آزادی تحریکیں،بھارت کے لیے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے دعوئوں کے برعکس ”آزادی کی تحریکیں” بھارت کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے کہ بھارت میں آزادی پسندی کی تحریکیں تقریبا ختم ہو چکی ہے اور مزاحمت اب کوئی خاطر خواہ حیثیت نہیں رکھتی۔ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مزاحمتی تحریکیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور بڑی تعداد میں بھارتی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارتی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد 1990کی دہائی سے جاری ہے۔ اسکے علاوہ کئی بھارتی ریاستوں میں بھی آزادی اور خودمختاری کی تحریکیں شدت اختیار کر رہی ہیں۔ 1988 سے 2019 کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں 56ہزار سے زائد مزاحمت کے واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کے باوجود، بھارت کی مزاحمت کاروں کے خلاف جنگ انسانی جانوں کے بھاری نقصان کے ساتھ جاری ہے۔گزشتہ 32 برسوں کے دوران اوسطا ہر چار مزاحمت کاروں کے بدلے بھارت نے ایک فوجی اور دو شہری کھوئے ہیں۔بھارت کو اس کی بھاری قیمت 14ہزار930شہریوں اور 6ہزار413فوجی اہلکاروں کی جانوں کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ بھارتی فوج کایہ دعویٰ حقیقت سے بعید ہے کہ اس دوران بھارت بھر میں 23ہزار 386 مزاحمت کاروں کو ہلاک کیا گیا حالانکہ ہلاک ہونے والوں میں بہت سے عام شہری بھی شامل تھے۔بھارتی فورسز عام شہریوں اور مزاحمت کاروں میں فرق نہیں کرتیں اور معمولی شبہ پر کسی بھی شہری کو نشانہ بنا دیتی ہیں۔ بھارتی فوج کا یہ طرز عمل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی باعث بن رہا ہے۔
اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، پنجاب اور تری پورہ جیسی ریاستوں میں ہر سال مزاحمتی کارروائیوں کے دوران بھارتی فوجیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔6 مارچ 2000سے رواں سال 22اپریل کے دوران، صرف مقبوضہ کشمیرمیں 12ہزارسے زائدعسکری واقعات میں 4ہزار980بے گناہ جانوں کا ضیاع ہواجبکہ گزشتہ سال مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے نا جائز قبضے کے خلاف مزاحمت کے واقعات میں مجموعی طور پر5 افسران سمیت 29بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ رواں سال مقبوضہ کشمیر ، ناگالینڈ اور منی پور میں بھارتی تسلط کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کشمیر میں19بھارتی فوجی مجاہدین کے حملوں میں مارے گئے جبکہ 10 مئی کو پاکستان کیساتھ معرکہ حق کے دوران 250بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کے لئے وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراؤنڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، بہار، مغربی بنگال،مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔
بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس بابری مسجد کے انہدام گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماؤ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماؤ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔اسی طرح بھارتی پنجاب 1984کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو اندرون وبیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی سکھوں کا ایک مسلح گروپ بھارت سے علیحدہ ایک الگ ریاست خالصتان کے حصول کیلئے برسر پیکار تھا جس کی سرکوبی کیلئے اندرا گاندھی نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل میں فوج کے ایک سکھ جرنیل کو کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔بھارتی حکومت کے ایمائ پربھارتی فوج نے سکھوں کے انتہائی مقدس مذہبی مقام پر دھاوا بول کرجہاں ”دربار صاحب ” کی بے حرمتی کی وہاں عبادت کیلئے آئے ہوئے چار ہزار سے زائد سکھوںسمیت سکھوں کے مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرہ کوعلیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے خالصتان تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کا اعلان کر دیا۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کرکے بہر حال دنیا کو ایک پیغام ضرور دیدیا کہ وہ اب ایسے بھارت کے ساتھ رہنے کو قطعی تیار نہیں جہاں سکھوں کے جان ومال کے ساتھ ان کی مذہبی عبات گاہوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: مزاحمت کاروں علیحدگی پسند بھارتی فوجی بھارتی فوج بھارت میں میں بھارت تری پورہ بھارت کے کے دوران سکھوں کے بھارت کی تری پور کے خلاف منی پور کے ساتھ
پڑھیں:
مودی حکومت کی سفارتی لاپرواہی
ریاض احمدچودھری
بھارت نے وسائل عوامی فلاح کے بجا ئے جنگی تیاریوں میں جھونک دئیے حکومت کی توجہ ہندوتوا نظریہ ، اقلیتوں کی نسل کشی پر مرکوز۔بھارتی وزیرِا عظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت سفارتی تنہائی، معاشی بحران اور سماجی انتشار کی گہرائیوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ ناقص پالیسیوں، عوام دشمن فیصلوں اور جنگی جنون نے نہ صرف عوامی مسائل کو جنم دیا ہے بلکہ بھارت کی عالمی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں بھارتی پاسپورٹ کی درجہ بندی میں نمایاں گراوٹ آئی ہے اور بھارت 85 ویں نمبر پر جا پہنچا ہے۔ مودی حکومت نے ملک کے قیمتی وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ہتھیاروں کی خریداری اور جنگی تیاریوںمیں جھونک دیاہے جس کا خمیازہ بھارتی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کے 70 فیصد سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر خراب، جعلی ادویات اور طبی سہولیات کے فقدان نے مریضوں کی جان خطرے میں ڈال دی۔بیروزگاری کی شرح 5.1 فیصدتک جا پہنچی جس نے نوجوان طبقے کو شدید مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی توجہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی، مذہبی منافرت کو ہوا دینے اورہندوتوا نظریے کو ریاستی پالیسی بنانے پر مرکوز ہے ، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خطے کے امن و استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
بھارت میں مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ابتر صورتحال سے مودی حکومت کی "میک ان انڈیا” پالیسی کا پردہ فاش ہو گیاہے۔ 2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد مودی سرکار نے اپنی "میک ان انڈیا” پالیسی میں بھارت کو صنعتی طورپرخود کفیل ملک بنانے کا وعدہ کیاتھا،تاہم ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھارت کی معیشت میں مینوفیکچرنگ کا حصہ14فیصد سے بھی کم ہے۔بھارت میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے اعدادو شمار مودی کی ناقص معاشی حکمت عملی اور جھوٹے دعووئوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بھارت میں آج بھی موبائل فون اور سولر پینلز کی اسمبلنگ کیلئے پرزے اور خام مال چین سے درآمد کیے جاتے ہیں۔بھارتی فارماسیوٹیکل شعبے میں APIsکا 72 فیصد سے زائد حصہ اب بھی چین سے خریدا جاتا ہے، الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریز کے لیے بھارت کا چینی ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار ہے۔مودی سرکار کی پروڈکشن لنکڈ انسینٹو اسکیم کا فائدہ صرف چند محدود شعبوں کو ہواہے جبکہ بنیادی صنعتی ڈھانچے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ مسلسل ذبوں حال ہے ، بھارتی معیشت کا چین پر انحصار ختم ہونے کی بجائے بھارت میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہواہے۔
بھارتی فرم ڈکسن کا HKC Co پر انحصار اور چینی الیکٹرانک فرم بی وائی ڈی کے ساتھ جاری مذاکرات، مودی کی معاشی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بھارتی مینوفیکچرنگ کے عداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اصل پیداواری صلاحیت آج بھی چین کے پاس ہے۔بھارت مینوفیکچرنگ کے شعبے میں مکمل طورپر چین اورامریکہ پر انحصار کر رہاہے جس سے مودی حکومت کی معاشی ناکامیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ مودی سرکار کے خود کفالت اور معاشی آزادی کے دعوے درحقیقت عوامی حمایت حاصل کرنے کے سیاسی حربے ہیں۔چینی تعاون کے بغیر بھارت کی آئی ٹی اور الیکٹرونکس صنعت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی سرکار کی خود انحصاری محض فریب کا ایک نعرہ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 6 ماہ میں بھارت سے 100 سے زائد چینی ماہرین واپس بلا لیے گئے ہیں اور چینی انجینئرز کی واپسی کے بعد بھارت کی آئی فون پروڈکشن لائن سست روی اور ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ فاکسکون کے چینی ماہرین کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی پیداوار میں توسیع اور آمدنی میں اضافے کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس مقامی اسمبلی لائنز چینی ماہرین کی عدم موجودگی میں خودکفالت ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دی۔ بھارت میں ویلیو ایڈیشن یعنی ”خالص منافع”اب براہِ راست چینی تکنیکی معاونت سے منسلک ہو چکا ہے۔ فاکسکون کی بھارتی سبسڈری ”رائزنگ اسٹارز ہائی ٹیک” چینی ماہرین کے بغیر پیداواری اہداف حاصل کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔پریس ریڈر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت میں 80 سے 90 ملین آئی فونز سالانہ تیار کرنے کا ہدف اب چینی ماہرین کے بغیر صرف ایک تخمینہ محسوس ہوتا ہے۔ چینی انجینئرز کی واپسی نے بھارت میں ایپل کی طویل مدتی سرمایہ کاری کے عمل کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔بھارت کی جانب سے 68 فیصد درآمدی ٹیرف عائد ہونے کے باوجود، وہ امریکہ سے تجارتی رعایتوں کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس دوہرے معیار پر امریکہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کو ممکنہ طور پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی تنبیہ بھی جاری کر دی ہے۔اس ساری صورتحال نے بھارت کو سفارتی و معاشی سطح پر ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کی حمایت میں نرم رویے نے بھارت میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا اور سفارتی حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ اب اس خطے میں پاکستان کے ساتھ زیادہ تزویراتی (اسٹریٹجک) مفاہمت چاہتا ہے، جس سے بھارت کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔