مرحوم پیر محمد کالیہ کی خدمات
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-6
محمد حسین محنتی
پیر کے دن… پیر محمد جیتے گا۔ جیتے گا بھئی جیتے گا۔ پیر محمد جیتے گا۔ ووٹ دو میزان کو، بچالو پاکستان کو۔ ان گرجدار نعروں کی گونج میں پیر محمد کالیا صاحب کراچی کے حلقہ نمبر 7 سے 1970 میں جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے جمعیت علماء پاکستان کی طرف سے ایک بھاری بھر کم شخصیت اور ان کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی اور پیپلزپارٹی کی طرف سے جناب سوداگر درویش میدان میں تھے پیر محمد کالیہ 28 سالہ ہر دلعزیز نوجوان رہنما اور ایک کامیاب اور جذباتی مقرر تھے ایک طویل مہم جوئی، انتخابی کشمکش اور جان توڑ مقابلے کے بعد وہ چند ہزار ووٹوں سے رہ گئے۔ ان کی ہار کے بارے میں بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ قابل اور ڈگریاں رکھنے والا نوجوان امیدوار پیر محمد کالیا اور ملک کے چوٹی کے وکیل اے کے بروہی کو قوم نے سمجھا نہیں اور ہرا دیا۔ اس الیکشن میں میمن برادری نے ان کا بڑا ساتھ دیا۔ وہ خلوص محبت اور للہیت کے پیکر تھے جذبے اور حوصلہ سے کام کرنے کا عزم رکھتے تھے وہ ایک نیک بخت اور رحم رل انسان تھے اور اپنے سینے میں غریب اور مسکین کا درد رکھتے تھے۔ اس لیے انتخابات کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی سے تعاون اور حمایت کا سلسلہ برابر جاری رکھا لیکن خود کو میمن برادری کی خدمت اور اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا۔ میمن برادری نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ بانٹوا میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس کی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگئے۔ برادری کے غریب اور مشکلات میں پھنسے ہوئے افراد کی خدمت میں رات دن مصروف رینے لگے بانٹوا میمن برادری میں نوجوانوں کی شادی کے موقع پر پگڑی اور جہیز کی ہندوانہ رسم کے خلاف نیک اور صالح نوجوانوں کے ساتھ ملکر بانٹوا میمن اصلاحی انجمن کی بنیاد رکھی۔
پگڑی اور جہیز کے لیے خطیر رقم جمع کرنا لڑکی کے والدین کو مشکل ہوتا تھا اس کو ختم کرانے کے لیے بھرپور عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اجتماعی تحریک چلائی۔ اس کے نتیجے میں کئی نوجوانوں نے پگڑی کے بغیر شادی کی اور کئی نوجوانوں نے پگڑی کی رقم اپنے سسرال کو واپس کی۔ پیر محمد صاحب نے ایسے نوجوانوں کے اعزاز میں بڑے ہال میں برادری کی طرف شاندار استقبالیہ منعقد کیا اور اس کے خلاف اجتماعی ماحول بنایا ان کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے یہ رسم اب جان توڑ چکی ہے، اسی عرصے میں بانٹوا برادری کے انتخابات ہوئے اور ان کو صدر منتخب کر لیا گیا۔ اسی لیے بانٹوا میمن برادری میں تعلیم و تربیت، فرسودہ رسم و رواج کی اصلاح اور برادری کے غریب خاندانوں کی امداد کی وجہ سے ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آل پاکستان میمن فیڈریشن کی رفاہی اور سماجی خدمات میں بھی آپ پیش پیش رہے۔ دنیا بھر کی میمن برادری کو متحد کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اے آر وائی کے عبد الرزاق یعقوب صاحب نے تحریک شروع کی تو پیر محمد صاحب نے بھی آگے بڑھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس طرح ورلڈ میمن آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ انہوں نے ڈبلو ایم او کے آئین اور قواعد و ضوابط کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ ڈبلو ایم او کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے اور انہوں نے ڈبلو ایم او کے پاکستان چیپٹر کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں انہوں نے ڈبلو ایم او کے ذریعے برادری کے نوجوانوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے تعلیم اور خصوصاً اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ کا موثر نظام بنایا۔ برادری کے بے گھر اور پگڑی کے مکانوں میں رہائش پذیر غریب عوام کے لیے ری ہبیلیٹیسن رہائشی اسکیموں پر کام کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔ پیر محمد کالیا صاحب 1942 میں گجرات ہندوستان کے قصبے بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا انہوں نے مدرسہ اسلامیہ اسکول کھارادر سے میٹرک پاس کیا، ایس ایم کالج سے بی کام کیا۔ اس وقت سی اے کا امتحان چند طلبہ ہی پاس کرسکتے تھے انہوں نے اچھی طرح سے پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایم اے، ایل ایل بی، اے سی ایم اے اور ایف سی آئی ایس اور دیگر کئی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی لیے ان کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور قابل شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1967 میں ان کا نکاح برادری کی ایک معزز ایڈوانی فیملی کی صاحبزادی سے ہوا۔ ان کے دو بیٹے سعد اور زید ہیں دونوں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔
وہ اس عرصے میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ آف پاکستان کے صدر رہے۔ ایس اے ایف اے (ساوتھ ایشین فیڈریشن آف اکاؤنٹنٹ) کے بھئی صدر رہے۔ پاکستان میں فنانس اور اکاؤنٹنگ کے پیشہ کو منظم کرنے اور صاف شفاف بنانے میں ان کا بڑا کردار ہے وہ عالمی تنظیم آئی ایف اے سی سے بھی وابستہ رہے اور اکاؤنٹنگ کے عالمی معیارات بنانے میں بھی ان کی قابلیت اور تجربہ کو استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کارپوریٹ سیکرٹری کا امتحان برطانیہ سے پاس کیا پھر دیگر کارپوریٹ سیکرٹریز کے ساتھ ملکر پاکستان میں انسٹیٹیوٹ آف کارپوریٹ سیکرٹریز پاکستان کی بنیاد رکھی اور ان کو اس کا بانی صدر منتخب کیا گیا۔ انہوں نے دیگر پیشہ وارانہ دوستوں کے ساتھ ملکر میمن پروفیشنل فورم قائم کیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ان کی بڑی خدمات ہیں کورنگی میں میمن ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کھارادر اور فیڈرل ایریا میں میمن اسکولز اور کالجز کے قیام اور ان کی ترقی میں ان کا بڑا کردار ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کو متعدد پاکستانی اور بین الاقوامی فورمز پر ایوارڈز اور میڈلز سے نوازا گیا۔ مزید برآں انہوں نے اپنے خاندان کے اکثر نوجوانوں اور ہم جیسے متعدد شاگردوں کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنوایا۔
پیر محمد صاحب کے مزاج میں دعوت و تربیت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا میٹرک پاس کرکے پیر محمد صاحب اور دیگر صالح اور فعال نوجوانوں نے ملکر مسلم یوتھ لائبریری قائم کی، لائبریری سے بڑی تعداد دینی کتب کا اجراء کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ لائبریری علاقے کے نوجوانوں کی صلح و آشتی کا مرکز بن گئی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مسلم چائلڈ سرکل قائم کیا گیا اس کے تحت بچوں کی ہفتہ روزہ نشستیں منعقد کی جاتیں، تحریری اور تقریری مقابلوں کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو جلا دی جاتی۔ پیر محمد کالیا اس کے روح رواں تھے مزید برآں انہوں نے محمدی مسجد میٹھادر میں قرآنی حلقہ قائم کیا تھا۔ روزانہ بعد نماز عشاء قرآن پڑھنا اور ترجمہ کرکے سمجھنا اور عربی پڑھانے کا سلسلہ پیر محمد صاحب چلایا کرتے تھے جس میں اہل محلہ شریک ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں اقبال سرمہ والا صاحب اور راقم (محمد حسین محنتی) ان کے شاگرد رشید تھے۔ انہوں نے تمام طلبہ کو عموماً اور ہم کو خصوصاً پڑھایا لکھایا تعلیم اور زندگی میں آگے بڑھایا۔ ہماری امتحانات میں پوزیشنیں آئیں، سی اے کیا دین اور دنیا میں آگے بڑھے۔ ان سب میں ان کی تربیت کا بڑا حصہ تھا۔ ہم انہیں کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ان کے الیکشن کے دنوں میں جماعت اسلامی سے منسلک ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج تک اس کی رضا کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔
پیر محمد کالیا صاحب اپنی شائستگی متانت علمی گہرائی اور عملی دیانت کے لیے جانے جاتے تھے دھیمے لہجے میں ان کی گفتگو ہمیشہ نظریاتی اور عملی توازن کے ساتھ ہوتی تھی۔ ان کے میل جول اور رویہ میں عاجزی انکساری اور فروتنی جھلکتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو صاحب مال بھی بنایا تھا لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ان کی زندگی یہ سبق دیتی ہے کہ عملی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کا اصل جوہر خدمت اخلاص دیانت اور علم میں پوشیدہ ہے پیر محمد کالیا صاحب نوجوانوں کے آئیڈیل تھے۔ انہوں نے نوجوانوں اور خصوصاً میمن برادری میں صالح اور باصلاحیت افراد کی ایک کھیپ تیار کی جو آج بھی معاشرے میں مثبت اور فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پیر محمد کالیا صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور جنت کے اعلی درجات عطا فرمائے۔ آمین
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈبلو ایم او کے پیر محمد صاحب بانٹوا میمن اکاو نٹنٹ برادری کے انہوں نے جیتے گا قائم کی کے ساتھ کے لیے کا بڑا کی طرف اور ان کے بعد
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ’بقا کا مسئلہ‘ بن چکی ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب پاکستان کے لیے صرف ایک ماحولیات کا چیلنج نہیں رہی، بلکہ ’بقا کا خطرہ‘ بن چکی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ پاکستان جیسے ممالک کو سادہ، تیز اور مؤثر کلائمیٹ فنانسنگ تک فوری رسائی دی جائے۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر خزانہ نے برازیل میں ہونے والے COP 30 کلائمیٹ فنانس ڈائیلاگ میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، جہاں انہوں نے گرین کلائمیٹ فنڈ کے پیچیدہ اور سست طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے اپنی این ڈی سیز، نیشنل ایڈاپٹیشن پلان اور کلائمیٹ پراسپیرٹی پلان کے ذریعے لائحہ عمل تو طے کر لیا ہے، اب دنیا کو عملی مدد فراہم کرنا ہوگی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ “اب وقت عمل اور نتائج کا ہے، نقصان و تلافی فنڈ کو حقیقی ادائیگیوں کا آغاز کرنا چاہیے۔”
وزیر خزانہ کے مطابق عالمی بینک نے پاکستان کے لیے سالانہ 2 ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے، جس میں سے ایک تہائی رقم کلائمیٹ منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی معاونت کا بھی اعتراف کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اپنی کلائمیٹ فنانسنگ کے ذرائع کو وسعت دے رہا ہے، اور ملک کا پہلا پانڈا بانڈ رواں سال کے آخر تک جاری کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ گرین سکوک اور کاربن مارکیٹ کے منصوبوں پر بھی پیش رفت جاری ہے۔
خطاب کے اختتام پر وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی براہِ راست موسمیاتی خطرات سے جڑی ہے، اور ملک کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جب ہم موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے قابل ہوں۔