Islam Times:
2025-12-11@14:16:26 GMT

غزہ جنگ بندی اور مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

غزہ جنگ بندی اور مشکلات

اسلام ٹائمز: فلسطینی عوام اس موسم میں صرف موسمی سردی نہیں سہہ رہے، بلکہ عالمی بے حسی کی ٹھنڈ بھی برداشت کر رہے ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ عالمی برادری اور مسلم دنیا فوری طور پر غزہ کے عوام کی مدد کے لیے متحد ہو اور سرد موسم کے اس بحران کو کم کرنے کے لیے مؤثر قدم اٹھائے۔ عالمی برادری سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے غزہ کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد کو یقینی بنائیں، تاکہ اس المیہ اور بحران کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ ہم سب کی انسانی، اخلاقی، دینی و سیاسی ذمہ داری ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

فلسطینی علاقہ غزہ کی پٹی جو گذشتہ بیس سال سے مسلسل انسانیت کش محاصرہ کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے کارکن غزہ کو کھلی جیل بھی کہتے ہیں۔ غزہ کا نام آتے ہی مصائب اور درد ناک داستان ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ دو سال قبل امریکی ایماء اور مسلسل مسلح حمایت سے غاصب صیہونی فوج نے غزہ پر ایک وحشیانہ حملہ شروع کیا تھا، جو ابھی تک جاری ہے۔ اس حملہ اور نسل کشی کے بعد دو ماہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے ایک ڈرامائی جنگ بندی کا معاہدہ پیش کیا اور اس معاہدے پر کچھ مسلمان ممالک کی حکومتوں نے بھی دستخط کر دیئے، تاکہ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ بند ہوسکے۔ ظاہری طور پر جنگ بندی ہوچکی ہے، لیکن حقیقی معنوں میں غاصب اسرائیلی افواج مسلسل غزہ میں جارحیت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی مبصرین نے اس جنگ بندی کے معاہدے کو جعلی جنگ بندی معاہدہ قرار دیا ہے۔

غزہ، جو دنیا کا سب سے زیادہ محاصرے میں جکڑا ہوا علاقہ ہے، جس نے قحط اور نسل کشی کا سامنا کیا ہے۔ حال ہی میں جنگ بندی کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب غزہ کے لوگوں کو زندگی کی امید ملے گی، لیکن امید تو ملی مگر اس امید کے مکمل ہونے میں ابھی بھی متعدد رکاوٹیں موجود ہیں، جن میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل اور اس کی ہٹ دھرمی اور اس پر امریکی سرپرستی ہے۔ غزہ میں اب موسم سرما شروع ہوچکا ہے۔ غزہ ہر سال سرد موسم کے آغاز کے ساتھ ایک نئے امتحان کا سامنا کرتا ہے۔ گذشتہ سال تو اس سرد موسم میں جہاں نسل کشی جاری تھی، وہاں غزہ کے مکینوں کو خیموں کی چھت بھی نصیب نہ تھی اور ظلم تو یہاں تک دیکھا گیا کہ معصوم اور ننھے بچے بارش کے ٹھنڈے پانی اور کیچڑ میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حصہ میں کامیابی لکھنے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ تو دے دیا ہے، لیکن اس سال کا موسم سرما بھی جنگ کے آثار کی وجہ سے گذشتہ سالوں کی نسبت کم کٹھن نہیں بلکہ زیادہ مشکلات کے ساتھ ہے۔ غزہ کا علاقہ کہ جہاں ایک طرف بمباری، بے گھری اور انسانی بحران نے زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے، وہیں دوسری طرف سرد موسم نے فلسطینی عوام کی مشکلات میں وہ شدت پیدا کر دی ہے، جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ تباہ شدہ مکانات، پناہ گاہوں کی کمی، ایندھن کی قلت، صحت کے بحران اور خوراک و پانی تک محدود رسائی نے غزہ کے لوگوں کے لیے سردی کو ایک جان لیوا موسم میں بدل دیا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے لاکھوں افراد کو گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔ پورے خاندان کھلے آسمان تلے یا عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

سرد ہوائیں، بارشیں اور گرتا ہوا درجہ حرارت اُن کے لیے شدید خطرہ بن چکا ہے۔ تباہ شدہ عمارتیں، ٹوٹے دروازے اور کھڑکیاں اور جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر موسمِ سرما کے دوران کسی بھی پناہ گاہ کی مؤثر حفاظت نہیں کر پاتے۔ جنگ اور سردی کا یہ امتزاج انسانی بحران کو نئی انتہا تک لے گیا ہے۔ دوسری طرف غزہ بھر میں خیمہ بستیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان خیموں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ عموماً یہ خیمے بارش روکنے کے قابل نہیں اور ذرا سی ہوا سے پھٹ جاتے ہیں۔ کئی خیموں میں شدید سردی میں بھی گرم کپڑے، کمبل یا مناسب بستروں کا انتظام موجود نہیں۔ چھوٹے چھوٹے خیموں میں کئی کئی خاندان ٹھونسے ہوئے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے بلکہ پرائیویسی اور انسانی وقار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

غزہ کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بارش کے دوران خیموں میں پانی بھر جانا، مٹی کا کیچڑ بن جانا اور بچوں کا بیمار ہو جانا روز کا معمول بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں سرد موسم محض تکلیف نہیں بلکہ بقاء کا چیلنج بن جاتا ہے۔ ایندھن، بجلی اور حرارتی وسائل کی شدید کمی ہے۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے غزہ میں ایندھن کا داخلہ تقریباً ناممکن ہے، جس کے نتیجے میں لوگ حرارت پیدا کرنے سے محروم ہیں۔بجلی کی بندش، گیس سلنڈروں کی نایابی، لکڑی اور کوئلے کی کمی نے سردی میں معمولاتِ زندگی کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ بہت سے خاندان ساحل کی لکڑی، کپڑوں کے ٹکڑے یا کچرا جلانے پر مجبور ہیں، جو نہ صرف ناکافی ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ حرارت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں، بیماروں اور بزرگوں میں نمونیا، سانس کی بیماریاں، بخار اور انفیکشنز تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

غزہ میں جنگ کے دوران صحت کا نظام پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے۔ غاصب صیہونی فوج نے غزہ کے تمام ہی اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ہسپتالوں کی بڑی تعداد زمین بوس ہوچکی ہے اور جو باقی ہیں، وہ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سرد موسم میں نمونیا کے مریض بڑھ رہے ہیں، سانس کی بیماریوں کا پھیلاؤ تیز ہو رہا ہے، صاف پانی کی کمی اور سردی کے باعث پیٹ کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، زخموں اور انفیکشنز کا علاج نہ ہونے کے باعث کئی اموات ہو رہی ہیں۔ ادویات، سیرنجز، آکسیجن سلنڈرز، ویکسین اور گرم کمبلوں کی شدید کمی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سردی اور بیماریوں کا یہ بحران جنگ کے نقصانات کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ سردی میں انسانی جسم کو زیادہ توانائی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن غزہ میں خوراک کی رسائی پہلے ہی محدود ہے۔ بیشتر خاندانوں کو دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے، جبکہ گرم خوراک تو واقعاً نایاب ہے۔

پانی کی قلت نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بارش کے پانی کو جمع کرنا بھی خیمہ بستیوں کے لیے آسان نہیں اور سرد موسم میں گندا یا آلودہ پانی پینا بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ بچوں میں غذائی قلت (malnutrition) تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر: بچے، عورتیں اور بزرگ سرد موسم کا سب سے زیادہ اثر کمزور طبقات پر پڑتا ہے۔ بچے مناسب لباس کی کمی گیلے خیموں میں رہائش، سردی کے باعث خطرناک بیماریاں نفسیاتی صدمے، خوف، بے چینی، صفائی کے مسائل، حاملہ خواتین کے لیے خطرات، بچوں کی دیکھ بھال میں مشکلات، بزرگ افراد کے لئے جسمانی کمزوری کے باعث سرد موسم سہنا مشکل، یہ تمام طبقات انسانی مدد کے شدید منتظر ہیں۔ ایسی صورتحال میں غزہ کے لوگوں کو بلا رکاوٹ امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کے مطابق سرد موسم کے باوجود امداد کی رسائی انتہائی کم ہے۔

ہر گھنٹے کی تاخیر غزہ میں انسانی جانوں کا نقصان بڑھا رہی ہے۔ محاصرہ، بمباری، سڑکوں کی تباہی اور سیاسی رکاوٹیں امداد پہنچنے میں سب سے بڑی وجہ ہیں۔اسرائیل نے معاہدے کے باوجود رفح کراسنگ کو امدادی سرگرمیوں کے لئے مکمل طور پر فعال نہیں ہونے دیا ہے۔ ان حالات میں سردی غزہ کے نہتے عوام کے لیے ایک خاموش قاتل کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ان تمام تر شدید مشکلات کے باوجود فلسطینی عوام ہمت، حوصلے اور یکجہتی کی مثال قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا، محدود وسائل کا مشترکہ استعمال اور حالات کا مقابلہ کرنا اُن کے اجتماعی شعور کی علامت ہے۔ یہی استقامت انہیں سردی اور جنگ کے اس دوہرے عذاب کے خلاف کھڑا رکھے ہوئے ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غزہ میں سرد موسم صرف موسمی تبدیلی نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جو جنگ، محاصرے اور غربت کے ساتھ مل کر بے شمار جانوں کے لیے شدید خطرہ ہے۔ یہ صورت حال عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور فوری عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ پناہ گاہوں کی فراہمی، حرارتی وسائل، خوراک، ادویات، کمبل، صاف پانی اور محفوظ ماحول کے بغیر غزہ میں سردی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ فلسطینی عوام اس موسم میں صرف موسمی سردی نہیں سہہ رہے، بلکہ عالمی بے حسی کی ٹھنڈ بھی برداشت کر رہے ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ عالمی برادری اور مسلم دنیا فوری طور پر غزہ کے عوام کی مدد کے لیے متحد ہو اور سرد موسم کے اس بحران کو کم کرنے کے لیے مؤثر قدم اٹھائے۔ عالمی برادری سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے غزہ کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد کو یقینی بنائیں، تاکہ اس المیہ اور بحران کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ ہم سب کی انسانی، اخلاقی، دینی و سیاسی ذمہ داری ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عالمی برادری فلسطینی عوام بیماریوں کا سرد موسم کے ذمہ داری ہے کا مقابلہ کی وجہ سے کہ عالمی ہم سب کی کے باعث اور سرد رہے ہیں کے لئے دیا ہے جنگ کے کی کمی غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے ذریعے تجارت معطل ہونے سے افغان تاجروں کو سخت مشکلات

فائل فوٹو

افغانستان کی پاکستان کے ذریعے تجارت 2 ماہ سے معطل ہے جس کے باعث افغان تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

افغان میڈیا کے مطابق افغان برآمدات و درآمدات کے لیے کراچی بندرگاہ تیز اور کم خرچ راستہ ہے اور کابل سے کراچی تک مال کی ترسیل 3 سے 4 دن میں ہوجاتی ہے۔

افغان ٹی وی رپورٹ کے مطابق کابل سے کراچی تک ایک کنٹینر کی اوسط لاگت تقریباً 2 ہزار ڈالر ہے جبکہ چاہ بہار سے کابل کا سفر 7 سے 8 دن میں مکمل ہوتا ہے اور اس کی لاگت اوسطاً 4 ہزار ڈالر فی کنٹینر ہے۔

افغان طالبان حکومت کا تاجروں کو پاکستان کیساتھ تجارت ختم کرنے کا حکم

کابلافغان طالبان حکومت کا افغانی تاجروں سے...

افغان میڈیا کے مطابق چاہ بہار کراچی کے مقابلے میں تقریباً 4 دن زیادہ وقت طلب اور لاگت دگنی ہے، شمالی راستوں سے افغانستان سے روس یا بحیرہ اسود تک پہنچنے میں 15 سے 25 دن لگ سکتے ہیں۔

ہوائی راہداری سے برآمدات ممکن ہیں لیکن لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں۔ لاگت، وقت اور ترسیلی صلاحیت کے لحاظ سے کراچی بندرگاہ ہی افغانستان کے لیے مؤثر راستہ ہے۔

افغان میڈیا نے اپنے تاجروں کے حوالے سے بتایا کہ اگر پاکستان بارڈر نہ کھلا تو سپلائی چین مزید بگڑے گی۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا تاریخی فیصلہ واضح پیغام ہے فیض حمید غیرقانونی کام کر رہے تھے، بلاول بھٹو
  • فیض حمید فرعون تھا، اس کو ملی سزا مثال ہے، بلاول بھٹو کا خیرمقدم
  • ٹنڈولہیار،موسم سرما آتے ہیں گیس لوڈشیڈنگ شروع
  • پاکستان کے ذریعے تجارت معطل ہونے سے افغان تاجروں کو سخت مشکلات
  • سردی کے موسم میں گلے کی خراش دور کرنے کے مفید گھریلو ٹوٹکے
  • اسلام آباد،سخت سردی میں شہری آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہیں
  • کراچی میں موسم سرما کا گرم ترین دن ریکارڈ، آنے والے دنوں میں سردی بڑھنے کا امکان
  • سردی کی شدت بڑھتے ہی  لنڈا بازار میں خریداروں کا رش
  • کوئٹہ میں سردی ہے انتخابات معطل کر دیں، حکومت کی الیکشن کمیشن سے درخواست