مشرقی پاکستان: سچ اور فسانہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
تاریخ کے کچھ زخم وقت کے ساتھ مندمل تو ہوجاتے ہیں لیکن ان کے گرد بُنے گئے افسانے آنے والی نسلوں کے ذہنوں پر وہ نقش چھوڑ جاتے ہیں جنھیں جھٹلانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ بھی ایسا ہی باب ہے، مگر اس سے جڑا سب سے بڑا مغالطہ 93000 فوجیوں کے سرنڈرکا ہے۔
یہ وہ تعداد ہے جسے دہرا دہرا کر ایک پوری قوم پر نفسیاتی برتری قائم کی گئی، یہاں تک کہ پاکستان کے اندر بھی کئی حلقوں نے اسے بلا تحقیق قبول کر لیا، لیکن حقیقت کا آئینہ اس بڑے جھوٹ کوکبھی نہیں تھام سکا کیونکہ اعداد، دستاویزات اور آزاد عسکری تجزیے اس پروپیگنڈے کی بنیاد ہی کھوکھلی ثابت کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو اس تاریخی مغالطے سے آزاد کرایا جائے تاکہ سقوطِ ڈھاکا کو جذبات سے نہیں بلکہ حقائق سے سمجھا جا سکے۔
اگر حقیقت کی طرف دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان میں پاکستان کی صرف 1 کور تعینات تھی جو تین ڈویژنوں پر مشتمل تھی۔
آپریشن سرچ لائٹ کے آغاز یعنی 25 مارچ 1971 کو بنگال میں موجود پاک فوج کی تعداد صرف 27000 تھی۔ بھارت کی جانب سے فضائی حدود بند ہونے اور طویل ہوائی راستے کی وجہ سے یہ کمک بھی محدود رہی۔
نومبر 1971 کے اختتام تک وہاں موجود مجموعی سیکیورٹی فورسز کی تعداد 45000 تک پہنچی جن میں سے صرف 34000 فوجی تھے، جب کہ باقی رینجرز، پولیس اور مقامی ملیشیا پر مشتمل تھے۔ یہ ریکارڈ شدہ اور ناقابل تردید اعداد ہیں، مگر اس کے باوجود بھارتی میڈیا نے 93000 کا پروپیگنڈا اتنی شدت سے پھیلایا کہ وقت کے ساتھ وہ کئی لوگوں کے ذہنوں میں حقیقت بن بیٹھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب وہاں کل فوج ہی 34000 تھی تو 93000 نے سرنڈرکیسے کیا؟
فوجی توازن بھی اسی قدر غیر مساوی تھا کہ سرنڈر نہ کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ پاکستان کی ایک کور کا مقابلہ بھارت کی پانچ کورزکررہی تھیں۔ تین کورز مغربی سمت سے اور دو شمال و مشرق کی طرف سے یلغار کر رہی تھیں۔
بھارتی فضائیہ کے 10 اسکواڈرن مسلسل کارروائیاں کر رہے تھے جن میں مگ 21، سیخوئی اور دیگر جدید طیارے شامل تھے۔ زمینی حملوں کے ساتھ ساتھ اندرونِ بنگال سے 1 لاکھ 80 ہزار سے 2 لاکھ 50 ہزار مکتی باہنی کے تربیت یافتہ گوریلے بھی پاکستانی فوج پر ہر سمت سے حملہ آور تھے۔
اکثریت کی آبادی بھی سیاسی، نسلی اور جذباتی محرکات کے تحت فوج سے مخاصمت رکھتی تھی۔ اس شدید عدم توازن کو خود بھارت کے آرمی چیف جنرل مانک شاہ نے تسلیم کیا اورکہا کہ بھارتی افواج کو پاکستانی فوج پر 1 کے مقابلے میں 50 کی برتری حاصل تھی۔
ایسے حالات میں دنیا کی کوئی بھی فوج نہ تو لمبے عرصے تک جنگ جاری رکھ سکتی ہے اور نہ ہی شہروں، پلوں اور اہم راستوں کا دفاع برقرار رکھ سکتی ہے۔ معروف امریکی مصنف چارلی ولسن نے بھی لکھا کہ 35000 پاکستانی فوجی لاکھوں بھارتی سپاہیوں اور سیکڑوں مکتی باہنی گروپوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔
ایک اور امریکی کانگریس مین اسٹیفن سولرز نے تبصرہ کیا کہ ایسی جنگ میں سرنڈر ہی واحد حقیقت پسندانہ فیصلہ رہ جاتا ہے، ورنہ پوری فوج فضائی، زمینی اور نفسیاتی دباؤ کے درمیان تباہ ہو جاتی۔ انڈین وزیر دفاع کے سی پینٹ نے بھی 1994 میں واضح کیا کہ سرنڈر کرنے والوں کی اصل تعداد 40 ہزار کے قریب تھی۔
اسی طرح مشہور بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس نے 93000 کے بیانیے کو مکمل لغو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں کل 34000 پاکستانی فوجی ہی موجود تھے۔اس پراپیگنڈے کا اصل مقصد دو اختراعیں تراشنا تھا۔
ایک ظالم فوجی قوت جو اقلیت پر ظلم کرتی ہے اور دوسری مزاحمت کرنے والی مظلوم آبادی۔ بدقسمتی سے کچھ پاکستانی سیاست دانوں اور حلقوں نے بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس جھوٹ کو دہرانا شروع کردیا، جس نے تحقیق کی جگہ جذباتی خطابت کو دے دی۔
حالانکہ جنرل نیازی، ایئر مارشل رحیم خان اور ایئر مارشل ذوالفقار علی خان جیسے سینئر عسکری قیادت نے بھی اپنے بیانات اور تحریروں میں واضح کیا کہ بنگال میں پاک فوج کی تعداد 34000 سے زیادہ نہیں تھی اور 93000 کا بیانیہ سوائے بھارتی پروپیگنڈے کے کچھ نہیں۔
سقوطِ ڈھاکا کی جنگ میں پاک فوج نے غیر معمولی قربانیاں دیں۔ اندازوں کے مطابق 8000 سے 9000 پاکستانی اہلکار شہید ہوئے۔ کئی علاقوں میں انتہائی چھوٹے دستوں نے آخری سانس تک لڑائی جاری رکھی۔
ایک مقام پر ایک بریگیڈیئر نے 300 جوانوں کے ساتھ اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک سب کے سب جامِ شہادت نوش نہیں کرگئے۔ سرنڈر سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایک بڑی تعداد مختلف راستوں سے مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئی، اگر انھیں سرنڈر کی تعداد سے نکال دیا جائے تو مجموعی تعداد 25000 سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
یہی وہ حقائق ہیں جنھیں ہمیشہ پسِ پشت ڈالا گیا تاکہ پروپیگنڈے کی دیوار مضبوط رکھی جا سکے۔حقیقت یہی ہے کہ 93000 کا عدد کبھی حقیقت نہیں رہا بلکہ ایک ایسا ہتھیار تھا جس کے ذریعے پاکستان کی فوجی قابلیت، قومی مورال اور تاریخی بیانیے کو کمزورکیا گیا۔
جذبات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو 16 دسمبر 1971 کے سانحے میں سرنڈرکا فیصلہ ایک فوجی حکمتِ عملی تھا، کمزوری نہیں۔ ایسے حالات میں جہاں فضائی سپورٹ موجود نہ ہو، مقامی آبادی مخالف ہو، راستے کٹے ہوں،گوریلا جنگ جاری ہو اور دشمن کی تعداد پچاس گنا زیادہ ہو، وہاں مزاحمت کی رفتار وقت کے ساتھ کم ہونا ناگزیر ہوتی ہے۔
اس لیے سقوطِ ڈھاکا کی اصل حقیقت جاننا ضروری ہے تاکہ آنیوالی نسلیں پروپیگنڈے کے سائے میں نہیں بلکہ تاریخ کی روشنی میں فیصلہ کر سکیں۔ سرنڈر کرنیوالی فوج کی اصل تعداد 34000 سے بھی کم تھی اور یہی وہ سچ ہے جسے 50 برس گزرنے کے باوجود ہم سے چھپایا جاتا رہا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی فوج کی تعداد کے ساتھ نے بھی
پڑھیں:
قوم برسوں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی، وزیر دفاع۔ ساتھ دینے والے سیاستدانوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے، رانا ثناء اللہ
اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ قوم برسوں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی‘وزیراعظم کے مشیربرائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فیض حمید کا ساتھ دینے والے سیاستدانوں کابھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہئے ‘وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ فیض حمید کی سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا ہوا، اس معاملہ میں جو اور لوگ بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی قانون اپنا راستہ لے گا۔وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے فیض حمید کے خلاف فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں‘ ریڈ لائن عبوراوراپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کرنے والے شخص کو سزا ہوئی ہے‘سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ فیض حمید کی سزا ابتداء ہے‘احتساب کا عمل شروع ہو چکا‘ اب کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا‘عوامی نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر ایمل ولی خان کے مطابق فیض حمید کو ان کے جرائم کی حقیقی سزا نہیں ملی ہے۔فیض حمید کے وکیل بیرسٹر میاں علی اشفاق نے کہا ہے کہ ان کے موکل نے دلیری اور مضبوطی سےکیس کا سامنا کیا‘ امید ہے اپیل میں انصاف ملے گا۔تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ فیض حمید سے متعلق فیصلہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے جو کوئی بھی اپنے عہدے کا غلط استعمال کرے گا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔