’’ میرا انام… میرا نام لماں ہے جی! ماں باپ نے تو نام محمد اسلم رکھا تھا مگر انھوں نے خود ہی اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ میری یا میرے نام کی عزت کرتے تو دنیا میں اورکون ایسا کرتا۔ ہم دو بھائی ہیں، چھوٹے چھوٹے سے ہی تھے کہ اماں کو ہمار ے ’’ابے‘‘ نے جوئے میں ہار دیا۔
ہم نے اس سے پہلے بھی کہاں زندگی میں سکھ کا کوئی ساہ لیا تھا، ہمارے ابا نے چند مہینوں کے بعد ہمارے لیے ایک نئی اماں ڈھونڈ لی ۔ نئی اماں کو دیکھ کر ہمیں اس وقت اتنی ہی خوشی ہوئی تھی جتنی کسی دودھ پیتے بچے کو دودھ ملنے پر ہوتی ہے۔
ابا خود تو حقہ، سگریٹ اور نشہ کر کے پڑا رہتا اور چار پیسے جڑ جاتے تو جوا ء کھیل لیتا ، ہمیں تو یہ بھی کبھی علم نہیں ہوا کہ ابا کام کیا کرتا تھا۔ پہلی والی اماں کے جانے سے ہمیں سوکھی روٹی ملنا بھی مشکل ہو گئی تھی، کبھی ہم بھوکے سو جاتے تھے تو کبھی ابا کہیں سے کچھ کھانے کو لے آتا تھا اور کبھی میں بھوک سے بے تاب ہو کر محلے کے ہی گھروں سے مانگ تانگ کر کھانے کو کچھ لے آتا۔
نئی اماں کے آنے پر بھی ہمارے حالات میں کوئی فرق نہ پڑا کہ وہ ہمیں کیا پکا کردیتی، جب گھر میں کچھ تھا ہی نہیں، نئی اماں بھی ان حالات سے گھبرا کر بھاگ نکلی، یوں بھی اسے جلد ہی علم ہو گیا تھا کہ غربت کے علاوہ اسے اس گھر سے کچھ ملنے والا نہ تھا۔
کبھی کبھار مسجد چلا جاتا کہ وہاں سے کچھ کھانے کو کچھ مل جائے، مولوی صاحب ڈانٹ پھٹکار کے بعد وہ بچا کھچا کھانا یوں دے دیتے جیسے کہ میرے منہ پر مار رہے ہوں۔
انھیں تو علم تھا کہ اس سے اگلے وقت کا کھانا بھی انھیں تازہ کسی نہ کسی گھر سے مل جائے گا، بہترین بھی اور باقی گھر والوں کے کھانے سے پہلے بھی مگر ہم جیسے لاوارث بچوں کے نصیب میں ایسے ہی کھانا ملنا رکھا تھا، ہر کسی کی ڈانٹ پھٹکار کھا کر۔
محلے والوں کو ابا کی حرکتوں کی وجہ سے ہم پر ترس بھی آتا تھا مگر وہ کیا کرتے۔ مولوی صاحب ہر بار گھسیٹ کر بٹھا کر پہلے تو قرآن پاک کا سبق دیتے، اس پر سیکڑوں نصیحتیں کرتے اور کہتے کہ مرد کے بچے ہو، مرد ہو، مانگ تانگ کر کھانے کے بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کما کر کھاؤ۔
ایک کم عمر لڑکے کو وہ اچھی خاصی دانٹ پلا دیتے، میری انا کو اس سے بڑی چوٹ لگتی تھی۔ آج کل تو کسی چھوٹے سے بچے کو بھی ڈانٹا نہیں جاسکتا، اپنے بچے کو بھی ڈانٹتے ہوئے والدین ڈرتے ہیں، ہمیں تو ہر کوئی ڈانٹ دیتا تھا-
میں نے اسکول سے واپس آ کر محلے کے مختلف گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا، کسی کو فلٹر سے پانی کی بوتلیں بھر کر لا دیتا،کسی کو سودا سلف لادیتا، کسی باجی کے دوپٹے کھڑے ہو کر رنگساز سے رنگوا کر لاتا، کسی کے گھر کے صحن میں جھاڑو لگا دیتا اور کسی کے گھر کے باہر کی گلی کی صفائی کردیتا، کسی کی بکری کے لیے چارہ لے آتا تو کسی کے لیے حقہ گرم کردیتا۔
میں ہر کام پوری دیانتداری اور تندہی سے کرتاتھا۔ سردیاں اور گرمیاں اپنی پروا کیے بغیرمیں کام کرتا تھا۔ اس کے عوض کوئی مجھے روپیہ دو روپیہ دینا چاہتا تو میں انھیں کہتا کہ پیسوں کے بجائے پکاہوا کھانا دے دیں۔
صرف اتنا ہو جاتا کہ اپنا اور اپنے بھائی کا پیٹ بھر سکوں، بھائی تو و ہ مجھے لگتا ہی نہیں تھا، میرے بیٹے جیسا ہی تھا کیونکہ مجھے اس کی فکر ہوتی تھی، اس کی پڑھائی کی، اس کے کھانے کی۔
لوگ مجھ سے ذرا مشکل کام بھی کروانے لگے، بینکوں کی قطاروں میں جا کر دن بھر کھڑے ہو کر ان کے بل جمع کرواتا، ان کے گیس کے سلنڈر بھروا کر اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر لاتا۔
اب کھانے کے علاوہ مجھے رقم کی بھی ضرورت ہوتی تھی تا کہ میرے بھائی کو اجلا یونیفارم مل سکے، دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر مل جائے جو کہ میں کہیں نہ کہیں سے مانگ کر لے آتا تھا، کبھی کبھار سالن مل جاتو تو روٹی تنور سے لے لیتے۔ ابا سے ہمارا واسطہ صرف نام کا ہی تھا، نہ اسے ہماری پروا رہی تھی اور نہ ہمیں اس کی-
میں نے سرکاری اسکول سے میٹرک کر لیا، اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرنے کے باوجود بھی اتنی استطاعت نہ تھی کہ کالج میں داخلے کے لیے فارم بھی لے سکتا یا کتابیں ۔
اپنے بھائی کو سب اچھا دینے کی کوشش میں میں نے اپنے آپ کو تج دیا، میرے کپڑے گھسے پرانے ہوتے یا جوتے پھٹے ہوئے مگر میرا بھائی کسی قابل ہو جائے، اس کے لیے میں ایک باپ ہی طرح خود کو تج کر کچھ نہ کچھ کرتا رہتا اور دن گزرتے رہے تو اندازہ ہوا کہ یوں محلے کے لوگوں کے لگ بھگ مفت میں کام کرنا کافی نہیں، تب میں نے اپنے چھوٹے سے قصبے کے اپنے گھر کو چھوڑا اور اپنے بھائی کی خاطر بڑے شہرمیں گھر سے دور کمائی کرنے کو آگیا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے کچھ لے آتا کے لیے
پڑھیں:
شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ
میرے ہاتھ میں جو کتاب ہے اس کا نام ہے ’’شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ‘‘ کتاب کے مصنف حکیم محمد الیاس خان منصوری ہیں۔ اس کی اشاعت الحمد پبلی کیشنز سے ہوئی ہے اور سرورق خالد مرزا کا تخلیق کردہ ہے۔
حکیم محمد الیاس خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اسی کالج کے طالبعلم رہے اور ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد انھوں نے اپنے ہم جماعت دوستوں سے رابطہ کیا اور ان سب کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی زندگیوں کے اوراق کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔
یہ کام ان کے اپنے دوستوں اور ماحول سے محبت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ انھوں نے اپنے کالج میں ہونے والی سرگرمیوں پر سرسری نگاہ نہیں ڈالی ہے بلکہ بھرپور طریقے سے اپنے ہم جماعت اورکالج کے ساتھیوں کی شبانہ روز علمی و دینی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔
کتاب کا قاری شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ اپنے طلبا کو ایک ایسی تہذیب سے روشناس کراتا ہے یہاں صرف کتابوں کا علم بچوں کے ذہنوں تک پہنچانے کی تدریس نہیں کی جاتی ہے بلکہ باقاعدہ طور پر تعلیم و تربیت اور ایک اچھا مسلمان ایک اچھا شہری بنانے پر مکمل طور پر زور دیا جاتا ہے۔
کتاب پڑھنے کے بعد ایسے ایسے عالم باعمل حضرات کی اعلیٰ صلاحیتیں اور مخلوق خدا سے محبت، ایثار و قربانی کی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، اور یہ تمنا بیدار ہوتی ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم بھی جامعۃ العلوم منصورہ میں اپنی حیات کے چراغ کی لو علم وآگہی کی روشنی سے بڑھاتے اور تفکر کی ناؤ پر بیٹھ کر اس عارضی دنیا کی حقیقت کو جان سکتے۔
اللہ کی وحدانیت کا سبق دور دور تک پہنچاتے، پھر ہمارا بھی شمار مبلغ دین میں ہوتا، ہماری ایک ایسی شناخت ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا اور زیست کے شام و سحر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزرتے، جامعۃ العلوم کا صاف و شفاف ماحول، ایمانداری کے تقاضے، تلاوت قرآن پاک کی روح پرور صداؤں سے فیض یاب ہوتے۔
نورکی روشنی سے آنکھوں میں ٹھنڈک پہنچاتے بے شک جہاں زندگی سیکھنے اور سکھانے کا ڈھنگ اسلامی اصولوں پر مروج ہوتا ہے، وہاں کی ہواؤں میں بھی نیکی اور سچائی کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ آپس میں محبت، یگانگت، اخوت اور صداقت کی فضا پروان چڑھتی ہے۔
حکیم محمد الیاس خان منصوری نے اپنے دوست احباب کے اوصاف حمیدہ اور ان کے علمی و دینی فضائل کو بہت عقیدت اور محبت کے ساتھ بیان کیا ہے، ساتواں باب جیسے ہیرے موتی لعل کہا ہے، یہ ہیرے، موتی ، لعل وہ شخصیات ہیں جنھوں نے کتابوں سے علم حاصل نہیں کیا ہے بلکہ اپنے اساتذہ سے باقاعدہ لیکچر کی شکل میں فیض اٹھایا ہے۔
انھوں نے قرآن کی تعلیم کی تفسیر سے آگاہ کیا ہے، زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھائے ہیں، بذریعہ اپنے علم و عرفان اور ذاتی زندگی کی آزمائشوں اور دکھ، سکھ کو درس و تدریس کی صورت میں طالب علموں کے اذہان کو روشنی بخشی ہے۔
انھوں نے مذکورہ باب میں تقریباً 164 بے مثال اور اہم شخصیات کا تذکرہ کیا ہے، ان شخصیات نے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج کی تعمیر و ترقی کے لیے دامے، درمے، سخنے، قدمے بھرپور طریقے سے تعاون کیا ہے، ان اعلیٰ حضرات کی اسلامی تعلیمات سے محبت اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے وہ امور انجام دیے ہیں جو ایک مسلمان کا فرض ہے، اسے ہر لمحہ اپنے مسلمان بھائیوں کی فلاح کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔
منصورہ میں قائم دینی درسگاہ میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی حیثیت اور مقام بے شک ہیرے موتیوں کی ہی مانند ہے۔ ان سچے موتیوں کی روشنی بیرون ممالک تک پہنچی اور نوآموز طالب علموں نے خوب استفادہ کیا۔
اس سبق میں پہلے نمبر پر پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق کا مفصل تعارف ملتا ہے جوکہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ دس اوراق میں ان کے علمی کارنامے جگ مگ کر رہے ہیں۔ مضمون کے قاری کو ان کی علمیت و قابلیت کا جب اندازہ ہوتا تو وہ ان کی کوشش، جدوجہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ہے۔
ان کے بلندی درجات کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اپنے ہاتھ بلند کر دیتا ہے، وہ سات سال تک معلم و تعلم کے مقدس رشتے میں بندھے رہے۔ ڈاکٹر حافظ احسان کا شمار عربی ادب کے نامور دانشوروں میں ہوتا ہے جو پاکستان میں قرآن فہمی اور عربی زبان کی درس تدریس کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، آپ کو ہر سال بیت اللہ کی زیارت اور حج کا برائے راست اردو ترجمہ بھی ٹی وی پر کرنے کا مرتبہ حاصل ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسز میں شرکت کا موقع محض اپنی قابلیت کی وجہ سے حاصل کیا، اس کے ساتھ ہی سترہ اٹھارہ برس شکاگو امریکا تراویح و تفاسیر کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔ حکومت پاکستان نے رمضان میں سڈنی آسٹریلیا تراویح کے لیے منتخب کیا۔
ان کی خوش قسمتی، اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تو دیکھیے کہ ان کا انتقال عمرے کی ادائیگی کے دوران ہوتا ہے اور مدفن کے لیے جنت البقیع کا قبرستان ملتا ہے، سبحان اللہ۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری کا نام نامی بھی اپنی اعلیٰ علمی و تدریسی صلاحیتوں کے باعث اہمیت کا حامل ہے۔429 صفحات کی کتاب میں تقریباً 12ورق ڈاکٹر صاحب کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے 1964 سے 1970 تک شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ میں تعلیم حاصل کی۔
جماعت اول سے انٹر تک ساتھ میں فاضل عربی اسی کالج سے پڑھ کر مادر علمی کا نام روشن کیا۔ آپ کی علمی خدمات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پی ایچ ڈی عربی زبان میں کیا، اعزازی مناصب سے بھی سرفراز ہوئے انھوں نے اپنی محنت اور شوق کے تحت نمایاں امور انجام دیے۔
وائس پریزیڈنٹ قرآن و سنت اکیڈمی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی میں تعینات کیا گیا۔ تحقیقی مقالہ ’’جدید عربی ادب فکر و فن کے آئینے میں‘‘ لکھنے پر جامعہ کراچی سے ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ سرآدم جی گولڈ میڈل، سلور میڈل، عرب ثقافتی ایوارڈ کے لیے یونیسکو کے پاکستان نیشنل کمیشن نے منتخب کیا۔ بہت سی کتب، عربی مقالات، تراجم کیے اور اللہ نے انھیں ان کی قابلیت اور مختلف محاذوں پر قابل قدرکام کرنے کی بدولت عزت و توقیر سے نوازا۔
محمد الیاس خان منصوری نے گلڈ کے روح رواں اور موجودہ صدر جلیس سلاسل کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جلیس سلاسل بھی ایک منصوری ہیرے ہیں جوکہ ایک عظیم مہاراجہ رائے پور یوپی انڈیا اور راجاؤں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، نامور صحافی، مصنف و ادبی تعلیمی تحقیقی و تخلیقی شخصیت ہیں۔
انھیں فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سب سے پہلے انٹرویو لینے کا بھی شرف حاصل ہے۔ انھوں نے منصورہ سے 1960، 1962 تک تعلیم حاصل کی۔ جلیس سلاسل نے بہت اہم کتابیں تصنیف کیں، جن میں کورٹ مارشل اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان اورکہوٹہ پر امریکا، بھارت اسرائیل اور ’’ نام نہاد مقتدر پاکستانیوں کے حملے‘‘ شامل ہیں۔
مصنف نے اورینٹل کالج کا شاگرد ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔ اپنے قارئین کو مکمل معلومات فراہم کی ہے۔ اپنا بچپن، کالج اور اس کا نصاب، تربیتی نظام، مدرسہ البنات اور لائبریری وغیرہ میں اتنی اعلیٰ اور معلومات سے بھرپورکتاب تصنیف کرنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔