پاکستان میں ’ایلیٹ کیپچر‘ قومی معیشت کو کھربوں روپوں کا نقصان پہنچا رہی ہے، آئی ایم ایف رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین تشخیصی رپورٹ میں پاکستان کی معیشت پر ’ایلیٹ کیپچر‘ کے گہرے اور دیرینہ اثرات کو بے نقاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کے بااثر طبقات خصوصاً شوگر، ریئل اسٹیٹ، زراعت اور توانائی کے شعبوں کے مفادات اصلاحات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کی قیمتوں میں اضافہ: کس شوگر مل کے پاس کتنی چینی اسٹاک ہے؟
وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ’پاکستان گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ‘ کے عنوان سے جاری تکنیکی رپورٹ کے مطابق شوگر انڈسٹری اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح معاشی طاقت رکھنے والے گروہ اور ریاستی ریگولیٹر مل کر عوامی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شوگر سیکٹر کے مالکان کو دہائیوں تک حکومتی سبسڈیز، ترجیحی پالیسیوں اور ریگولیٹری کمزوریوں کا فائدہ ملتا رہا جس کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت اور صنعت سے وابستہ بڑے کاروباری خاندانوں کا گہرا تعلق ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق کئی شوگر مل مالکان خود حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جنہوں نے گنے کی سفارش کردہ قیمتیں مقرر کرانے اور درآمدی و برآمدی ڈیوٹیز میں نرمی جیسے اقدامات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
مزید پڑھیے: حکومتی اقدامات چینی بحران کا سبب بن سکتے ہیں، شوگر ملز ایسوسی ایشن نے خبردار کردیا
رپورٹ میں 2018–19 کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دور میں حکومت نے چینی کی بڑی مقدار کو سبسڈی دے کر برآمد کرنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں ملک میں قلت پیدا ہوئی اور مقامی صارفین کو قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا۔
ریئل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں میں بھی مراعات کا سلسلہ جاریآئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر طویل عرصے سے ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ زراعت، توانائی اور مینوفیکچرنگ کو بھی خصوصی رعایتیں حاصل رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زرعی آمدنی کو طویل عرصے تک ٹیکس سے استثنیٰ دیا جاتا رہا۔
مزید پڑھیے: بجٹ 26-2025: ٹیکس میں کمی کے بعد کیا ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بڑھے گی؟
آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ ان مراعات کے باعث قومی خزانے کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کے اپنے تخمینے کے مطابق مالی سال 2023 میں ٹیکس چھوٹ کا بوجھ مجموعی ملکی پیداوار کے 4.
رپورٹ کے مطابق یہ امتیازی رعایتیں پاکستان کے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو اور مالیاتی بحرانوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا قانون کے غیر مساوی اطلاق اور پالیسیوں کا طاقتور حلقوں کے زیرِ اثر ہونا معاشی فیصلوں کو مسخ کرتا ہے اور نجی و سرکاری شعبے کے مواقع محدود کرتا ہے۔
تاریخی پس منظر اور ایلیٹ کے مضبوط ہوتے اثراتآئی ایم ایف نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ تاریخی طور پر بڑے زمیندار طبقات کے اثر و رسوخ میں رہا ہے جس کی بنیاد نوآبادیاتی دور کی زمین داری پالیسیوں نے رکھی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: ’نووا گروپ‘ پاکستان میں اپنا ریئل اسٹیٹ بزنس پھیلانے کے لیے سرگرم
آزادی کے بعد بھی یہ ڈھانچہ برقرار رہا جس سے ایلیٹ کی گرفت مزید سخت ہوتی گئی۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی سال 2020 کی اس تحقیق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر کو حاصل ’ایلیٹ مراعات‘ کا حجم 4.7 ارب ڈالر تک پہنچتا ہے۔
اصلاحات کی کامیابی خطرے میںآئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ اگر ان مراعاتی ڈھانچوں کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کی معاشی استحکام کی کوششیں بار بار کمزور پڑتی رہیں گی کیونکہ طاقتور مفاداتی گروہ ملکی سیاسی و معاشی پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے متاثر کرتے رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف آئی ایم ایف رپورٹ آئی ایم ایف کی نشاندہی پاکستان اور ذراعت پاکستانی شوگر ملز پاکستانی معیشت اور ایلیٹ مفادذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف ا ئی ایم ایف رپورٹ ا ئی ایم ایف کی نشاندہی پاکستان اور ذراعت پاکستانی شوگر ملز آئی ایم ایف ریئل اسٹیٹ رپورٹ میں کے مطابق
پڑھیں:
بارڈر کی بندش نے طالبان کو دہلی کی دہلیز تک پہنچا دیا، آگے کیا ہوگا؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں