عمران خان نے رویہ نہ بدلا تو 2026 کے بعد بھی جیل سے باہر نہیں آئیں گے، ذرائع کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے امکانات فی الحال نہ ہونے کے برابر دکھائی دے رہے ہیں، اور اگر کوئی معجزہ، سیاسی ڈیل یا غیر متوقع عدالتی ریلیف نہ ملا تو امکان ہے کہ وہ 2026 کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی جیل میں رہیں گے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے سخت گیر رہنما اب بھی تصادم کی پالیسی پر قائم ہیں، جبکہ تحمل مزاج رہنما اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب تک محاذ آرائی کا رویہ ختم نہیں ہوتا، عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔
ذرائع کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف جاری القادر ٹرسٹ کیس اور دیگر مقدمات کی نوعیت پیچیدہ ہے، جن کے باعث فوری ریلیف کے امکانات کم ہیں۔ اس کیس میں دونوں کو 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم ان کی سزا کی معطلی اور اپیل کی سماعت تاحال اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقرر نہیں ہوئی۔
عدالتی ذرائع کے مطابق، ہائی کورٹ کی “فکسیشن پالیسی” کے تحت کیسز کی سماعت دائر ہونے کی ترتیب سے کی جاتی ہے، جبکہ سزائے موت اور عمر قید کے مقدمات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چونکہ عمران خان کی اپیل 31 جنوری 2024 کو دائر کی گئی تھی، اس لیے موجودہ عدالتی بیک لاگ کے پیش نظر رواں سال اس پر سماعت کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پارٹی کے اندر موجود غیر مصالحت پسند عناصر نے مذاکرات کی مخالفت کرکے عمران خان کے لیے قانونی معاملات مزید مشکل بنا دیے ہیں۔ جب تک القادر ٹرسٹ کیس میں سزا برقرار رہے گی، ان کی رہائی ممکن نہیں۔
اسی دوران، توشہ خانہ دوم کیس بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر اس میں بھی سزا سنائی گئی تو اپیلوں کی سماعت سے پہلے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مزید قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید یہ کہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق درجنوں مقدمات بھی تاحال زیرِ سماعت ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق استغاثہ کے پاس اتنے قانونی حربے موجود ہیں کہ ان کیسز کو طول دیا جا سکتا ہے، جس سے عمران خان کی رہائی مزید مؤخر ہو سکتی ہے، چاہے وہ کچھ مقدمات میں بری ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حتیٰ کہ بہترین صورتحال میں بھی، اگر عمران خان کو تمام بڑے مقدمات میں بریت مل جائے تو یہ عمل وقت طلب ہے، اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان کی قید کم از کم 2026ء تک برقرار رہنے کا امکان ہے، جب تک کوئی غیر معمولی سیاسی یا عدالتی پیش رفت سامنے نہیں آتی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عمران خان کی ان کی رہائی کے مطابق
پڑھیں:
عمران خان سے جیل ملاقاتوں کے آرڈر پر عملدرآمد کا حکم
سلمان اکرم جن کے نام دیں ان کی عمران سے ملاقات کرائی جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم
باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی ہیں، سلمان اکرم کی طرف سے کوئی لسٹ نہیں آئی،سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو سلمان اکرم راجہ کی فہرست میں شامل افراد کو عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پرمشتمل بینچ نے عمران خان سے جیل ملاقاتوں کی درخواستوں پر سماعت کی جس دوران ایڈوکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، عمران خان کے وکیل سلمان اکرم اورسپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جن رولز کو معطل کردیا وہ وفاق کے رولز ہیں ہی نہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد یہ رولز اب پنجاب کے جیل رولز ہیں۔اس موقع پر سلمان اکرم نیدلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہماری توہین عدالت کی درخواستیں آج سن لیں، وزیراعلی خیبر پختونخوا کی ملاقات کی درخواست دائر ہے، 24 مارچ کو اسی لارجر بینچ نے آرڈر کیا، عدالتی آرڈر پر کسی ایک دن بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق ہم ہربار نام دیتے ہیں مگر انہیں جانے کی اجازت نہیں ملتی، لسٹ میں جو نام جاتے ہیں ان میں سے باہر کا بندہ ایڈ کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالا جیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی ہیں، سلمان اکرم راجہ کی طرف سے ہمارے پاس کوئی لسٹ نہیں آئی۔ بعد ازاں عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالاجیل کو عمران خان سے جیل میں ملاقاتوں کے 24 مارچ کے آرڈر پرعملدرآمد کا حکم دیا۔عدالت نے ہدایت دی کہ سلمان اکرم راجہ جو فہرست دیں گے ان کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے۔