رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
دنیا میں کچھ وادیاں صرف زمین کے ٹکڑے نہیں ہوتیں، وہ روح میں اتر جانے والے احساسات رکھتی ہیں۔ ان کی فضاؤں میں ایک ایسی لطافت گھلی ہوتی ہے جو انسان کو لمحوں میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
پاکستان کے شمال میں، چترال کے دل میں بسی کیلاش ویلی بھی ایسی ہی وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں قدم رکھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے دریا نے اپنا بہاؤ کچھ دیر کے لیے روک دیا ہے، اور انسان کسی قدیم، معصوم اور غیرمسخ شدہ دنیا میں داخل ہو گیا ہے۔
یہ وادی نہ صرف اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ اس تہذیب کے لیے بھی جس کے رنگ، نغمے اور رسومات آج بھی اپنی اصل حالت میں سانس لے رہی ہیں۔ کیلاشی لوگ ایک ایسی دنیا کی یاد دلاتے ہیں جہاں زندگی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بہتی تھی، جہاں موسم صرف موسم نہیں بلکہ ایک تہوار تھے، اور جہاں رقص اور موسیقی محض تفریح نہیں بلکہ روحانی زبان تھی۔
کیلاش ویلی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اونچے دیودار کے درخت، لکڑی کے روایتی گھر، چھتوں پر سوکھتے اخروٹ اور ندیوں کا گنگناتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ یہ منظر انسان کو بتاتا ہے کہ یہاں سہولت نہیں، سادگی ہے؛ مصنوعی روشنی نہیں، قدرت کا نور ہے؛ جدید شور نہیں، ہوا کی موسیقی ہے۔
وادی کا ہر پاسہ ایک الگ کہانی کہتا ہے۔ گاؤں کے درمیان سے گزرتے تنگ راستے، پتھروں سے بنے چھوٹے پل، اور پیچھے سے جھانکتی برف پوش چوٹیوں کا منظر، سب مل کر ایسا احساس پیدا کرتے ہیں جیسے انسان کسی داستانوی دنیا میں سانس لے رہا ہو۔
لیکن کیلاش کی اصل پہچان وہ لوگ ہیں جو اس وادی میں بستے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنی زبان، لباس اور رسومات کو نسلوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ ہر آنے والے تبدیلی کے طوفان کا مقابلہ بھی اپنی تہذیبی خوداعتمادی کے ساتھ کرتی ہے۔
کیلاشی خواتین، چلتے پھرتے رنگوں کے مجسمےاگر کیلاش کی سڑکوں پر کسی مسافر کی نظر سب سے پہلے کسی چیز پر ٹکتی ہے تو وہ یہاں کی خواتین ہیں۔ ان کا رنگین لباس، سیاہ چادر پر موتیوں اور دھاگوں کی کڑھائی، اور ہاتھ سے تیار کی گئی روایتی ٹوپی، جسے ’سُسٹر‘ کہا جاتا ہے، دیکھنے والے کو محوِ حیرت کر دیتی ہے۔ ان کے چہروں پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ ہوتی ہے۔ ایسی مسکراہٹ جو ان کی آزاد فطرت، مضبوط شناخت اور خوشی کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ خواتین صرف لباس کے ذریعے رنگ نہیں بکھیرتیں، بلکہ اپنی گفتگو، نغموں اور طرزِ زندگی سے بھی ایک روشن احساس پھیلاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح ان کی سادگی، مہمان نوازی اور خالص انسانیت سے بےحد متاثر ہوتے ہیں۔
کیلاش میں سال بھر ثقافتی تہواروں کی رونق لگی رہتی ہے۔ یہ تہوار صرف رسومات کا مجموعہ نہیں ہیں، بلکہ زندگی کے ساتھ ان کا ایک جذباتی اور روحانی رشتہ ہے۔
چلم جوشٹیہ تہوار موسمِ بہار کے استقبال کا جشن ہے۔ جب پھول کھلنے لگتے ہیں، پہاڑ سبز چادر اوڑھ لیتے ہیں، تو کیلاشی لوگ رقص، موسیقی اور اجتماعی دعا کے ساتھ فطرت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اوچالگرمیوں کا تہوار جو فصل کی کٹائی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ یہ شکرانے کی تقریب ہے جس میں گیت گائے جاتے ہیں اور مقدس مقامات پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔
پوٹھ (چترمس ماس)یہ سردیوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس میں رات بھر آگ کے گرد رقص ہوتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں اور لوگ اپنی پرانی روایات کو تازہ کرتے ہیں۔
ان تہواروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کسی تفریق کی گنجائش نہیں۔ مرد، عورتیں، بچے، بزرگ سب ایک ہی دائرے میں مل کر رقص کرتے ہیں، ایک ہی زبان میں خوشی مناتے ہیں۔ شاید یہی اجتماعی احساس انہیں دنیا کی زندہ تہذیبوں میں ممتاز بناتا ہے۔
دنیا کے کئی خطوں میں ایسی تہذیبیں آباد ہیں جو آج بھی اپنی روایتی شکل میں قائم ہیں۔ کیلاش ان میں سے ایک ہے، مگر یہ واحد نہیں۔ دنیا کے مختلف خطے جاپان، امریکہ، سائبیریا، جنوبی امریکہ اور افریقہ جیسی قوموں کا مسکن ہیں جو جدید دنیا کی برق رفتار ترقی کے باوجود اپنی شناخت سے جڑی ہوئی ہیں۔
جاپان کے آئینو لوگآئینو لوگ ایک منفرد ثقافت کے حامل ہیں۔ ان کی اپنی زبان، لباس، رسمیں اور دیومالائی کہانیاں ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی رقص، موسیقی اور فطرت کے احترام کو اپنی روح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ دونوں ثقافتوں میں موسموں کی تبدیلی کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور تہوار فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کی علامت ہیں۔
نیٹیو امیریکن قبائلریڈ انڈینز کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ ان کے پاوٹا ڈانس، ڈرم بیٹس، ڈریم کیچر، اور قبائلی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ کیلاش کی طرح یہ لوگ بھی زمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعی رقص اور گیتوں میں بھی وہی روحانی کیفیت پائی جاتی ہے جو کیلاش کے تہواروں میں نظر آتی ہے۔
پیرو کے انڈین قبائلایمیزون کے جنگلات اور انڈیز کے پہاڑوں میں بسنے والے قبائل اپنی رنگین روایات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے تہواروں میں بھی فصل کی خوشی، سورج کی عبادت، اور موسم کے احترام کا جذبہ جھلکتا ہے۔ ان کا لباس، ماحولیاتی عقائد اور رنگوں سے محبت کیلاش سے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔
افریقہ کے ماسائی لوگماسائی قبائل اپنے سرخ لباس، موتیوں والے زیورات اور ’جمپ ڈانس‘ کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ رقص ان کے لیے صرف جسمانی مشق نہیں بلکہ شناخت، دعا اور طاقت کا استعارہ ہے۔ یہی کیفیت کیلاش میں بھی ملتی ہے—جہاں رقص ایک زبان ہے، ایک عبادت ہے، ایک اجتماعی بندھن ہے۔
سائبیریا کے شمان قبائلسائبیرین شمان ازل سے روحانیت، ڈھول اور قدرتی طاقتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی سخت موسموں کے باوجود برقرار ہے۔ کیلاش کی طرح وہ بھی اپنی میراث کو زمانے کے دباؤ سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں قومیں بتاتی ہیں کہ اپنی شناخت پر قائم رہنے کا جذبہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔
کیوں زندہ تہذیبیں انسانیت کا سرمایہ ہیں؟آج کی دنیا میں جن معاشروں نے اپنی روایات کو قربان کر کے جدیدیت کو گلے لگایا ہے، وہ بےشک ترقی یافتہ ہیں مگر اکثر اپنی اصل خوشبو کھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف کیلاش، آئینو، ماسائی، نیٹیو امیریکن اور دیگر زندہ ثقافتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ترقی اور روایت ایک ہی راستے پر ساتھ چل سکتے ہیں۔ اہم بات توازن ہے۔
یہ زندہ تہذیبیں ہمیں بتاتی ہیں کہ:
فطرت محض نظارہ نہیں، ایک تعلق ہے
رقص صرف جسمانی ادا نہیں، دل کی زبان ہے
تہوار صرف رسمیں نہیں، اجتماعی روح ہیں
ثقافت ماضی کی داستان نہیں، حال کی سانس ہے
شناخت چھوڑے بغیر بھی انسان مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے
دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی تنوع میں ہے، اور زندہ روایتی ثقافتیں اس تنوع کے رنگوں کو زندہ رکھنے والی روشنی ہیں۔
کیلاش ویلی دنیا کے لیے صرف سیاحتی مقام نہیں، بلکہ ایک درسگاہ ہے۔ یہ وادی ہمیں بتاتی ہے کہ خوشی سادگی میں ہے، ہم آہنگی فطرت میں ہے، اور شناخت محبت میں ہے۔ اس وادی کی تہذیب نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ایسا ثقافتی خزانہ ہے جسے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
کیلاشی لوگ اپنی زبان، مذہب، رسومات، لباس اور موسیقی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب ان کی پہچان ہے، اور پہچان چھوڑ دینے والی قومیں کبھی مضبوط نہیں رہتیں۔
کیلاش صرف پہاڑوں کے درمیان چھپی ایک وادی نہیں، بلکہ ایک زندہ احساس ہے۔ ایک ایسا احساس جو انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی فطرت، محبت، دعا، جشن اور انسانیت میں ہے۔ یہ وادی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ثقافت وہ چراغ ہے جس کی روشنی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے، اور جب تک یہ چراغ جل رہا ہے، انسان اپنے ماضی، حال اور مستقبل سے جڑا رہتا ہے۔
دنیا کے مختلف گوشوں میں بسی ایسی ثقافتیں چاہے آئینو ہوں، ماسائی ہوں، انڈین قبائل ہوں یا نیٹیو امیریکن سب ایک ہی پیغام دیتی ہیں:
انسان اپنی اصل بھولے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے،
اور اپنی روایتوں کو بچا کر بھی دنیا کی دوڑ میں شامل رہ سکتا ہے۔
کیلاش زندہ ہے، اور اس کا زندہ رہنا ہم سب کے لیے امید کی وہ کرن ہے جس سے دنیا کی ثقافتی رنگینی ہمیشہ باقی رہے گی۔
تحریرو تحقیق سیدہ سفینہ ملک
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھی اپنی دنیا میں کیلاش کی کرتے ہیں کے ساتھ دنیا کی سکتا ہے دنیا کے کے لیے میں ہے ایک ہی ہیں کہ
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی بھارتی سازش کامیاب کر رہے ہیں: مریم اورنگزیب
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایک ہی 9 مئی ہو سکتا ہے بار بار نہیں۔ بانی پی ٹی آئی بھارتی سازش کو کامیاب کررہے ہیں۔ ایسے عناصر سے ملک دشمن کی طرح نمٹا جائے گا۔ ذہنی مریض سے صرف ذہنی ڈاکٹر مذاکرات کر سکتا ہے۔ وفاق میں نفاق پھیلانے والے کو غدار کہا جاتا ہے۔ ان کی بہنیں انڈین میڈیا پر ملک کو متنازعہ کرتی ہیں اس کی کسی کو اجازت نہیںدیں گے۔ یہ ملکی دفاع، سلامتی و استحکام کا معاملہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس قوم کی ترجمانی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ملکی سلامتی سے بڑھ کر نہیں۔ اپنی گندی زبان سے صوفج کو متنازعہ بناتے ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی۔ بدتمیزی اور تکبر بانی پی ٹی آئی کا ویژن ہے۔ نیازی نے گالی گلوچ کے کلچر کو فروغ دیا۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر فورسز، ملکی سلامتی کیخلاف پراپیگنڈا کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی پراپیگنڈا مشینیں بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ سرخ لکیر عبور کرنے والے کی سزا آئین میں درج ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی کرپشن چھپانے کیلئے 9 مئی کا سانحہ کیا۔ تین سو سے زائد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔