data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بدین (نمائندہ جسارت )جامعہ سندھ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری کا لاڑ کیمپس بدین کا دورہ ڈی سی بدین یاسر بھٹی کے ہمراہ مختلف علمی و تخلیقی پروگرام پر مشتمل لاڑ انٹرپرینیوریل گالا 2025 کا افتتاح کیا .

جامعہ سندھ یونیورسٹی جامشورو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے گزشتہ روز سندھ یونیورسٹی لاڑ کیمپس بدین کا دورہ کیا اس موقع پر انہوں نے ڈپٹی کمشنر یاسر بھٹی ، پر وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی لاڑ کیمپس پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان اور ماہر زراعت و ماحولیات پروف?سر ڈاکٹر اسماعیل کمبار کے ہمراہ ڈیپارٹمنٹ آف اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس کی جانب سے منعقدہ لاڑ انٹرپرینیوریل گالا 2025 ، ڈیپارٹمنٹ آف انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر کی پوسٹر پریزنٹیشن مقابلہ 2025، اور ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس کی جانب سے اسٹوڈنٹس سافٹ ویئر پراجیکٹس ایگزیبیشن 2025 کے سلسلہ میں علمی و تحقئقی سرگرمیوں پر مشتمل ایونٹ کا افتتاح کرنے کے علاوہ جائزہ اور مشاہدہ کیا ، اس موقع پر ڈپٹی کمشنر بدین یاسر بھٹی نے بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی، جب کہ تقریب میں اساتذہ، طلبہ و طالبات، معزز شہریوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے طلبہ اور طالبات کے پیش کردہ منصوبوں اور تعلیمی سرگرمیوں کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ لاڑ کیمپس کے طلبہ نے اپنے علمی و تخلیقی کام کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا ہے، جو نہ صرف نصابی اعتبار سے اہم ہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔ وائس چانسلر نے طلبہ اور اساتذہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ سندھ یونیورسٹی کا مقصد جدید، معیاری اور ہمہ جہت تعلیم کو فروغ دینا ہے تاکہ نوجوان طبقہ قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنا سکے۔پروگرام کے میزبان پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمٰن کمبھاتی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاڑ کیمپس نے 18 سالہ تعلیمی سفر میں نمایاں ترقی کی ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ اسے ایک مکمل جامعہ کا درجہ دیا جائے۔ انہوں نے کیمپس کے پی سی ون منصوبے کی موجودہ صورتحال سے بھی معزز مہمانوں کو آگاہ کرتے ہوئے اس کو مکمل اور عملی جامہ پہنانے کے لیے مدد اور رہنمائی کی درخواست کی ، مہمانِ خصوصی ڈپٹی کمشنر بدین یاسر بھٹی نے خطاب میں کہا کہ لاڑ کیمپس میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے اور اگر یہاں تعلیمی انفراسٹرکچر کو مزید وسعت دے کر نئی فیکلٹیز شامل کی جائیں تو خطے کے غریب و مستحق طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر مواقع میسر آسکیں گے۔

نمائندہ جسارت گلزار

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سندھ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر وائس چانسلر ڈاکٹر فتح یاسر بھٹی کہا کہ

پڑھیں:

جرمنی میں عدم تحفظ کا شکار خواتین

اسلام ٹائمز: فن، سائنس، سیاست اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین نے جرمن چانسلر فریڈرِش مَرٹس کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں خواتین کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

یورپی ملک جرمنی کی نصف سے زیادہ خواتین عوامی مقامات پر خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ تازہ ترین سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کی نصف سے زیادہ خواتین عوامی مقامات، خاص طور پر کلبوں اور ریلوے اسٹیشنوں میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ جرمن روزنامہ پاسایر نوئے پرسے نے رپورٹ کیا ہے کہ "سیوی" نامی ادارے کے سروے کے مطابق 55 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ عوامی جگہوں جیسے سڑکوں، پارکوں اور عوامی ٹرانسپورٹ میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ کلبوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے بارے میں سیکیورٹی کے احساس میں سب سے زیادہ کمی پائی گئی، جہاں صرف 14 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ خود کو وہاں محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ سروے کے تمام شرکاء (جن میں مرد بھی شامل تھے) میں سے تقریباً نصف یعنی 49 فیصد نے کہا کہ وہ مذکورہ عوامی مقامات پر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ آن لائن سروے 23 سے 27 اکتوبر کے دوران 18 سال سے زائد عمر کے 5000 افراد سے کیا گیا، جسے ادارے نے جرمنی کی مجموعی آبادی کا نمائندہ نمونہ قرار دیا ہے۔ 

جرمن خواتین ماہرین کا چانسلر کے نام کھلا خط
اس دوران فن، سائنس، سیاست اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین نے جرمن چانسلر فریڈرِش مَرٹس کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں خواتین کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط میں چانسلر کے حالیہ مہاجر مخالف بیانات پر تنقید کی گئی ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ مہاجرین نے شہروں کی ظاہری صورت کو بگاڑ دیا ہے اور اس پر رائے کے لیے لڑکیوں سے پوچھنا چاہیے۔ خواتین نے جواب میں لکھا کہ ہم لڑکیوں یعنی خواتین کی سیکیورٹی پر بات کرنا چاہتے ہیں، مگر سنجیدگی سے، نہ کہ اسے نسل پرستانہ بیانیوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے۔

دستخط کنندگان میں شامل نمایاں شخصیات
اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں سبز جماعت کی سیاستدان ریکارڈا لانگ، ماحولیاتی کارکن لوئیزا نوئبائر، گلوکارہ جوی دنالین، مصنفہ آلیس ہسٹرز، ماہرِ معاشیات ایزابیلّا ویبر، اداکارہ ملیکا فروتن، سماجیات دان یوتا آلمندینگر، اور مصنفات لینا گورلیک و میتو سانیال شامل ہیں۔

خط میں پیش کردہ 10 مطالبات
خط میں چانسلر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایک ایسا عوامی ماحول پیدا کیا جائے جہاں سب خصوصاً خواتین، خود کو محفوظ اور بااعتماد محسوس کریں۔ دس بنیادی مطالبات میں شامل ہیں:
۔ جنسی اور گھریلو تشدد کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی
۔ عوامی مقامات پر بہتر روشنی اور نگرانی
۔ خواتین کے قتل (Femicide) کو جرمنی کے قانون میں باقاعدہ جرم کے طور پر شامل کرنا
۔ خواتین پر تشدد کے درست اعداد و شمار جمع کرنا
۔ محفوظ پناہ گاہوں اور امدادی مراکز کے لیے خاطر خواہ فنڈز
۔ اسقاطِ حمل کے قانون میں اصلاحات
۔ ڈیجیٹل تشدد اور آن لائن نسل پرستی کے خلاف تحفظ
۔ خواتین کی مالی خود مختاری کو مضبوط کرنا
۔ بڑھتی عمر کی خواتین میں غربت کے خاتمے کے لیے پالیسی اقدامات
۔ عوامی آگاہی اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے ریاستی مہمات

شخصیات نے اعلان کیا ہے کہ ان کی یہ درخواست (petition) آن لائن شائع کی جائے گی تاکہ دیگر شہری بھی اس پر دستخط کر سکیں۔  

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب میں غیر معیاری ویڈیوز فوری بہتر بنانے کے لیے نیا اے آئی فیچر متعارف
  • پنجاب میں معدنیات و کان کنی کیلیے نیا قانونی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ
  • 35 سال عمر کے بعد خواتین اساتذہ مسئلہ بن جاتی ہیں‘ وائس چانسلر کا بیان صنفی امتیاز قرار
  • جرمنی میں عدم تحفظ کا شکار خواتین
  • خسرہ اور روبیلہ سے بچاؤ کی قومی مہم کا 17 نومبرسے آغاز ہوگا
  • وفاقی محتسب نے اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے بیانات کو صنفی امتیاز قرار دے دیا
  • ’35سال عمر کے بعد خواتین استاتذہ مسئلہ بن جاتی ہیں‘، وائس چانسلر کابیان صنفی امتیاز قرار
  • کے آئی یو اور واہ یونیورسٹی کے مابین اکیڈمک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط
  • ’آئین میں لکھ دینا چاہیے کہ وزیرِ خزانہ میمن برادری سے ہو‘، شاہد خاقان عباسی نے یہ انوکھا مشورہ کیوں دیا؟