خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ کتنا قریب ہے؟ فیصل کریم کنڈی نے بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ اگر صوبائی حکومت دہشتگردی کے خلاف ساتھ نہیں دے گی تو گورنر راج کے علاوہ اور کیا راستہ رہ جاتا ہے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت دہشتگردوں سے بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ ان کے وزرا نے کہا کہ ہم انہیں بھتے دیتے ہیں، انہیں یہاں آباد بھی کیا، مگر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیے: کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں، گورنر راج ہماری خواہش نہیں، بلاول بھٹو
گورنر نے کہا کہ صوبے بھر میں حملے ہوئے جن میں سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر عوام کو بچایا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وزیراعلیٰ بھی اپنے علاقے خیبر میں جا کر رہ سکتے ہیں، اس لیے سیکیورٹی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اس سوال پر کہ گورنر راج لگانے کا فیصلہ کتنا قریب ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آخری اینٹی بایوٹک دی جا رہی ہے، اگر اس سے بھی افاقہ نہ ہوا تو آپریشن کی طرف جانا پڑتا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر گورنر راج لگ گیا اور پی ٹی آئی والے گورنر ہاؤس احتجاج کے لیے آئے تو میں خود ان سے نمٹ لوں گا۔ سلطان راہی کے فلمی ڈائیلاگ نہیں چل سکتے، جب ان کا ہم سے واسطہ پڑے گا تو انہیں پتا چل جائے گا کہ کن سے واسطہ پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: تحریک تحفظ آئین پاکستان کا ہنگامی اجلاس، کے پی میں گورنر راج کی صورت میں مزاحمت کا عزم
انہوں نے کہا کہ صوبائی سیکریٹریٹ اڈیالا جیل منتقل ہو گیا ہے۔ سیکریٹریز پریشان ہیں کہ کس کی بات مانیں۔ ابھی تک ان کی کابینہ مکمل نہیں ہوئی، روزانہ سڑکیں بند کی جاتی ہیں۔ میری پنجاب حکومت سے گزارش ہے کہ ان کے قیدی کو اڈیالا سے کہیں اور منتقل کیا جائے تاکہ روزانہ جڑواں شہروں میں تماشا نہ بنے۔
گورنر نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو مشورہ دیا کہ وہ صوبے کی گورننس پر توجہ دیں اور وفاق سے صوبے کے حصے کے 100 ارب روپے مانگیں، ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔ روز اڈیالا جانے کے بجائے صوبے کی ترقی پر توجہ دی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی گورنر راج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی گورنر راج فیصل کریم کنڈی گورنر راج نے کہا کہ
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن
ڈی جی آئی ایس پی آر کی سخت پریس کانفرنس کے بعد ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کے امکانات عملی طور پر ختم ہوگئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن نظر آرہے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جا رہی ہے کہ اس ٹکراؤ کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی پالیسی ہے جس کے تانے بانے بانی پی ٹی آئی سے جڑتے ہیں جو مزاحمت اور ٹکراؤ چاہتے ہیں ۔
اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے مخالفین ان کی جماعت کو عملاً صوبائی حکومت کے ساتھ دہشت گردی یا دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔ان کے بقول ملکی سطح پر سے دہشت گردی کے عملاً خاتمہ کرنے میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت رکاوٹ ہے یا اسے سیاسی طور پر لگام دیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔حکومت کے بہت سے وزراء کے پی کے کی صوبائی حکومت کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں یا ان کا طرز عمل سخت اور جارحانہ ہے ۔
بعض سیاست دان، صحافی یا اینکرز بھی ہمیں یہ کہانی سنا رہے ہیں کہ صوبہ کا واحد حل گورنر راج ہے۔ان لوگوں کے بقول اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت و وزیر اعلیٰ نے خود کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست سے علیحدہ نہ کیا تو پھر گورنر راج ہی واحد آپشن ہے۔وفاقی وزیر قانون کے بقول گورنر راج کا نفاذ آئینی راستہ ہے اور اس سے یہ مراد لینا کہ یہ کوئی مارشل لا کی شکل ہے درست نہیں ۔
یہ خبریں بھی عام ہیں کہ ایک طرف وفاقی حکومت کے سامنے صوبہ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جہاں گورنر راج کا آپشن ہے تو وہیں یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے اور ان کے خلاف سخت گیر اقدامات کی بنیاد پر نئے گورنر کی تقرری بھی آپشن ہے تاکہ نئے گورنر کی مدد سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر مختلف نوعیت کے سنگین الزامات، ریاست مخالف سرگرمیوں اور ان کی نااہلی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر پی ٹی آئی کوئی نئی مہم جوئی کرتی ہے تو اس میں نئے وزیر اعلیٰ کا اہم کردار ہوگا ۔
اسی بنیاد پر وفاقی حکومت گورنر راج سمیت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف مختلف آپشن کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔اسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو بھی ممکن نہیں بنایا جارہا ۔ایسے لگتا ہے کہ معاملات مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے اپنے بیانات بھی ٹکراو کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔لیکن اس کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں ہمیں کہیں سے بھی کوئی مثبت کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا ۔
ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے بدترین حالات سمیت افغانستان یا کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ارکان اسمبلی سمیت تمام صوبائی جماعتوں ،صوبائی گورنر اور دیگر اہم صوبائی سیاست دانوں ،قبائلی عمائدین اور میڈیا کی مدد سے امن جرگہ کیا تھا اور اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔اس امن جرگہ کا مشترکہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی حکومت کی حکمت عملی مرکز سے مختلف ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال یا ٹکراؤ کا نتیجہ صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں سامنے آنا چاہیے؟ کیا گورنر راج صوبہ میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گا؟یا فوجی آپریشن کے نتیجے میں حالات کو درست یا بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے؟ ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا سیاسی تقسیم مزید نہیں بڑھے گی؟ وفاقی حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ کوئی ایک صوبہ وفاقی حکومت یا ریاست پر اپنا ایجنڈا جبر کی بنیاد پر مسلط نہیں کرسکتا اور قومی سلامتی کے معاملات پر کمزوری دکھانا وفاق کے لیے ممکن نہیں ۔لیکن اسی حکمت عملی کے ساتھ صوبے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا بھی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے اور ایک اہم صوبہ جو براہ راست دہشت گردی کا شکار ہے اس کی حکومت کو نظر انداز کرنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ۔بالخصوص گورنر راج لگانے سے صوبے کی سیاست جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہے اس کا ردعمل سخت ہوگا جو مزید ٹکراؤ کی سیاست پیدا کرے گا۔
اس لیے اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان بڑھتا ہوا ٹکراؤ اور کشیدگی کا ماحول حالات کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کے آپشن پر سنجیدگی بھی دکھائی دیتی ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک پہلے ہی سیاسی ،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے ۔پہلے ہی اس ملک کے جمہوری،سیاسی آئینی اور قانونی سطح کے معاملات پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں اور بہت سے لوگ موجودہ صورتحال سے ناخوش بھی ہیں ۔ایسے میں ہمارے بھارت اور افغانستان سے بگڑتے تعلقات خود ہماری سیکیورٹی کے لیے نئے خطرات کو جنم دے رہے ہیں ۔ایسے میں ہماری داخلی سیاست کا ٹکراؤ ہماری تشویش میں اور زیادہ اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہیے اور یہ ذمے داری وفاقی حکومت پر ہی آتی ہے کہ وہ معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اختیار کرے ۔پہلے ہی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی سطح پر راستے محدود ہیں اور ان کی صوبائی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔
یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ مسئلہ محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتیں جے یو آئی اور اے این پی کی پالیسی وفاقی حکومت کی پالیسی سے مختلف ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت بھی وفاقی حکومت کی پالیسی سے بہت زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح جب صوبائی حکومت کے بارے میں دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر بیانیہ بنایا جائے گا تو اس پر ردعمل کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے ۔اس لیے جہاں صوبائی حکومت کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہے وہیں وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبائی حکومت کے ساتھ اتفاق کی بنیاد پر آگے بڑھے اور اس میں صوبائی حکومت کو وفاق کے ساتھ تعاون کے امکانات کو بڑھانا ہوگا۔