برطانیہ میں بچوں کے تحفظ کا بل، پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے بھارتی لابی سرگرم
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
برطانیہ میں بچوں سے زیادتی قتل اور ہوم اسکولنگ کے دوران اُن پر تشدد کے متعدد واقعات کے بعد حکومت نے بچوں کے تحفظ سے متعلق بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ اس بل کو قانون بنانے کی تیاریاں بھی مکمل کی جاچکی ہیں۔
بھارتی لابی اس بل کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ بھارتی لابی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران بار بار کہا گیا کہ ایشیائی اور جنوبی ایشیائی فیملیز میں یہ واقعات زیادہ ہو رہے ہیں جبکہ ان واقعات میں ملوث افراد میں واضح اکثریت پاکستانیوں کی ہے اس لیے ایشیائی کہنے کے بجائے پاکستانی کہا جانا چاہیے۔
یورپ بھر میں مقیم بھارتیوں نے اس حوالے سے شد و مد سے پروپیگنڈا شروع کردیا ہے۔ بھارتی لابی اس بات پر زور دے رہی ہے کہ بچوں پر تشدد کے واقعات کے حوالے سے ایشیائیوں کا حوالہ دینے کے بجائے پاکستانیوں کا حوالہ دیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ کرائم اینڈ پروٹیکشن بل کے حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ میں گرم گرم بحث جاری ہے۔ اپوزیشن اس بل کو مزید مضبوط بنانا چاہتی ہے جبکہ وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ مزید ترامیم تجویز کرنا زائد از ضرورت ہے۔
برطانیہ میں ہوم اسکولنگ کے دوران بچوں اور بچیوں پر تشدد، زیادتی اور قتل کے واقعات کے حوالے سے پائے جانے والے قضے کو گرومنگ اسکینڈل کہا جاتا ہے۔ اب امریکی ارب پتی آجر ایلون مسک بھی اس دلدل میں کود گئے ہیں۔ انہوں نے معصوم بچیوں کے حق میں بولتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر پر الزام لگایا ہے کہ وہ مجرموں کو بچانے اور معاملات کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایلون مسک نے کہا ہے کہ گرومنگ اسکینڈل کے حوالے سے بہت جھوٹ بولا گیا ہے اور غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ ایلون مسک کی طرف سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے برطانوی میڈیا نے کہا ہے کہ ایلون مسک کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہیں اس لیے انہیں کچھ بھی بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔
کیئر اسٹارمر نے کرائم اینڈ پروٹیکشن بل کے حوالے سے قومی سطح کی نئی انکوائری کو مسترد کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ بل جلد از جلد منظور اور نافذ کیا جاسکے۔
ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ برطانیہ میں معصوم بچیوں کو زیادتی کے قتل اور تشدد کا نشانہ بنانے والوں کو کسی بھی حال میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔
بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت شیو سینا کی پارلیمانی رکن پرینکا چترویدی نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ برطانیہ کے گرومنگ اسکینڈل میں ملوث گینگز کو ایشیائی نہیں بلکہ پاکستانی کہنا چاہیے۔ یہ لوگ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں، اُن سے زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارتی لابی برطانیہ میں کے حوالے سے رہے ہیں
پڑھیں:
گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
گھوٹکی میں دریائے سندھ کے اونچے درجے کے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو نقل مکانی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ایک خاتون نے حالات سے ہار ماننے کے بجائے اپنے روایتی ہنر کو سہارا بنالیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بہت سے گھروں کو اجاڑ گئیں، مگر حوصلے اور ہنر کے ساتھ جینے کی جستجو آج بھی زندہ ہے۔ سیلاب سے متاثر دریائے سندھ میں واقع ضلع گھوٹکی کے گاؤں ابرو لکھن کی 60 سالہ مائی ڈاتول نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کا بھی سہارا بن کر سب کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویزمحکمہ انہار نے پر موٹروے پر شگاف ڈالنے کو انتہائی ضروری قرار دیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی آج جائزہ لے گی۔
یہ بہادر خاتون مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشہ کا استعمال کرکے سندھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر میرے ہاتھوں کا ہنر میرے ساتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھوکے نہ سوئیں اور جانور بھی زندہ رہیں۔ مشکل حالات کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں گھر بہہ گیا، مجبوری ہے اب یہاں بیٹھے ہیں، بچیوں کیلئے ٹینٹ ملا ہے مگر کھانا خوراک کچھ نہیں دیا ابرو کے گاؤں سے آئے ہیں۔
خاتون نے مزید کہا کہ ٹوپیاں بناتی ہوں، اس میں ایک سے دو ہفتے لگ جاتے ہیں اور 500 سے ایک ہزار میں فروخت ہوتی ہے، سات بچے ہیں ان کا کھانا پورا کروں یا مال مویشی کا چارہ پورا کروں۔
مقامی لوگ بھی اس خاتون کے حوصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں ایک جیتی جاگتی مثال قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی ادارے ایسے باہمت سیلاب متاثرین کی مدد کریں تو یہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ اس عارضی خیمہ بستی میں مکین خاندانوں کیلئے روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔