طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان کیمیائی منشیات کا عالمی مرکز بن گیا، خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
کابل/اسلام آباد (وقائع نگار) اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور منشیات و جرائم کے دفتر نے اپنی تازہ رپورٹ “افغانستان ڈرگ انسائٹس 2025″میں انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان تیزی سے کیمیائی منشیات خصوصاً کرسٹل میتھ (آئس) کی پیداوار اور اسمگلنگ کا عالمی مرکز بن چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افیون کی کاشت میں کمی کے بعد افغانستان میں اب منشیات بنانے والی کیمیائی لیبارٹریوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ 2017 سے 2021 تک ضبط ہونے والی مصنوعی منشیات کی مقدار 30 ٹن تک پہنچ گئی۔
مغربی افغانستان کی مقامی جھاڑی ’’ایفیڈرا‘‘ میتھ تیار کرنے کے لیے خام مواد کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے، جبکہ ہلمند، فرح، ہیرات اور نیمروز میں سینکڑوں چھوٹی لیبارٹریاں فعال ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان نہ صرف میتھ ڈرگز کی پیداوار بلکہ غیر قانونی منشیات کی عالمی ترسیل کا بھی مرکز بن گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق طالبان حکومت کے زیرِ سایہ منشیات کا کاروبار چھپایا نہیں جا سکتا، اور اس کے اثرات براہِ راست پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک پر پڑ رہے ہیں۔
پاکستان نے منشیات کے انسداد کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ پاک بحریہ نے حال ہی میں بحیرۂ عرب میں دو بحری جہازوں سے 972 ملین ڈالر مالیت کی کرسٹل میتھ اور کوکین ضبط کی، جس میں 2.
ماہرین کے مطابق خطے کے امن و استحکام کے لیے افغانستان کو منشیات سے پاک کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، بصورتِ دیگر اس کاروبار کے اثرات دہشت گردی اور غیر قانونی تجارت کے پھیلاؤ میں مزید شدت پیدا کریں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
بگرام ایئر بیس پر فوجی سازوسامان کی تیاری، افغان پروپیگنڈا بے نقاب
بگرام ایئر بیس پر فوجی سازوسامان کی تیاری ،افغانپروپیگنڈا بے نقاب
واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ میں طالبان رجیم کے اس دعوے کو غلط ثابت کیا گیا ہے جس میں بگرام ایئر بیس پر جنگی طیاروں اور بکتر بند گاڑیوں کی تیاری کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ سیٹلائٹ تصاویر اور دیگر شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ ان دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان نے ناکارہ طیاروں اور بکتر بند گاڑیوں کو محض رنگ روغن کرکے رن وے پر کھڑا کر رکھا ہے اور انہیں فعال فوجی تیاری کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی طالبان کی جانب سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا گیا، جس میں جنگی مشقیں، طیاروں کی مرمت اور عسکری پریڈز دکھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بگرام ایئر بیس مکمل طور پر فعال ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ میں بعض تحقیقاتی اور مفاداتی حلقے بگرام ایئر بیس کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں افغانستان میں چھوڑے گئے اسلحے اور فوجی سازوسامان میں خاص دلچسپی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ماضی میں بگرام ایئر بیس کی واپسی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
اس سے قبل امریکا کی خصوصی نگران جنرل برائے افغان تعمیر نو کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے دوران افغانستان میں تقریباً 7.1 ارب ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار اور فوجی سازوسامان چھوڑا گیا۔
رپورٹ میں اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص امریکہ میں افغان طالبان کی اصل حیثیت اور افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان درحقیقت اپنی سکیورٹی ضروریات کے لیے غیر منظم گروہوں پر انحصار کر رہے ہیں۔
ان حقائق سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ طالبان رجیم اپنے ساتھ تعاون کرنے والے دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی جاری رکھے گی اور دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر برقرار رکھنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں پیش کیے گئے شواہد پاکستان کے اس مؤقف کو بھی تقویت دیتے ہیں کہ طالبان کے دہشت گردانہ عزائم نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔
اس پوسٹ کو شیئر کریں