اسلام آباد(نیوزڈیسک) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ریاست اور قومی ہیروز کے خلاف ایوان میں ہرزہ سرائی پر پابندی عائد کردی ، اپوزیشن ارکان کو ریاستی اداروں اور قومی ہیروز کے خلاف بات کرنے پر رکنیت کی معطلی سمیت سخت کارروائی کا پیغام بھی دے دیا۔

ایوان کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سیدال خان نے دوسری رولنگ میں کہا کہ ایوان کے تقدس کا خیال رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ دارئ ہے۔ مٹھی بھر عناصر ایوان کو یرغمال نہیں بنا سکتے ، ایوان کا تقدس پامال کرنے والوں کو معطل کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ کچھ اپوزیشن ارکان مسلسل کارروائی میں رکاوٹ ڈال کر ریاستی اداروں اور قومی ہیروز کی توہین کر رہے ہیں، مگر اب یہ سلسلہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ڈپٹی چیئرمین نے اعلان کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت انیس سو تہتر کے آئین پر دستخط کرنے والے تمام شخصیات قومی ہیروز ہیں۔ ان کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے کے دوران سیدال خان ناصر نے دوبارہ سخت لہجے میں رولنگ دہرائی کہ اداروں اور ملک کے خلاف اب ایک لفظ بھی برداشت نہیں ہوگا۔ میری یہ رولنگ قائم رہے گی اور اسی کے مطابق ایوان چلے گا۔اپوزیشن کے احتجاج کے دوران سینیٹ اجلاس جمعہ صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج  اور واک آؤٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اقلیتی حقوق بل منظور کرلیا گیا جب کہ اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔

اجلاس میں ووٹنگ کے دوران حکومتی اور اپوزیشن کے درمیان روایتی شور شرابہ جاری رہا ۔ ایوان میں  160 اراکین نے بل کی حمایت کی جب کہ 79 اراکین نے مخالفت کی ، جس کے بعد اپوزیشنا رکان نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔

اجلاس  میں پیپلز پارٹی نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا، تاہم پارٹی کے قادر پٹیل نے کھل کر مخالفت کی اور احتجاجاً ایوان چھوڑ دیا۔ اسی طرح سینیٹر عبدالقادر اور ایمل ولی خان نے بھی بل کے خلاف ووٹ دیا جس سے واضح ہوا کہ معاملے پر سیاسی صفیں اندرونی طور پر بھی تقسیم تھیں۔

اجلاس کی کارروائی اس وقت گرم ہوگئی جب وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو یقین دلایا کہ یہ بل صرف اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہے اور اسلامی احکامات کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو رہی۔

انہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ قیدی نمبر 804 کے حوالے سے پھیلائی جانے والی باتیں محض سیاسی نعرے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں خود اس کمیشن کے قیام کی ہدایت کی تھی، اس لیے اسے متنازع بنانا مناسب نہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے قوانین کے نتیجے میں غلط فائدہ اٹھائے جانے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے یہ قانون مزید احتیاط چاہتا ہے۔ ان کی جماعت کی رکن عالیہ کامران نے شق 35 نکالنے کی ترمیم پیش کی، جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

وزیرِ قانون نے بھی وضاحت دی کہ اس شق کی موجودگی پر اعتراضات سامنے آئے تھے، اس لیے اسے واپس لینا بہتر سمجھا گیا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ایجنڈے میں 7 قوانین شامل ہیں، مگر سب سے حساس قانونی بل یہی ہے، اس لیے ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اسلام مخالف قانون سازی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتیں بھی ملک کے شہری ہیں مگر آئینی حدود واضح ہیں۔

سینیٹر نور الحق قادری، کامران مرتضیٰ اور راجا ناصر عباس نے بھی اپنے خطاب میں بل کے مختلف پہلوؤں پر سخت اعتراضات اٹھائے۔ زیادہ تر تحفظات قادیانیوں سے متعلق شقوں پر تھے جنہیں متنازع قرار دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے یہاں تک کہا کہ یہ مسئلہ امتِ محمدیؐ کے جذبات سے جڑا ہوا ہے، اس لیے احتیاط سب سے اہم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے ریاست اور قومی ہیروز کیخلاف ایوان میں ہرزہ سرائی پر پابندی عائد کردی
  • عظمیٰ خان کی عمران خان سے ملاقات پر پابندی عائد، اب اڈیالہ جیل کے باہر تماشا نہیں لگانے دیں گے، حکومت
  • کراچی کی 20 اہم شاہراہوں پر رکشوں کے داخلے پر پابندی عائد
  • قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل میں کیا ہے اور اپوزیشن نے اس بل پر احتجاج کیوں کیا؟
  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: اقلیتی حقوق بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج  اور واک آؤٹ
  • اسرائیلی فوجی افسران کیلئے اینڈرائیڈ فون استعمال کرنے پر پابندی عائد
  • نوازشریف نے قومی اسمبلی کے رواں پورے اجلاس سے رخصت لے لی
  • طلبا کے اسمارٹ فونز استعمال کرنے پر سخت پابندی عائد، اسکول میں فون لاک کرانا لازمی
  • بھارتی وزیر دفاع کی ہرزہ سرائی