خالصتان تحریک نے اب تک کیا حاصل کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
بھارتی سکھوں میں خالصتان تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی کئی پرو خالصتان رہنما بھارتی سیاست میں سرگرم ہیں۔
اِندرا گاندھی کے قاتل بے انت سنگھ کے بیٹے سربجیت سنگھ خالصہ اس وقت بھارتی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خالصتان تحریک اور مودی کا خوف
اسی طرح وارث پنجاب دے تنظیم کے بانی امرت پال سنگھ، جو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے نظریات سے متاثر ہیں، نے سنہ 2024 میں بھارتی عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ تاہم انتخابات سے قبل ہی بھارتی حکومت نے انہیں گرفتار کر کے آسام کی جیل منتقل کر دیا۔
امرت پال سنگھ نے وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بارے میں متنازع بیان دیا تھا کہ ’امت شاہ کا انجام اندرا گاندھی جیسا ہو گا‘، جس کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔
پرو خالصتان رہنما سمرنجیت سنگھ مان بھی سنہ 2022 میں بھارتی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سنہ 2024 تک ایوان کا حصہ رہے۔
خالصتان تحریک آج بھی مکمل ریاستی آزادی حاصل نہیں کر سکی مگر اس نے سکھ قوم کی جداگانہ شناخت، عالمی سطح پر سفارتی اثر اور سکھ ڈائسپورا کی سیاسی بیداری کو مضبوط بنایا ہے۔
یہ تحریک بھارت کے لیے نہ صرف داخلی سلامتی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک حساس اور دیرپا چیلنج بن چکی ہے۔
بیرونِ ملک تحریک کی قیادتبیرونِ ملک خالصتان تحریک کی سب سے توانا آواز گرپتونت سنگھ پنوں ہیں، جو تنظیم سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) کے بانی ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق ان پر ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات ہیں جب کہ پنوں خود کو ’سکھ حقوق کا عالمی علمبردار‘ قرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کینیڈا میں گرفتار خالصتانی رہنما اندر جیت سنگھ گوسل ضمانت پر رہا، اجیت ڈوول کو چیلنج
ان پر مبینہ طور پر بھارتی خفیہ اداروں کی جانب سے قاتلانہ حملے کی کوشش بھی کی گئی۔
گرپتونت پنوں نے گزشتہ چار برسوں میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک میں ’آزاد خالصتان ریفرنڈم‘ منعقد کیے، جن میں لاکھوں سکھوں نے حصہ لیا۔
آزاد خالصتان ریفرنڈم: عالمی توجہ کا مرکزسنہ2021 سے سنہ 2025 کے دوران ہونے والے ریفرنڈمز میں صرف امریکا اور کینیڈا سے 4 لاکھ کے قریب سکھ شریک ہوئے جن میں سے 90 فیصد نے آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دیا۔
ان ریفرنڈمز نے نہ صرف سکھ ڈائسپورا کو متحد کیا بلکہ بھارت کے لیے ایک سفارتی چیلنج بھی پیدا کر دیا۔
بھارتی حکومت نے سنہ 2019 میں سکھس فار جسٹس کو کالعدم قرار دیا۔
جون 2023 میں اسی تنظیم کے رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: لاہور پریس کلب سے خطاب کرنے پر خالصتانی رہنما گرپتونت سنگھ پنوں پر انڈیا میں مقدمہ درج
کینیڈین تحقیقات کے مطابق اس واردات میں بھارتی خفیہ اہلکار ملوث تھے جس کے بعد بھارت اور کینیڈا کے تعلقات شدید سفارتی بحران کا شکار ہو گئے۔
ان تنازعات کے باوجود، ان واقعات نے خالصتان تحریک کو عالمی میڈیا میں زندہ رکھا اور سکھوں کی قومی شناخت پر مباحث کو تقویت دی۔
بھارت کے لیے بڑھتا ہوا خطرہخالصتان تحریک بھارت کے لیے ایک سنگین سفارتی، عسکری اور داخلی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق کینیڈا کی سیاست نے خالصتانی قوتوں کو غیر معمولی آزادی دی ہے اور انہیں ایسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے جو بھارت کے مفاد اور تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کہا کہ ’ہم غیر قانونی عناصر کی بھارت مخالف سرگرمیوں پر تشویش رکھتے ہیں۔ میزبان حکومت کو چاہیے کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو جمہوری آزادیوں کا غلط استعمال کر کے علیحدگی پسندی یا تشدد کو فروغ دیتے ہیں‘۔
خالصتان تحریک کا تاریخی پس منظرخالصتان تحریک کا باقاعدہ آغاز سنہ 1980 کی دہائی میں ہوا جب جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے بھارتی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی۔
تاہم سکھوں میں علیحدہ قومی تشخص کی خواہش تقسیمِ ہند کے فوراً بعد سے موجود تھی۔ بہت سے سکھوں کو شکوہ تھا کہ ان کے متعدد مقدس مقامات پاکستان میں رہ گئے۔
سنہ 1920میں قائم ہونے والی اکالی دل سکھوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہی۔ اسی جماعت کی جدوجہد کے نتیجے میں سنہ 1966 میں پنجاب کو ایک الگ صوبے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
مگر سنہ 1970 کی دہائی کے آخر میں نوجوان سکھوں نے محسوس کیا کہ اکالی دل کی قیادت نرم رویہ اختیار کر چکی ہے۔ یہی خلا بھنڈرانوالہ نے پُر کیا اور وہ اکالی دل کی متوازی قوت بن کر ابھرے۔
اکالی دل اور بھنڈرانوالہ میں اختلافاتجرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور اکالی دل کے درمیان اختلاف کی بنیاد سکھ سیاست پر کنٹرول اور تحریکِ خودمختاری کے طریقہ کار تھی۔
اکالی دل مذاکرات اور پارلیمانی سیاست کا حامی تھا جب کہ بھنڈرانوالہ مسلح جدوجہد اور مذہبی سختی کے قائل تھے۔
بھنڈرانوالہ نے اکالی قیادت پر بھارت سے مفاہمت کرنے اور سکھ مفادات سے ’غداری‘ کا الزام لگایا، جس سے پنجاب میں مذہبی و سیاسی تقسیم گہری ہو گئی۔
آپریشن بلیو اسٹار اور اندرا گاندھی کا انجامجون 1984 میں بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل میں موجود سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے خلاف آپریشن بلیو اسٹار شروع کیا۔ اس کارروائی میں بھنڈرانوالہ مارے گئے۔
اسی سال اکتوبر میں اندرا گاندھی کو ان کے 2 سکھ محافظوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
سنہ1986 بعد ازاں آپریشن بلیک تھنڈر میں ہزاروں سکھ مارے گئے اور خالصتان تحریک وقتی طور پر کمزور پڑ گئی۔
خالصتان تحریک کی نمایاں کامیابیاںپنجابی صوبے کی تشکیل (1966):
سکھوں کی طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ پنجاب کی تنظیمِ نو کی صورت میں نکلا جس سے ایک سکھ اکثریتی ریاست وجود میں آئی۔ یہ مکمل آزادی نہیں تھی مگر سکھ شناخت کو تقویت ملی۔
سکھ شناخت کی عالمی آگاہیسنہ 1984 کے آپریشن بلیو اسٹار اور بعد کے سکھ مخالف فسادات نے دنیا بھر میں سکھوں کے حقوق کے مسئلے کو اجاگر کیا۔
سکھ ڈائسپورا نے خالصتان تحریک کو زندہ رکھا اور بین الاقوامی فورمز پر اپنی مذہبی و سیاسی شناخت کے لیے آواز بلند کی۔
آنندپور صاحب قراردادسنہ 1973 میں آنند پور صاحب قراردار کی منظوری نے سکھوں کی خودمختاری اور مذہبی شناخت کے مطالبات کو باقاعدہ شکل دی۔
اس قرارداد کے نتیجے میں سنہ 1978 کی آئینی ترمیم کے تحت سکھ مذہب کو ہندوازم سے الگ تسلیم کیا گیا — یہ خالصتان تحریک کی ایک اہم سیاسی کامیابی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آپریشن بلیو اسٹار اندرا گاندھی اندرا گاندھی کا قتل خالصتان تحریک سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ گولڈن ٹیمپل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا پریشن بلیو اسٹار اندرا گاندھی اندرا گاندھی کا قتل خالصتان تحریک گولڈن ٹیمپل خالصتان تحریک کی اندرا گاندھی بھارتی حکومت بھارت کے لیے میں بھارتی بلیو اسٹار کے خلاف کر دیا
پڑھیں:
اسلام آباد سندھ کی تقسیم سے باز رہے ،عوامی تحریک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251212-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، مرکزی رہنما ڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی، ایڈووکیٹ نجیب الرحمٰن مہیسر، پرہہ سومرو اور ایڈووکیٹ ایاز کلوئی نے اپنے مشترکہ پریس بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد کو سندھ کو تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں، ن لیگ کے رہنما سندھ توڑنے والی بیان بازی بند کریں۔ سندھ کی جغرافیائی وحدت پر حملہ پاکستان کے وجود پر حملہ ہے۔ سندھ توڑنے کی ایم کیو ایم کے دہشتگردوں والی ایجنڈا کی ن لیگی رہنماؤں کی حمایت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ سندھ کو توڑنے کا ایجنڈا ’’را‘‘ کا ایجنڈا ہے۔ را کے ایجنٹ سندھ میں نئے صوبے بنا کر ملک کو 71ء جیسے حالات کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ سندھ کو ٹکڑے کرنے کے بیانات دینے والے را کے ایجنٹ پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ نے قراردادِ پاکستان منظور کرکے پاکستان کو وجود دیا، پاکستان نے سندھ کو وجود نہیں دیا۔رہنماؤں نے مزید کہا کہ ن لیگ کے رہنما انتظامی یونٹس کے نام پر سندھ کو تقسیم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق خود کہتے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں، لیکن سندھ سمیت دیگر تمام صوبوں میں انتظامی یونٹس بنائے جائیں۔ ریلوے کو تباہ و برباد کرنے والا خواجہ سعد رفیق انتظامی یونٹس کے نام پر سندھ کو توڑنے کی مہم چلا کر ملک کو تباہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔