جنرل فیض حمید کو سزا، ’ 9 مئی کے کیسز ابھی باقی ہیں‘، فیصل واوڈا
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
سینیٹر فیصل واوڈا نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی جانے والی 14 سال قید بامشقت کی سزا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 9 مئی کے مقدمات ابھی باقی ہیں اور جس سیاسی جماعت نے وہ سب کیا، اس کا انجام واضح نظر آ رہا ہے۔
نجی ٹیلیویژن پر گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ ان کی بات درست ثابت ہوئی ہے کہ فیض حمید کو پھانسی کی سزا نہیں بلکہ 14 سال قید بامشقت سنائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، آئی ایس پی آر
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے کیسز کے فیصلے ابھی آنے ہیں، جن واقعات میں تباہی مچائی گئی، ریاست، سیاست، عدلیہ اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا، میڈیا پر قبضے کی کوشش کی گئی۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان سے بڑا کوئی نہیں، اور سزا و جزا کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا ٹرائل ابھی جاری ہے جس کی سزا کم از کم 14 سال ہے۔ جو سیاسی جماعت ان کیسز میں ملوث تھی، جو ڈرامے بازی پی ٹی آئی اور اس کے بانی نے کی، جس بربریت سے لوگوں کو مروایا گیا، اداروں، شہیدوں اور یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا، وہ اس وقت لوگوں کو یہی سمجھا رہے تھے کہ اس راستے کی کوئی واپسی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اپنے آدمی کا ٹرائل بھی نہیں روکا گیا، جو کہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ مسئلہ سزا اور جزا ہی کا تھا اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس کی بنیاد اپنے ادارے کے اندر سے رکھی ہے۔
واضح رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی عاصم منیر فیصل واوڈا فیض حمید فیلڈ مارشل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیصل واوڈا فیض حمید فیلڈ مارشل سال قید بامشقت فیض حمید کو فیصل واوڈا کی سزا
پڑھیں:
آج حق سچ کی فتح کا دن ہے، فیض حمید کی سزا تاریخی فیصلہ ہے: عطا تارڑ
—فائل فوٹووفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ آج حق سچ کی فتح کا دن ہے، فیض حمید کی سزا تاریخی فیصلہ ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک فوج کا احتساب کا عمل بہت سخت ہے، فیض حمید کا ٹرائل 15 ماہ چلا ہے جس میں شواہد اور ثبوت پیش کیے گئے۔
عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ سنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر بنے، انہوں نے پی ٹی آئی کی بھرپور سپورٹ کی، 9 مئی اور دیگر واقعات سمیت تمام چیزیں ان پر ثابت ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فیض حمید کی سزا ابتداء، لمبا چوڑا انصاف کا سلسلہ رکے گا نہیں: فیصل واوڈا سابق فوجی افسر فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزاوفاقی وزیر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اس فیصلے سے قانون کی حکمرانی اور احتساب کے عمل کو تقویت ملی ہے، فیض حمید کو ثبوت اور گواہان پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد تھے، سیاست میں ملوث کے دیگر الزامات پر کارروائی جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی مداخلت کی مزید تحقیقات بھی ہو رہی ہیں، انہوں نے بطور مشیر پی ٹی آئی ملک میں بہت انتشار پھیلایا، 9 مئی جیسے واقعات بڑے سنگین معاملات ہیں جس کی مزید تحقیقات بھی ہو گی۔
عطا تارڑ نے یہ بھی کہا کہ فیض حمید نے پی ٹی آئی کا مشیر بن کر ملک میں سازشیں کیں اور انتشار پھیلایا، وہ ریاست کی رٹ کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ احتساب کے لیے اور ملک کے اندر رٹ آف اسٹیٹ کے لیے اور یہ حق سچ کی فتح کا دن ہے۔
فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا
واضح رہے کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا یہ عمل 15 ماہ تک جاری رہا، ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال، متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کا کہنا تھا کہ طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد ملزم تمام الزامات میں قصور وار قرار پایا گیا، عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025 سے شروع ہوگا۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے، ملزم کو دفاع کے لیے وکیلوں کی ٹیم منتخب کرنے سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے، ملزم کے سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے معاملات الگ سے دیکھے جا رہے ہیں۔