data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: پنجاب میں بچوں کے خلاف تشدد اور استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ایک بار پھر صوبائی نظامِ انصاف کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی جاری کردہ نئی فیکٹ شیٹ کے مطابق سال 2025 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران جنوری سے جون تک چار ہزار سے زیادہ بچے مختلف اقسام کے تشدد، استحصال اور جرائم کا نشانہ بنے، مگر سزا کی مجموعی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی۔

یہ اعداد و شمار نہ صرف تشویش ناک ہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ رپورٹنگ کے بہتر ہونے کے باوجود عدالتی کارروائی اور جرم کی روک تھام میں واضح خلا موجود ہے۔

فیکٹ شیٹ کے مطابق صوبہ پنجاب نے گزشتہ برس کے مقابلے میں مقدمات کی رجسٹریشن اور رپورٹنگ کے نظام میں خاصی بہتری ضرور دکھائی ہے، مگر اس کے باوجود سزا نہ ہونے کی شرح ایک سنگین انتظامی اور عدالتی کمزوری کو آشکار کرتی ہے۔

6 ماہ کے عرصے میں صرف بارہ مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں، جبکہ کئی اہم نوعیت کے جرائم، خصوصاً جنسی استحصال کے کیسز سزا کے بغیر ہی بند ہوئے۔ جنسی استحصال کے 717 واقعات سامنے آئے، لیکن ایک بھی ملزم کو سزا نہیں مل سکی۔

بچوں سے بھیک منگوانا، یعنی چائلڈ بیگری سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والا جرم رہا، جس کے 2,693 کیسز درج ہوئے۔ اس بڑے حجم کے باوجود کسی ایک مقدمے میں بھی کوئی مجرم سزا تک نہ پہنچ سکا۔

اسی طرح چائلڈ ٹریفکنگ کے 332 کیسز سامنے آئے جن میں صرف چار ملزمان کو سزائیں ہوئیں۔ جسمانی ہراسانی اور اغوا کے مجموعی 114 مقدمات بھی بغیر کسی عدالتی انجام کے فائلوں میں دب گئے، جنہیں بچوں کے تحفظ کے نظام میں ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔

چائلڈ میرج پاکستان میں ایک سنگین سماجی مسئلہ کے طور پر موجود ہے، تاہم اس ضمن میں رپورٹنگ انتہائی کم رہی۔ چھ ماہ میں صرف بارہ مقدمات سامنے آئے، جسے ماہرین عدم رپورٹنگ اور سماجی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود متعلقہ اداروں کو اس پہلو پر مزید تحقیق اور موثر مداخلت کی ضرورت ہے۔

فیکٹ شیٹ کے مطابق لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی اور سیالکوٹ وہ اضلاع ہیں جہاں بچوں کے استحصال اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے۔ لاہور سب سے زیادہ متاثرہ ضلع کے طور پر سامنے آیا جہاں جنسی استحصال، چائلڈ بیگری اور ٹریفکنگ کے اہم کیسز رپورٹ ہوئے، جو شہری آبادی، معاشی دباؤ اور جرائم کے نیٹ ورکس کی مضبوط موجودگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

یہ تمام اعداد و شمار اس تکلیف دہ حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ پنجاب میں بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے سخت قوانین کے باوجود عملی سطح پر مؤثر اقدامات، تیز رفتار عدالتی کارروائی اور بچوں کے تحفظ کے اداروں کے درمیان بہتر رابطہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے باوجود فیکٹ شیٹ سے زیادہ بچوں کے

پڑھیں:

بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اگر ان یونینز کو مضبوط ادارہ جاتی حمایت ملے اور حکومت ان کے ساتھ مشاورت کا باضابطہ نظام قائم کرے تو بلوچستان کے کان کنوں کے حالات میں حقیقی بہتری ممکن ہے۔
-7 تکنیکی صورتحال:
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اب بھی پرانے برطانوی دور کے سرنگی نظام پر چل رہی ہیں۔ پہاڑ کو دو حصوں میں بانٹ کر جدید طریقوں سے کھدائی کے بجائے زمین کے اندر باریک سرنگیں کھودی جاتی ہیں، جو سستی مگر خطرناک ہوتی ہیں۔ ان سرنگوں میں وینٹی لیشن ناقص ہوتی ہے، جس سے زہریلی گیس جمع ہو جاتی ہے۔
جدید مشینری کی کمی، ناقص بجلی کی فراہمی، اور انسانی محنت پر انحصار نے کان کنی کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ مزدور صرف دستی اوزاروں سے کام کرتے ہیں اور مشینری کے استعمال کی تربیت بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً، حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کئی ٹھیکیدار جدید مشینری خریدنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس سے لاگت بڑھتی ہے۔ ان کے نزدیک مزدوروں کی زندگی کم قیمت سرمایہ ہے۔ حکومتی سبسڈی یا ٹیکنالوجیکل اصلاحات نہ ہونے کے سبب نجی کانیں اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں۔
اگر بلوچستان میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے، مائن سیفٹی ایکٹ پر عمل درآمد کیا جائے، اور تربیتی پروگرام شروع ہوں تو نہ صرف حادثات کم ہوں گے بلکہ پیداوار میں اضافہ بھی ممکن ہوگا۔
-8 نتائج اور سفارشات:
اس تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کے کوئلہ کان کنوں کا معاشی استحصال ایک ہمہ جہتی مسئلہ ہے جس میں ریاستی غفلت، سرمایہ دارانہ نظام، اور تکنیکی پسماندگی تین بڑے عوامل ہیں۔ مزدوروں کی اجرت غیر منصفانہ، ان کی زندگیاں غیر محفوظ، اور ان کے حقوق غیر یقینی ہیں۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنائے، حفاظتی قوانین پر سختی سے عمل کرائے، اور ہر کان میں لائسنس کی تجدید سے قبل حفاظتی معیار کی تصدیق کرے۔
نجی ٹھیکیداری نظام کو شفاف بنایا جائے اور مائن ورکرز کے لیے اجتماعی معاہدہ (Collective Bargaining Agreement)لازم قرار دیا جائے۔ حادثات کی صورت میں فوری ریسکیو یونٹس، انشورنس کوریج اور مالی معاوضہ یقینی بنایا جائے۔
اگر حکومت انسانی سرمائے کو اپنی پالیسی کا مرکز بنائے اور مزدوروں کے حقوق کو ترجیح دے تو بلوچستان کی کان کنی نہ صرف محفوظ ہو سکتی ہے بلکہ ملکی معیشت میں ایک پائیدار کردار ادا کر سکتی ہے۔
-9 حوالہ جات:
1. Directorate of Mines & Minerals Development, Government of Balochistan. Annual Report 2023
2. Pakistan Bureau of Statistics. Labour Force Survey (2022–2023).
3. Dawn News. “Coal Mine Disasters in Balochistan.” (2024).
4. BBC Urdu. “Mach Tragedy: Eleven Hazara Miners Killed.” (2021).
5. Human Rights Watch. Balochistan Miners’ Safety and Exploitation Report. (2022).
(ختم شد)

عبدالحکیم مجاہد گلزار

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کے سکولوں میں ’’ڈنڈا‘‘ رکھنے پر پابندی، طلبہ پر تشدد کا مقدمہ درج ہوگا
  • تشدد اور بال کاٹنے کی وائرل ویڈیو، متاثرہ لڑکی کا بیان سامنے آگیا
  • پنجاب، رواں برس بچوں پر تشدد کے 4 ہزار واقعات رپورٹ، فیکٹ شیٹ جاری
  • کھپرووگردواح میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافہ
  • لڑکی پر تشدد کی ویڈیو، متاثرہ نے خود سامنے آکر سب بتادیا
  • ڈیجیٹل کریئٹرز میں سنگین ذہنی امراض کا خطرہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا
  • بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
  • وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا سہیل آفریدی کے بیان پر ردعمل سامنے آگیا.
  • ایل جی بی ٹی کیو پر بات کرنے والے بچوں کے جنسی استحصال پر خاموش رہتے ہیں، نادیہ جمیل