڈونچر پسند سیاحوں اور قدرتیات دانوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ سنہ 2025 میں یہاں کی کنزرویشن اور ایکو ٹورزم پروجیکٹس نے اسے مزید قابل رسائی بنا دیا ہے۔

مزید پڑھیں: ملک بھر میں 20 نئے سیاحتی مقامات کی منصوبہ بندی، وزیرِاعظم کی جامع حکمتِ عملی کی ہدایت

یہاں مارخور اور سنو لیپرڈ کے علاوہ مختلف جانور پائے جاتے ہیں جبکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہاں پرندوں کی بھی 150 سے زیادہ اقسام ہیں جن میں گولڈن ایگل بھی شامل ہے۔

کنڈ ملیر بیچ

یہ بلوچستان کا ایک اچھوتا ساحل ہے جو سیاحوں کو پرامن ماحول پیش کرتا ہے۔ یہاں کی قدرتی خوبصورتی اور کم ہجوم اسے ایک منفرد سیاحتی مقام بناتا ہے جو آہستہ آہستہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔

سنہری ریت، صاف نیلے پانی اور آس پاس کے پہاڑوں کی وجہ سے کنڈ ملیر دنیا کے 50 سب سے خوبصورت ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔

پارک کے اندر ہونے کی وجہ سے یہ قدرتی اور تاریخی جگہوں سے جڑا ہوا ہے جہاں سیاحت بڑھ رہی ہے مگر ابھی تک ہجوم سے محفوظ ہے۔ سنہ 2025 میں سی پیک پروجیکٹس اور ٹورازم کی ترقی سے یہ مزید قابل رسائی ہو گیا ہے جو کراچی سے ویک اینڈ ٹرپس کے لیے مقبول ہے۔

عالم پیر پاس ٹریک

یہ گلگت بلتستان کے علاقوں اسکردو اور استور کو جوڑنے والا ایک دلچسپ اور چیلنجنگ پیدل سفر کا راستہ اور پاکستان کی شمالی پہاڑیوں کا ایک انتہائی خوبصورت مقام ہے۔

 یہ ٹریک تقریباً 4,800 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور قراقرم اور ہمالیائی رینجز کے درمیان پھیلا ہوا ہے جہاں برف پوش چوٹیاں، صاف ستھری جھیلیں اور خاموش وادیاں ایک جادوئی منظر پیش کرتی ہیں۔

 یہاں مقامی پودے، جیسے الپائن پھل اور جڑی بوٹیاں، اور جنگلی حیات جیسے برفانی بکریاں اور پرندوں کی اقسام دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

 نشتر گھاٹ

سندھ کی اندرونی وادیوں میں واقع نشتر گھاٹ اور گٹ بیری جھیل پاکستان کی ان کم مشہور سیاحتی جگہوں میں شمار ہوتے ہیں جو قدرتی سکون، ماحولیاتی تنوع اور ثقافتی امتزاج پیش کرتی ہیں۔

نشتر گھاٹ دریائے سندھ کا ایک تاریخی گھاٹ ہے جو انڈس رور ڈالفن (اندھی ڈالفن) کی نایاب نسل کا گھر ہے جبکہ گٹ بیری جھیل سرسبز کھیتوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ مقامات ایکو ٹورزم کا مرکز بن رہے ہیں جہاں سالانہ ہزاروں سیاح بوٹ ریڈز، فشنگ اور مقامی ثقافت کا مزہ لے سکتے ہیں۔

یہ جگہیں سندھ کی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہیں جو صحرائی ماحول سے ہٹ کر ایک تازہ دم تجربہ دیتی ہیں۔

مزید پڑھیے: مدینہ منورہ دنیا کے 100 بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل

یہ مقامات ایکو ٹورازم کا مرکز بن رہے ہیں جہاں سالانہ ہزاروں سیاح بوٹ ریڈز، فشنگ اور مقامی ثقافت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

نشتر گھاٹ سندھ کے ضلع جیکب آباد یا سکھر کے قریب دریائے سندھ پر واقع ایک قدیم گھاٹ ہے، جو دریائے سندھ کی وسیع گہرائیوں اور کناروں کی خوبصورتی سے بھرا ہوا ہے۔

یہ گھاٹ تقریباً 18 کلومیٹر لمبا پھیلا ہوا ہے اور کیرتھر پہاڑوں سے ملتا ہے جہاں پانی کی گہرائی 10-15 میٹر تک ہوتی ہے۔ یہاں کا پانی صاف اور ٹھنڈا ہے جو مچھلیوں اور نایاب انڈس رور ڈالفنز کی افزائش نسل کا مرکز ہے۔

پاکستان کا بدلتا ہوا سیاحتی منظرنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے قدرتی وسائل، ثقافتی تنوع اور عوامی مہمان نوازی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ننگما ویلی سے گوادر، ہنگول پارک سے سون ویلی تک ہر مقام اپنی الگ کہانی سناتا ہے۔ سنہ 2025 پاکستان کے لیے سیاحت کے ایک نئے دور کی شروعات بن سکتا ہے جہاں قدرتی خوبصورتی کے ساتھ پائیدار ترقی اور مقامی کمیونٹیز کا فروغ ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان کے کم معروف سیاحتی مقامات رنی کوٹ قلعہ سون ویلی کنڈ ملیر گوادر ننگما ویلی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کے کم معروف سیاحتی مقامات رنی کوٹ قلعہ سون ویلی کنڈ ملیر گوادر ننگما ویلی حالیہ برسوں میں سیاحوں کو اپنی سیاحتی مقامات خوبصورتی اور گلگت بلتستان کی وجہ سے یہ سیاحتی مقام کو اپنی طرف میں واقع ہے پاکستان کی پاکستان کے اور ثقافتی ننگما ویلی اور مقامی ایک منفرد نشتر گھاٹ مقامات کی سیاحت کے سکتے ہیں پیش کرتی کم مشہور ہیں جہاں ہے جہاں کرتی ہے ہیں اور رہے ہیں کا مرکز دنیا کے یہاں کی یہ وادی میں یہ ہے اور ہیں جو اور یہ رہی ہے رہا ہے ہوا ہے سے ایک کے لیے ملک کے

پڑھیں:

جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف دنیا بھر میں یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیری عوام اس دن کو بھارتی جارحیت اور غیر قانونی تسلط کے خلاف احتجاج کے طور پر منا رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر صبح 10 بجے پورے ملک میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی تاکہ کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی اور ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں: نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس گردی کے خلاف ملک گیر یومِ سیاہ منانے کا اعلان

یومِ سیاہ کی اپیل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے دی تھی، جس کی حمایت مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھی کی ہے۔ اس موقع پر جلسے، سیمینارز اور ریلیوں کے ذریعے عالمی برادری کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کشمیر تنازع کے پُرامن حل میں تاخیر عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

تاریخی طور پر یہ دن اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی افواج نے جموں و کشمیر پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا جو تقسیمِ ہند کے اصولوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے صریح خلاف تھا۔

مزید پڑھیں: کل ملک بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا جائیگا، وزیراعظم پاکستان کے دورہ مظفرآباد کا امکان

یومِ سیاہ کے موقع پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ریلیاں، مظاہرے اور یکجہتی تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں، جن میں بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خاتمے اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے مطالبے کو دہرایا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27 اکتوبر 1947ء آل پارٹیز حریت کانفرنس بھارت پاکستان یوم سیاہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے معاشی استحکام کا انقلابی سفر، بھارتی ویب سائٹ کی رپورٹ میں بھی اعتراف
  • سونے کی قیمت میں آج بھی نمایاں کمی
  • سونے کی قیمت میں آج بھی بڑی کمی
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کیخلاف آج یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے
  • جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف دنیا بھر میں یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے
  • کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری کل 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منائیں گے
  • بھارت کا جنگی جنون: پاکستانی سرحد کے قریب فوجی مشقوں کے لیے نوٹم جاری کردیا
  • قدرت کا کمال: جنوبی کوریا میں گھاس گلابی رنگ اختیار کر گئی
  • افسوس بلوچستان کے بےشمار قدرتی وسائل اور اس کی دولت اب بھی زمین کے اندر دفن ہے، وزیر اعظم